سرکاری ٹی وی پر قبضے کا واقعہ نواز حکومت کیلئے دھچکاہے، برطانوی اخبار ، پی ٹی وی پر حملہ دارالحکومت پر حکومت کی کمزور گرفت کو اجاگر کرتی ہے، حملہ آوروں کی اکثریت طاہر القادری کے پیروکاروں کی تھی ،فنانشل ٹائمز

بدھ 3 ستمبر 2014 09:01

لندن(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔3ستمبر۔2014ء)اسلا م آباد میں مظاہرین کی طرف سے پاکستان کے سرکاری ٹی وی پر قبضے کی خبریں عالمی میڈیا میں نمایاں طور پر شائع کی گئی۔اس واقعے نے نواز حکومت کے لئے ایک دھچکا قرار دیا۔ اس واقعے نے نواز حکومت کے استحکام کے لئے خدشات پیدا کردیئے۔حملہ آوروں کی اکثریت طاہر القادری کے پیروکاروں کی تھی۔برطانوی اخبار”فنانشل ٹائمز “ لکھتا ہے کہ حکومت مخالف مظاہرین پاکستان ٹیلی ویژن پر حملے کے بعد وزیراعظم ہاوس کی طرف پیش قدمی کی جو محصور انتظامیہ کے لئے ایک دھچکا ہے۔

نجی چینلز نے فوجی اور پیرا ملٹری فورسز کو پی ٹی وی میں داخل ہوتے دکھایا۔ پی ٹی وی پر حملے نے عارضی طور پر نشریات کو معطل کرنے پر مجبور کیا۔ جس سے پاکستانی دارالحکومت پر حکومت کی کمزور گرفت کو اجاگر کرتی ہے۔

(جاری ہے)

قبضے کے دوران مظاہرین نے نشریات کا سامان توڑا۔پی ٹی وی کے منیجنگ ڈائریکٹر محمد مالک کا کہنا ہے کہ پولیس بھاگ گئی ہمیں فوج نے بچایا۔

تجزیہ کار اور غیر ملکی سفارتکاروں کا کہنا ہے کہ نواز شریف حکومت مظاہروں سے نمٹنے کے قابل دکھائی نہیں دیتے۔ خاص کر سویلین پولیس اس مسئلے کو روکنے کا انتظام نہیں کرپائی اور اسے فوج پر چھوڑ دیا گیا۔جس سے یہ شبہ پیدا ہوا کہ کمانڈنگ پوزیشن میں نواز شریف کو کمزور یا معزول کرنے کی کوشش کی گئی۔

ایک سیاسی مبصر اور ریٹائرڈ بریگیڈیئرفاروق حمید خان کا کہنا ہے کہ ہم نے پی ٹی وی کے ارد گرد کے واقعات کے ساتھ دیکھا ہے کہ وزیر اعظم نے عملی طور پر اسلام آباد کا چارج لینے کی صلاحیت کھو دی ہے۔

اسلام آباد میں ایک مغربی اہلکار نے کہاہم حکومت کی مسلسل کم ہوتی حکمرانی کامشاہد ہ کر رہے ہیں یہ صورت حال وزیر اعظم کے مستقبل پر سوال اٹھا رہی ہے۔اتوار کو کور کمانڈ اجلاس نے جوہری ہتھیاروں سے مسلح ملک میں ایک اور بغاوت کے خدشات میں اضافہ کر دیا۔امریکی اخبار ”نیویارک ٹائمز“ لکھتا ہے کہ ایک ہزار مظاہرین نے پاکستانی سرکاری ٹی پر حملہ کرکے قبضہ کرکے نشریات معطل کردیا۔

یہ ڈرامائی مناظر نے ملک میں افراتفری کو مزید گہرا کردیا۔پرامن مظاہرے پرتشدد واقعات میں تبدیل ہو گئے جس سے نواز حکومت کے استحکام کے لئے خطرات میں اضافہ کردیا۔ٹی وی پر حملہ کرنے والوں میں اکثریت طاہر القادری کے پیروکاروں کی تھی،ان کے ہاتھوں میں عوامی تحریک کے جھنڈے تھے اور وہ اس کی حمایت میں نعرے لگا رہے تھے۔ اس ہفتے کے آخر تک تجزیہ کاروں کی اکثریت یہ خیال کرتی رہی کہ فوج اس بحران سے نواز شریف کے اختیارات کو کم کرنے کا فائدہ اٹھائے گی دونوں اطراف کے تعلقات کشیدہ ہیں۔

متعلقہ عنوان :