ماورائے آئین اقدامات کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت،سپریم کورٹ نے سیاسی صورتحال کے حل کیلئے خود کو بطور حتمی ثالث پیش کردیا،عوامی تحریک اور تحریک انصاف سے تجاویز 24 گھنٹوں میں طلب، اسلام آباد میں جاری شورش فاٹا اور وزیرستان سے کیسے مختلف ہے،دو رخی نہیں چلے گی جس نے آنا ہے وہ کھل کر سامنے آئے، جسٹس جواد ایس خواجہ،نیوٹرل ایمپائر صرف سپریم کورٹ ہے اور کوئی نہیں‘وہ حتمی منصفی کر سکتی ہے،جسٹس ثاقب نثار، دھرنوں اور احتجاج کے حوالے سے نجی ٹی وی چینلوں سے فوٹیج بھی طلب کرلی

منگل 2 ستمبر 2014 08:24

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔2ستمبر۔2014ء) سپریم کورٹ نے ماورائے آئین اقدامات کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران احتجاجی دھرنوں اور سیاسی صورتحال کے حل کیلئے خود کو بطور حتمی ثالث پیش کردیا ہے اور کہا ہے کہ وہ سیاسی معاملات کے حل کیلئے اپنا کردار اداکرنے کو تیار ہے اس کیلئے عوامی تحریک اور تحریک انصاف اپنی تجاویز 24 گھنٹوں میں عدالت میں پیش کریں جن کا جائزہ لے کر فیصلہ کیا جائے گا۔

عدالت کا کہنا ہے کہ ہم ملک کے امن کیلئے یہ سب کچھ کررہے ہیں کسی فریق کو مجبور نہیں کر سکتے‘ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اسلام آباد میں جاری شورش فاٹا اور وزیرستان سے کیسے مختلف ہے، اگر یہی لاقانونیت چلنی ہے تو ہم یہاں کس لیے بیٹھے ہیں دو رخی نہیں چلے گی جس نے آنا ہے وہ کھل کر سامنے آئے جبکہ جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ نیوٹرل ایمپائر صرف سپریم کورٹ ہے اور کوئی نہیں‘ سپریم کورٹ ثالثی نہیں بلکہ حتمی منصفی کر سکتی ہے ۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ ریمارکس گزشتہ روز دیتے ہوئے عدالت نے دھرنوں اور احتجاجوں کے حوالے سے نجی ٹی وی چینلوں سے فوٹیج بھی طلب کی ہے۔

سپریم کورٹ نے چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے متوقع ماورائے آئین اقدامات کے خلاف دائر مختلف درخواستوں کی سماعت شروع کی تو اٹارنی جنرل پاکستان نے نے عدالت کو شاہراہ دستور پر ہونے والے ہنگاموں اور دیگر واقعات بارے تفصیلی رپورٹ پیش کی اس دوران انہوں نے عوامی تحریک اور تحریک انصاف کی جانب سے حکومت کے درمیان ہونے والے معاہدے اور این او سی کی تفصیلات بھی پیش کیں۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کو دونوں جماعتوں نے این او سی کے مطابق احتجاج نہیں کیا۔ تمام تر معامالت میں خلاف ورزی کی گئی ‘ معاہدہ ہوا تھا کہ کسی بھی سرکاری عمارت پر حملہ نہیں کیا جائے گا۔ صبح صبح پاکستان ٹیلی ویژن پر حملہ کیا گیا اور سامان کو توڑا پھوڑا گیا مظاہرین نے ہتھوڑے ‘ کٹر سمیت کئی الات اٹھائے ہوئے تھے دونوں جماعتون نے یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ پر امن رہیں گے اور آگے بھی نہیں بڑھیں گے۔

مگر حالات یہ ہیں کہ پارلیمنٹ کا جنگلہ توڑا گیا اور لوگ قومی اسمبلی کے گراؤنڈ میں داخل ہوگئے۔ پاک سیکرٹریٹ کے دروازے کو بھی آگ لگائی گئی۔ اس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ یہ جو شورش ہورہی ہے یہ فاٹا اور وزیرستان سے کیسے مختلف ہے اگر یہی لاقانونیت چلتی رہی تو ہم یہاں کس لیے بیٹھے ہیں دورخی نہیں چلے گی جس نے آنا ہے وہ کھل کر سامنے آئے انہوں نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ بتایا جائے کہ آئین و قانون کی پاسداری ہوگی یا نہیں اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت تمام معاملات کو حل کرنے کی مخلص کوششیں کررہی ہے اس حوالے سے آرمی چیف نے بھی تحریک انصاف کے چیئرمین اور عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری سے ملاقات بھی کی تھی اس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ دونوں جماعتوں نے پر امن رہنے کی یقین دہانی کرائی تھی اب وہ خود ہی آئین کو پاؤ تلے روند رہے ہیں دونوں جماعتوں کا جواب بھی عدالتی سماعت کا حصہ ہے لکھ کرکچھ دیا جاتا ہے عملاً اس کے برعکس کیا جاتا ہے اس دوران عدالت نے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کو مسائل حل کرانے کیلئے سپریم کورٹ کی جانب سے پیشکش کی

چیف جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ اگر دونوں جماعتیں چاہیں تو عدالت اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہیں جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ حقیقی ایمپائر سپریم کورٹ ہے اور وہ حتمی منصف کے طور پراپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔

عدلات نے اس حوالے سے تحریک انصاف کے وکیل احمد اویس اور عوامی تحریک کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ وہ اپنے موکلان سے ملاقات کرکے تجاویز حاصل کرکے عدالت میں پیش کریں ان کا آئین و قانون کی روشنی میں جائزہ لے کر فیصلہ کردیا جائے گا اس کے لئے عدالت نے ایک گھنٹے کا وقت دیا ۔ بعد ازاں جب دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو آصف توفیق ایڈووکیٹ نے عدالت سے استدعا کی کہ وقت بہت کم ہے عدالت اس معاملے کی مسلسل سماعت کرے چاہے رات کو بھی بیٹھنا پڑے بادی النظر میں تو لگ رہا ہے کہ عوامی تحریک انصاف سپریم کورٹ کو ثالث بنانے کیلئے تیار نہیں ہیں حامد خان نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ کو فیصلے کا اختیار دینے بارے عمران خان فرد واحد کے طور پر فیصلہ نہیں کر سکتے اس کیلئے کور کمیٹی کا اجلاس طلب کرنا پڑے گا وہی اس کا فیصلہ کرے گی یہی بات عوامی تحریک کے وکیل نے بھی کی جس پر اٹارنی جنرل نے کہاکہ جو املاک کو نقصان پہنچایا گیا اس پر حکم امتناعی جاری کیا جائے جس کو عدلت نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری املاک کو نقصان پہنچنے سے روکنا عدالت کی نہیں حکومت کی ذمہ داری ہے۔

بعد ازاں عدالت نے احتجاجی دھرنوں اور دیگر واقعات بارے نجی ٹی وی چینلوں سے فوٹیج طلب کی ہے جس کو منگل کے روز دیکھنے کے بعد باقی سماعت کی جائے گی مزید سماعت آج منگل کو ہوگی۔