سپریم کورٹ نے موجودہ حالات میں ممکنہ غیر آئینی اقدام روکنے سے متعلق درخواست پر وفاق کو جامع جواب داخل کرنے کے لیے 48گھنٹوں کی مہلت دے دی،کسی رکن اسمبلی نے حلف کی خلاف ورزی کی ہے تو پارلیمنٹ کو نوٹس لینا چاہئے، جسٹس جواد،سپریم کورٹ کے 17 ججزہیں ان کے پاس ایک چھڑی بھی نہیں، عدالت کے پاس صرف اخلاقی اتھارٹی ہے،ریمارکس،کیا آرٹیکل 5 اور 6 کی موجودگی میں کوئی ماورائے آئین اقدام ممکن ہے؟جسٹس ثاقب نثار

منگل 19 اگست 2014 09:45

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔19اگست۔2014ء )سپریم کورٹ نے موجودہ حالات میں ممکنہ غیر آئینی اقدام روکنے سے متعلق درخواست پر وفاق کو جامع جواب داخل کرنے کے لیے 48گھنٹوں کی مہلت دے دی جبکہ سینئرترین جج جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ انتظامیہ اور ارکان پارلیمنٹ کو اپنے حلف کے مطابق چلنا ہے۔ اگر کسی رکن قومی اسمبلی نے حلف کی خلاف ورزی کی ہے تو پارلیمنٹ کو نوٹس لینا چاہئے، ہم یہاں 5 جج بیٹھے ہیں۔

سپریم کورٹ کے 17 ججزہیں ان کے پاس ایک چھڑی بھی نہیں، عدالت کے پاس صرف اخلاقی اتھارٹی ہے۔جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے آئین کے تحت حلف اٹھایا ہے اور اس کے تحفظ کے لئے یہاں بیٹھے ہیں،وہ خود ہی بتائیں کہ درخواست میں کیا استدعا کی گئی ہے۔

(جاری ہے)

کیا یہ ممکن ہے کہ آرٹیکل 5 اور 6 کی موجودگی میں کوئی ماورائے آئین اقدام ہو۔انھوں نے یہ ریمارکس پیر کے روز دیئے ہیں، وکلاء کی تاخیرسے آمد کی وجہ سے سپریم کورٹ نے درخواست کی سماعت میں تاخیر کی اور ایک بجے کے بعدسماعت شروع کی ۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں جسٹس جواد ایس خواجہ، جسٹس انور ظہیر جمالی، جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس آصف سعید خان کھوسہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے ممکنہ غیر آئینی اقدام کو روکنے کے لئے درخواست کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اور درخواست گزار کامران مرتضیٰ نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے مختلف بیانات کا ریکارڈ عدالت میں پیش کردیا۔

انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 5 کے تحت آئین سے وفاداری ہر شہری پر لازم ہے ، ملکی صورتحال ہر روز تبدیل ہو رہی ہے، اب تو سول نافرمانی کا بھی اعلان کر دیا گیا ہے،اس بارے میں انہوں نے ایک الگ درخواست بھی دی ہے لیکن اب تک اس کا ڈائری نمبرنہیں لگ سکا جس پر جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے آئین کے تحت حلف اٹھایا ہے اور اس کے تحفظ کے لئے یہاں بیٹھے ہیں،وہ خود ہی بتائیں کہ درخواست میں کیا استدعا کی گئی ہے۔

کیا یہ ممکن ہے کہ آرٹیکل 5 اور 6 کی موجودگی میں کوئی ماورائے آئین اقدام ہو، فاضل جج سے مکالمہ کے دوران کامران مرتضیٰ نے کہا کہ دونوں آئینی آرٹیکلز کی موجودگی میں غیر آئینی اقدام ممکن تو نہیں لیکن پھر بھی حالات اس طرح کے بن رہے ہیں۔لاہور ہائی کورٹ بار کی جانب سے دائر کی گئی ایک اور درخواست پر اپنے دلائل میں صدر لاہور ہائی کورٹ بار شفقت چوہان نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کی طرف سے سول نافرمانی کا اعلان عوامی نمائندگی ایکٹ کی خلاف ورزی ہے،عمران خان نے سول نافرمانی کا اعلان کر کے اپنے حلف کے خلاف ورزی کی ہے، جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ انتظامیہ اور ارکان پارلیمنٹ کو اپنے حلف کے مطابق چلنا ہے۔

اگر کسی رکن قومی اسمبلی نے حلف کی خلاف ورزی کی ہے تو پارلیمنٹ کو نوٹس لینا چاہئے، ہم یہاں 5 جج بیٹھے ہیں۔ سپریم کورٹ کے 17 ججزہیں ان کے پاس ایک چھڑی بھی نہیں، عدالت کے پاس صرف اخلاقی اتھارٹی ہے۔عدالت نے اٹارنی جنرل کو حکم دیا کہ وفاق تمام متعلقہ مواد کے ساتھ جامع جواب داخل کرائے اور بارایسوسی ایشن کی درخواستوں کو بھی یکجا کیا جائے، کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ عدالت عظمیٰ سیکریٹری دفاع کو بھی فریق بنائے اور اسے بھی نوٹس جاری کیا جائے،جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ تمام ادارے وفاق کے ماتحت ہیں کسی بھی ادارے کو علیحدہ سے نوٹس دینے کی ضرورت نہیں۔ کیس کی مزید سماعت 20 اگست کو ہوگی۔