آزادی اور انقلابی مارچ، صورتحال کنٹرول سے باہر ہونے کے امکانات، سیاسی حلقوں میں ان ہاؤس تبدیلی کے امکانات پر بھی بحث شروع ہوگئی ، حکومتی ارکان پارلیمنٹ نے نوازشریف کے متبادل کی تلاش شروع کر دی،کئی ارکان نے وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ کو درست متبادل قراردیدیا ہے، چوہدری نثاردوڑ میں بہت پیچھے ہیں،سیاسی ذرائع

پیر 18 اگست 2014 09:05

فیصل آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔18اگست۔2014ء)آزادی اور انقلابی مارچ کے جوانوں کے جوش و خروش کے باعث صورتحال کنٹرول سے باہر ہونے کے امکانات کے بعد سیاسی حلقوں میں ان ہاؤس تبدیلی کے امکانات پر بھی بحث شروع ہوگئی ہے اور حکومتی ارکان پارلیمنٹ نے نوازشریف کے متبادل کی تلاش شروع کر دی ہے اور کئی ارکان نے اس مقصد کیلئے وفاقی وزیر لیفٹیننٹ جنرل عبدالقادر بلوچ کو درست متبادل قراردیا ہے جن کا موقف ہے کہ چوہدری نثار علی خان اس دوڑ میں بہت پیچھے ہیں جبکہ عبد القادر بلوچ مقتدر قوتوں کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ کے لئے بھی پسندیدہ شخصیت جانے پہچانے جاتے ہیں اور ریٹائرڈ فوجی افسر ہیں جو بلوچستان سے لیفٹیننٹ جنرل کے عہدہ پر پہنچ کر ریٹائرڈ ہوئے اور کور کمانڈر گوجرانوالہ بھی تعینات رہے۔

(جاری ہے)

خبر رساں ادارے کو سیاسی ذرائع نے بتایا کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی جو کابینہ کے چند وزراء کے خلاف تھے انہوں نے اس دوران اپنے دیرینہ دوست کلاس فیلو اور اکٹھی کرکٹ کھیلنے والے عمران خان کے ساتھ مسلسل رابطہ رکھا ہوا تھا ۔عمران خان کو آزادی مارچ کا مشورہ دینے میں بھی چوہدری نثار شامل تھے اس لئے عمران خان نے گزشتہ رات اپنے آزادی مارچ میں کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے چوہدری نثار کو اپنی طرف سے مشورہ دیا کہ وہ مسلم لیگ (ن) کو چھوڑ کر تحریک انصاف میں آجائیں اور فیصلہ کریں کہ انہوں نے بادشاہت کا ساتھ دینا ہے یا عوام کا؟۔

دوسری طرف بعض وفاقی وزراء اور وزیر اعظم کے قریبی ساتھیوں نے وزیرا عظم کو چوہدری نثار کی مشکوک سرگرمیوں سے آگاہ کیا ۔وزیر اعلی پنجاب نے وزیر اعظم نواز شریف کو چوہدری نثار کی مکمل وفاداری کی یقین دہانی کراتے ہوئے ان سے صلح کرائی تھی۔ذرائع کے مطابق آزادی مارچ اور دھرنے کی وجہ سے ملک کی سیاسی جماعتوں کے اکابرین نے وزیر اعظم کو مکمل تعاون کا یقین دلاتے ہوئے انہیں اشاراً اپنے قریبی ساتھیوں سے محتاط رہنے کا مشورہ دیا ہے ۔

مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے اکثریت ممبران قومی اسمبلی تبدیلی کی صورت میں چوہدری نثار علی کو کسی بھی صورت قائد ایوان منتخب کرنے کے لئے ووٹ نہیں دیں گے ۔انہوں نے اپنی قیادت پر واضح کر دیا ہے کہ اگر ایسی صورت حال پیدا ہوئی تو جماعت کے فیصلے کے پابند نہیں ہوں گے کیونکہ چوہدری نثار علی کا رویہ 1985 ء سے لیکر اب تک آمرانہ رہا ہے جبکہ قومی اسمبلی میں موجود دیگر سیاسی جماعتیں جن میں جے یو آئی (ف)،ایم کیو ایم،نیشنل عوامی پارٹی ،پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتیں قائد ایوان میں تبدیلی کی صورت میں چوہدری نثار کی حمایت نہیں کریں گی جبکہ عبد القادر بلوچ کی حالیہ دہشت گردی کے اقدامات اور آئی ڈی پیز کے سلسلے میں کام کرنے پر تمام سیاسی جماعتیں حمایتی ہیں ۔