پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت 26اگست تک ملتوی، وکیل صفائی کی درخواست پر پراسیکیوشن ٹیم کو کیس کی تفتیشی ڈائریاں اور پراگرس رپورٹ آج عدالت میں جمع کروانے کی ہدایت ، وکیل صفائی کے خدشات کے پیش نظر عدالت نے مقدمہ کا ریکارڈ طلب کیا ہے تاکہ اس کا جائزہ لیا جا سکے،جسٹس فیصل عرب

بدھ 13 اگست 2014 09:05

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔13اگست۔2014ء)سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کرنے والی تین رکنی خصوصی عدالت نے مقدمہ کی سماعت 26اگست تک ملتوی کرتے ہوئے وکیل صفائی کی درخواست پر پراسیکیوشن ٹیم کو کیس کی تفتیشی ڈائریاں اور پراگرس رپورٹ آج بدھ کو عدالت میں جمع کروانے کی ہدایت جاری کر دی ہے، دوران سماعت عدالتی سربراہ جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیئے ہیں کہ وکیل صفائی کے خدشات کے پیش نظر عدالت نے مقدمہ کا ریکارڈ طلب کیا ہے تاکہ اس کا جائزہ لیا جا سکے۔

منگل کے روز جسٹس طاہرہ صفدر اور جسٹس یاور علی پر مشتمل تین رکنی خصوصی عدالت نے جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں مقدمہ کی سماعت کی ۔سماعت کے موقع پر سابق صدر پرویز مشرف کے وکیل فروغ نسیم نے عدالت کو بتا یا کہ ان کی ٹیم کے رکن شوکت حیات خان کے سسر فوت ہوگئے ہیں جبکہ اسلام آباداور ملکی حالات بھی ٹھیک نہیں لہذا کیس کی سماعت ملتوی کی جائے ۔

(جاری ہے)

ان کا کہنا تھا کہ وہ تیاری نہ ہونے کے باعث گواہوں پر جرح نہیں کر سکیں گے صرف ریکارڈ میں ٹمپرنگ اور تیتیشی ڈائریوں کی فراہمی سے متعلق درخواست پر دلائل دیں گے۔

اس موقع پر چیف پراسیکیوٹر اکرم شیخ نے عدالت سے استدعا کی کہ ملکی حالات غیر یقینی اور خراب ہیں لہذا مقدمہ کی سماعت نہ کی جائے تاہم عدالت نے ان کی درخواست مسترد کرتے ہوئے قرار دیا کہ آج مقدمہ کی سماعت ہوگی ۔

بعد ازاں وکیل دفاع فروغ نسیم نے اپنے دلائل میں موقف اختیار کیاکہ وکیل دفاع کو کیس کی تفتیشی ڈائریاں فراہم کرنے کے حوالے سے متعدد کیسوں کے فیصلوں کی مثالیں موجود ہیں اگرانہیں ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیاتو یہ شفاف ٹرائل اور آئین کے آرٹیکل 10اے (10-A)کی خلاف ورزی ہوگی۔ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی آے کے تفتیشی افسرحسین اصغر کا اختلافی نوٹ بھی انہیں تا حال فراہم نہیں کیاگیاصرف اسے جنرل کیس کی رپورٹ کا حصہ بنادیا گیایہی وجہ ہے کہ اسے عدالت کے کٹہرے میں پیش نہیں کیا جارہا ہے ،انہوں نے اپنے نوٹ میں دیگر شریک کاروں کو بھی شامل تفتیش کرنے کی بات کی ہے مجھے خدشہ ہے کہ ایف آئی اے کے ریکارڈ میں مبینہ ٹمپرنگ کی گئی ہے اور تفتیش میں قانون کے تقاضے پورے نہیں کیئے گئے ہیں اس لئے عدالت جائزہ لینے کے لئے ریکارڈ تحویل میں لے یہ فاضل عدالت کی اخلاقی ذمہ داری بھی ہے آئین کے آرٹیکل 172کے تحت متعلقہ ریکارڈ ڈیفنس کونسل کو بھی فراہم کیا جانا چاہئے ۔

جس پر اکرم شیخ نے اپنے دلائل کا آغازان اشعارسے کرتے ہوئے”دعائے کاتب کو آتے آتے دیر لگے گی ، مجھے معلوم ہے انہوں نے اپنے جواب میں کیا لکھنا ہے ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے، بہت نکلے دل کے ارماں مگرپھر بھی کچھ کم نکلے“ کہا کہ وہ مقدمہ کا تما م ریکارڈ وکیل دفاع کو فراہم کرچکے ہیں ،مگر انہیں تسلی نہیں ہو رہی اور تقاضے بڑھتے جارہے ہیں،تفتیشی ڈائریاں ایف آئی اے کے ہیڈکواٹر میں لکھی گئیں ،روزنامچہ نہیں لکھاگیا ڈائریاں اور پراگرس رپورٹ 12 آفیشل کو فراہم کی گئیں، ملزم کو یہ فراہم نہیں کی جاسکتی ٹمپرنگ کے الزمات غلط ہیں ،شروع دن سے ہی عدالت کو اعتماد میں لیتے ہوئے کوئی چیز خفیہ نہیں رکھی گئی ہے اب عدالتی حکم پر مذکورہ تفتیشی ڈائریاں اور پراگرس رپورٹ سربمہرلفافے میں عدالت کو فراہم کردی جائے گئی۔

فریقین کے وکلاء کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے مذکورہ حکم جاری کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ گواہوں پر جرح آئندہ سماعت پر کی جائے گی ۔مقدمہ کی آئندہ سماعت 26اگست کو ہوگی۔

متعلقہ عنوان :