ڈاکٹر طاہر القادری کا شہداء ماڈل ٹاؤن کی یاد میں 10اگست کو یوم شہداء منانے کا اعلان،حکومت رکاوٹیں ڈالنے، گرفتاریوں اورٹرانسپورٹرز کو ہراساں کرنے سے باز رہے ورنہ یہ یوم شہداء ہم جاتی امراء رائیونڈ میں جاکرمنائیں گے،انتباہ، اگست کے دوران وفاقی اور پنجاب حکومتیں ختم ہو جائیں گی، اب یہ فیصلہ خود نوازشریف کریں کہ پہلے انہوں نے گھر جانا ہے یا بھائی کو بھیجنا ہے، ایسی فون کالز کا ریکارڈ حاصل کرلیا ہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ شہباز شریف سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ملوث ہیں،ہم 14کے بدلے 14کے قرآنی قصاص کے فیصلہ پر قائم ہیں،مغربی ممالک جائزہ لیں کہ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ جہاں 14قتل کی ایف آئی آر بھی لواحقین کو درج کرنے کا حق نہیں دیا گیا ، کیا ایسا کسی مغربی جمہوریت میں ہو سکتا ہے، منہاج القرآن سیکرٹریٹ میں مختلف جماعتوں کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس

پیر 4 اگست 2014 08:50

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔4اگست۔2014ء)پاکستان عوامی تحریک اور تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کی یاد میں 10اگست کو مرکزی سیکرٹریٹ میں یوم شہداء منانے کا اعلان کرتے ہوئے حکومت کو خبردار کیا ہے کہ وہ رکاوٹیں ڈالنے، گرفتاریوں اورٹرانسپورٹرز کو ہراساں کرنے سے باز رہے ورنہ یہ یوم شہداء ہم جاتی امراء رائیونڈ میں منائیں گے اور دعوی کیا ہے کہ اگست کے دوران وفاقی اور پنجاب حکومتیں ختم ہو جائیں گی، اب یہ فیصلہ خود نوازشریف کریں کہ پہلے انہوں نے گھر جانا ہے یا بھائی اور بھتیجے کی حکومت کو ختم کرنا ہے،ہم نے ایسی فون کالز کا ریکارڈ حاصل کرلیا ہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ شہباز شریف سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ملوث ہیں،ہم 14کے بدلے 14کے قرآنی قصاص کے فیصلہ پر قائم ہیں،مغربی ممالک جائزہ لیں کہ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ جہاں 14قتل کی ایف آئی آر بھی لواحقین کو درج کرنے کا حق نہیں دیا گیا ، کیا ایسا کسی مغربی جمہوریت میں ہو سکتا ہے ،وہاں تو جو تحفظ کتوں کو حاصل ہے وہ یہاں انسانوں کوحاصل نہیں۔

(جاری ہے)

وہ اتوار کو یہاں منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ میں مختلف جماعتوں کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔

اجلاس میں مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت حسین، مرکزی رہنما چوہدری پرویز الٰہی، مجلس وحدت مسلمین کے امین شہیدی اور راجہ ناصر عباس سمیت بڑی تعداد میں رہنماؤں نے شرکت کی۔ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ اس وقت ہمارے سامنے دو مقدمات ہیں ، ایک لاہور میں ہونے والے14 شہداء کے قتل کا مقدمہ اوردوسرا اسلام آباد میں کروڑوں لوگوں کے معاشی اور سماجی قتل کا مقدمہ ہے ۔

ایک مقدمہ قصاص کا اور دوسرا انقلاب کا مقدمہ ہے۔پاکستانی عوام کی زندگی مغربی ممالک کے کتوں سے بھی بدتر ہے۔وہاں کتے کو مارنے والے کو سزا ملتی ہے یہاں درجنوں شہادتوں کی ایف آئی آر کاٹی جاتی ہے۔ پتھر پر لکیر ہے ۔اگست ختم ہونے سے قبل حکومت ختم ہو جائے گا۔ امن کی خاطر صبر کیا۔ چاہتے تو رائے ونڈ کی اینٹ سے اینٹ بجا سکتے تھے۔ہمارے کارکنوں کی لسٹیں بنانے والوں کی کارکن بھی لسٹیں بنائیں کہ بدمعاش کون ہے۔

نواز شریف فیصلہ کر لیں پہلے خود جائیں گے یا بھائی اور بھتیجے کو بھیجیں گے۔پریس کانفرنس میں انہوں نے شریکسیاسی اور مذہبی جماعتوں کے سربراہان اور دیگر اقلیتی وفود کا اجلاس میں شرکت کرنے پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہم سب کی مشترکہ پریس کانفرنس ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت دو مقدمے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں ایک مقدمہ لاہور جو14 شہادتوں اور90 افراد پر اقدام قتل کا ہے دوسرا مقدمہ اسلام آباد 18 کروڑ عوام کے معاشی اور سماجی قتل کا ہے ۔

مقدمہ لاہور کی ایف آئی آر ڈیڑھ ماہ گزر جانے کے باوجود کاٹی نہیں جا سکی ۔قانون ،عوام ادارے ریاست اور حکومت بے بس ہے اور شہداء کے وارث گان کی ڈیڑھ ماہ سے کوئی شنوائی نہیں ہو رہی جو ڈیڑھ ماہ سے عدالتوں کے دھکے کھا رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ مقدمہ لاہور کا فیصلہ حساس اور مقدمہ اسلام آباد کا فیصلہ انقلاب ہے۔ مقدمہ اسلام آباد میں کروڑوں لوگوں کے معاشی اور سماجی قتل کی ایف آئی آر کون کاٹے گا جو مدتوں سے دھکے کھاتے پھرتے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ،برطانیہ اور یورپی ممالک کو بتانا چاہتا ہوں کہ پاکستان میں کچھ لوگوں کو غلط فہمی ہے کہ یہاں جمہوریت اور آئین اور قانون نام کی کوئی چیز ہے انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ پاکستانی عوام کی زندگی مغربی ممالک کے کتوں سے زیادہ بدتر ہے ۔یہاں کے کروڑوں لوگوں کو وہ حقوق بھی میسر نہیں جوبی کتوں کو میسر ہیں۔وہاں کوئی حاکم بھی کتے کو گولی مارے تو انصاف ہوتا ہے لیکن یہاں 16 لوگوں کی شہادت پر ایف آئی آر بھی درج نہیں ہوتی ۔

مغربی ممالک جواب دیں کہ ان کے ممالک میں ایسا واقعہ ہوتا تو کیا حکمران جیل میں ہوتے کہ نہیں اور کیا حکومتیں ختم ہوتیں کہ نہیں ۔پنجاب کی ایلیٹ فورس کے اہلکار نے اپنے بیان میں تسلیم کیا کہ ایس ایم جی کے 469 فائر کئے گئے اور جی تھری کے 59 فائر ہوئے ان میں سے کچھ افراد جنہیں شناخت کیا گیا تھا انہیں حاکم پنجاب نے ویزہ لگوا کر فرار کروا دیا ان اہلکاروں میں ایس ایچ او شادمان شیخ عاصم، پولیس اہلکار ریاض شامل ہیں اور ایسی خون کالز کی ریکارڈنگ دستیاب ہو چکی ہیں جن سے شہباز شریف کا سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ملوث ہونا ثابت ہوتا ہے ۔

یہ ریکارڈ اپنے وقت پر سامنے لایا جائیگا ۔انہوں نے کہا کہ افسوس کہ وزیراعلی یا ان کے زیر سایہ کام کرنے والوں کو شرم نہیں کہ وہ قتل عام کرنے والوں کو جیل بھیجتے اور ذمہ داری قبول کر کے خود مستعفی ہوتے لیکن کوئی بھی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں۔

یہ لوگ 18 کروڑ عوام کے معاشی اور آئین اور قانون اور جمہوریت کے قتل عام کی ذمہ داری کیسے قبول کریں گے ۔

17 جون کو جس طرح حکومت اور پولیس نے شریف برادان کے حکم پر نہتے لوگوں پر جبروتشدد کیا اور گرفتار کارکنوں پر تشدد کیا گیا ،لوگوں کو گھسیٹا گیا اور پردہ دار خواتین پر ظلم وجبر کیا گیا اور زخمیوں کو گرفتار اور14 کو گولیوں سے نشانہ بنایا گیا اس کی مثال جمہوری دنیا کی تاریخ میں کہیں بھی نہیں ملتی۔ملک کے بہت سے اداروں،سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا لیکن حکومت نے کوئی کارروائی نہیں کی ۔

انہوں نے کہا کہ امن وامان کی خاطر ہم نے بہت سے اقدامات سے گریز کیا اگر ہم چاہتے تو حکومت کے خاتمے تک شہداء کے جنازوں کو دفنانے سے انکار کرتے اور جنازے پنجاب اسمبلی کے باہر رکھ کر اتنا بڑا دھرنا دیتے جو حکومت کے ختم ہونے تک جاری رہتا اگر ہم چاہتے تو ظلم وبربریت کے خلاف اسی روز قوم کو اٹھنے کی کال دیتے اور چاہتے تو لاہور کو اسی روز سیل اور رائے ونڈ کے محل کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے یہ بعید نہیں تھا ۔

مگر ہم نے صرف امن کی خاطر ایسا نہیں کیا۔انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں میری آمد کے موقع پر سینکڑوں لوگوں کو گرفتار اور کئی لوگوں پر دہشت گردی کا مقدمہ درج کیا گیا جس کی ابھی تک ضمانت بھی نہیں ہوئی اور اسلام آباد کی ہائی کورٹ نے ضمانت کو سماعت کے لئے بھی نہیں لگایا اگر ہم چاہتے تو ایک لاکھ کے قریب اسلام آباد ائیر پورٹ پر قبضہ کر لیتے لیکن ہم نے امن کو ترجیح دی کیونکہ ہم ملک میں انارکی نہیں چاہتے تھے ۔

انہوں نے کہا کہ سانحہ شہداء کی روحیں ہم سے پوچھ رہی ہیں کہ کیا ہمارا خون اور قربانی رائیگاں چلا جائے گا اور کیا ملک میں بیٹیوں پر ظلم ہوتا رہے گا کیا قوم بے حس و بے غیرت ہو جائے گی۔کیا قاتلوں کے خلاف ایف آئی آر نہیں کٹے گی اور وہ گرفتار اور تختہ دار پر نہیں چڑھائے جائیں گے ۔شریف برادران نے یہ سمجھ لیا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس خون کو لوگ بھول جائیں گے لیکن میں حکومت اور وزیراعلیٰ پنجاب کو بتانا چاہتا ہوں کہ انقلاب مارچ سے قبل انہیں شہداء کے خون کا حساب دینا اور قاتلوں کو جیل ڈالنا ہوگا اور قانون کے آگے انہیں اپنا سر جھکانا ہوگا۔

شہداء کی روحوں کو خراج عقیدت پیش کرنے اور ان کی قربانیوں کو سلام کرنے کے لئے دس اگست کو یوم شہداء منایا جائیگا جس کی دعوت تمام قوم کو دی جارہی ہے اور ہر آنے والا اپنے ساتھ تسبیح،قرآن مجید اور جائے نماز لیکر آئے ۔یہاں قرآن خوانی اور دعا ہوگی ۔انہوں نے کہا کہ یوم شہداء انتہائی پرامن ہو گا جس کی ضمانت دے ہوں اور پنجاب پولیس کو بتا رہا ہوں کہ تمہارا جسم اور کپڑے شہیدوں کے خون سے لت پت ہیں ۔

اگر یوم شہداء پر آنے والوں پر کسی نے ظلم و جبر کیا اور کسی کو زدوکوب کیا ۔روکا یا تشدد کیا اور غیر جمہوری ہتھکنڈے سے اپنائے تو پھر یوم شہداء ماڈل ٹاؤن میں نہیں جاتی امراء رائے ونڈے کے محل میں منایا جائیگا۔انہوں نے کہا کہ حکمرانو میں نے پونے دو ماہ صبر کیا اور آئین اور قانون کے مطابق چلے ۔ہم تمہیں اور تمہارے اقتدار کو ایک ٹھوکر سے پاش پاش کر سکتے ہیں ہم آزادی والے لوگ نہیں ہم انقلاب والے لوگ ہیں۔

ہم سب شہیدوں کا بدلہ لیں گے ۔مجھے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی اور نہ کوئی خوف دلا سکتا ہے۔حکمرانو تم خطرناک راستے پر چل پڑے ہو۔شہباز شریف اور نواز شریف یا جاتی امراء کا محل بچائیں یا لوگوں کے جان و مال کا تحفظ کریں اور ظلم و بربریت کو روک لیں ۔

انہوں نے کہا کہ شریف برادران نے پولیس کو اتنا بدنام کر دیا ہے کہ ان کی درندگی پر ان کے اپنے اہلخانہ بھی ان پر لعنت بھیجتے ہیں۔

پولیس اہلکاروں کو وارننگ دے رہا ہوں کہ وہ شریف برادران کے کسی بھی غیر آئینی اور غیر قانونی حکم کو نہ مانیں اگر حکومت نے یوم شہداء پرآنے والوں کو روکا تو پھر دمادم مست قلندر ہوگا ۔پولیس والوں تم جو سلوک کرو گے وہی سلوک تمہارے ساتھ کیا جائیگا ہم اس وقت تک امن میں رہیں گے جب تک کسی کارکن یا آنے والے امن میں رہیں گے ۔لیکن ظلم و تشدد کیا گیا تو آپ کا محاصرہ ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ پولیس والے ہمارے کارکنوں کی فہرستیں بنا رہے ہیں ۔کارکن بھی تیاری کریں اور ان پولیس والوں کی فہرستیں بنانا شروع کر دیں کہ ان میں کون کون بدمعاش ہے۔ انہوں نے کہا کہ قرآن کا فیصلہ آنکھ کے بدلے آنکھ،کان کے بدلے کان اور جان کے بدلے جان ہے ۔ہمارے 14 کارکن شہید ہوئے اب 15 ہوگئے ہیں اور15 کے بدلے 15 ہوں گے۔قانون بے بس رہا تو عوامی عدالت فیصلہ کرے گی ۔نواز شریف فیصلہ کر لیں پہلے خود جائیں گے یا پھر اپنے بھائی اور بھتیجے کو گھر بھیجیں گے ابھی تو ہم نے صرف یوم شہداء کا اعلان کیا ہے ۔دس اگست سے پہلے4 سے 9 اگست تک ہفتہ شہداء ہوگا اور شہداء کی یاد میں شمعیں روشن ہوں گی۔