فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور وزارت خزانہ کا ایک اعلی سطح کا وفد رواں ماہ کی 24 تاریخ کوسوئٹزرلینڈ کے بڑے شہر زیورچ روانہ ہو گا ،سوئس حکام سے پاکستان اور سوئٹزر لینڈ کے درمیان موجود دوہرے ٹیکسوں کے معاہدے میں ترامیم کے لئے باقائدہ بات چیت شروع کر ے گا،سوئس بینکوں میں موجود تقریبا 200 ارب ڈالرز مالیت کی پاکستانی رقوم کے حوالے سے مذاکرات شروع ہونگے

اتوار 3 اگست 2014 09:35

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔3اگست۔2014ء ) فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور وزارت خزانہ کا ایک اعلی سطح کا وفد رواں ماہ کی 24 تاریخ کوسوئٹزرلینڈ کے بڑے شہر زیورچ روانہ ہو گا جہاں وہ سوئس حکام سے پاکستان اور سوئٹزر لینڈ کے درمیان موجود دوہرے ٹیکسوں کے معاہدے میں ترامیم کے لئے باقائدہ بات چیت شروع کر ے گاتا کہ سوئس بینکوں میں موجود تقریبا 200 ارب ڈالرز مالیت کی پاکستانی رقوم کے حوالے سے مذاکرات شروع کئے جا سکیں۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو ذرائع کے مطابق اسلام آباد سوئس حکام سے کسی نئے معاہدے کی بجائے دونوں ممالک کے مابین موجودہ معاہدے میں ہی ترامیم کا خواہش مند ہے اور اس حوالے سے پہلے ہی دونوں ممالک کے متعلقہ حکام رابطہ میں ہیں تاہم باقائدہ بات چیت کا آغاز رواں ماہ کے آخری ہفتہ میں پاکستان کے اعلی سطح کے وفد کے دورہ سوئٹزرلینڈسے ہو گا۔

(جاری ہے)

پاکستان سوئٹزرلینڈکے نئے متعارف شدہ قوانین سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سوئس بینکوں میں موجود پاکستان پیسہ اور ٹیکسوں کی ادائیگی کے حوالے سے معلومات اور بعد ازاں اس پیسہ کو واپس لانے کا خواہشمند ہے جبکہ پرانے سوئس قوانین کے تحت سوئس حکومت ایسی معلومات کے تبادلہ کی مجاز نہیں تھی۔

پاکستان کے جانب سے تمام کوشیشوں کا آغاز سوئٹزر لینڈ میں نئے قانون بعنوان The Restitution of Illicit Asset Act 2010 (RIAA) کے متعارف کرائے جانے کے بعد ہوا ہے جس کے تحت اب سوئس حکومت اپنے ملک میں موجود خفیہ بیک اکاؤنٹس کے حوالے سے خفیہ معلومات کے تبادلہ کر سکتی ہے۔ ذرائع نے دعوی کیا ہے کہ اس حوالے سے دونوں ممالک میں پہپلے ہی اعلی سطح کے رابطوں کا آغاز ہو چکا ہے اور بات چیت جاری ہے، پاکستان دونوں ممالک کے درمیان موجودہ معاہدے میں ہی ترامیم لانے کا ضواہشمند ہے کیونکہ نیا معاہدہ کرنا آسان نہیں ہو گا اور اس صورت میں کافی قانونی مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے۔

اسلام آباد کی درخواست پر سوئس حکام پہلے ہی دوہرے ٹیکسوں کے حوالے سے معاہدہ پر نظر ثانی کے حوالے سے رضامندی کا اظہار کر چکے ہیں اور اس حوالے سے رابطے جاری ہیں۔گذشتہ دنوں پاکستانی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے واضح کیا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان اس حوالے سے کسی نئے معاہدے یا پرانے معاہدے میں نظر ثانی کا عمل محض چند مزاکراتی نشستوں میں طے نہیں ہو سکتا بلکہ دونوں صورتوں میں اس میں 2-3 برس کا عرصہ لگ سکتا ہے۔

وفاقی کابینہ پہلے ہی پاکستان اور سوئٹزر لینڈ کے درمیان معاہدے پر نظرثانی کے لئے ستمبر 2013 ء میں اپنی منظوری دے چکی ہے۔پاکستان اور سوئٹزر لینڈ کے درمیان دوہرے ٹیکسوں کا معاہدئے پر Double Taxation Agreementپر 2005 میں کام شروع ہوا اور 2008 ء میں اس کا باقائدہ نفاذ عمل میں آیا تھا ۔

واضح رہے کہ سوئس بینکوں میں موجود پاکستانی رقوم کے حوالے سے کوئی واضح اعداد و شمار موجود نہیں ہیں تا ہم وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے دعوی کے مطابق اس رقم کی مالیت 200 ارب ڈالرز سے زائد ہے۔

Credit Suisse AG Bankکے ڈائریکٹروں میں سے ایک ڈائریکٹر کے مطابق صرف انکے بینک میں موجود پاکستانی رقم کی مالیت 97 ارب ڈالرز ہے جبکہ ایک سابق سوئس وزیر خزانہ میکلائن کالمی رے نے میڈیا میں اپنی ایک گفتگو میں انکشاف کیا تھا کہ سوئس بینکوں میں موجود خفیہ پاکستانی رقوم کا حجم200 ارب ڈالرز کے ارد گرد ہے ، ان کے اس بیان کی کبھی کوئی تردید یا بیان پر کسی قسم کی عدالتی چارہ جوئی کبھی سامنے نہیں آئی جس سے اس بیان کے کافی حد تک حقیقت کے قریب ہونے کا پتہ چلتا ہے۔

سابق صدر آصف علی زرداری جنہوں نے اپنی مدت مکمل کر کہ 08 ستمبر 2013 ء میں ایوان صدر سے کوچ کیا تھا ان پر اس وقت کی حزب اختلاف کی جانب سے سوئس بینکوں میں ان کے بھاری اکاؤنٹس ہونے کے کافی الزامات عائد ہوتے رہے ہیں جبکہ ان کے دور میں سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے حزب اختلاف کے تمام تر دباؤ کے باوجود اس حوالے سے سوئس حکام سے تعاون کے لئے کسی درخواست کو بالائے طاق رکھا اور کوئی بڑا اقدام نہیں کیا۔

2011 ء میں سوئٹزرلینڈ کی حکومت نے ایک نیا قانون متعارف کروایا تھا جس کے تحت ان ممالک کے لئے اپنی لوٹی ہوئی دولت اور دیگر اثاثہجات کے حصول میں آسانیاں فراہم کی گئیں تھیں کہ جن کے سیاستدانوں اور دیگر حکام نے ان بھاری رقوم کو سوئس بینکوں میں موجود خفیہ اکاؤ نٹس میں رکھا ہوا تھا۔2012 ء کے آغاز میں سوئس حکومت نے اعلان کیا تھا کہ اس نے عر ب سپرنگ کے دوران حکومتوں کی تبدیلی کے عمل میں کافی ممالک کے لوٹے ہوئے 1.83 ارب امریکی ڈالرذ کے وہ اثاثہ جات جو کہ سوئٹزر لینڈ میں غیر قانونی طور پر رکھے گئے تھے واپس کر دئے ہیں تاہم پاکستان اور سوئٹزر لینڈ کے درمیان موجودہ دوہرے ٹیکسوں کے معاہدے میں ایسی کوئی متعلقہ شق نہ ہونے کے باعث پاکستان کا نام ان ممالک کی فہرست میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔

متعلقہ عنوان :