عام انتخابات میں دھاندلی اور دیگر الزامات،سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے عمران خان کو مجموعی طور پر 20 ارب روپے ہرجانے کا نوٹس بھیج دیا، 14روز میں معافی نہ مانگنے پر عدالتی کارروائی شروع کی جائے گی،عام انتخابات عدلیہ کی زیرنگرانی کرانے کا فیصلہ تحریک انصاف اور الیکشن کمیشن کی درخواست پر کیا،افتخار چوہدری ،تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپ کی غیر ذمہ دارانہ حرکت کو نظر انداز کیا مگر جلد واضح ہو گیا کہ آپ کے یہ بیانات بھول چوک اور فرط جذبات کا نتیجہ نہیں بلکہ انتخابات اور عدلیہ کی ساکھ کو کھوکھلا کرنے کی ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہیں،میں ایک ایسا ملک چاہتا ہوں جہاں ہر شخص کی عزت محفوظ ہو اورجہاں سستی شہرت کے خواہشمند سیاسی شعبدہ باز کسی کی عزت سے کھیل کر باآسانی فرار نہ ہوسکیں ،عمران خان کو بھیجے گئے قانونی نوٹس کے مندرجات

جمعہ 25 جولائی 2014 06:31

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔25جولائی۔2014ء)سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے عام انتخابات میں دھاندلی اور دیگر الزامات پر پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو مجموعی طور پر دس ارب روپے ہرجانے کا نوٹس بھیج دیا ہے اور کہا ہے کہ 14روز میں معافی نہ مانگنے پر عدالتی کارروائی شروع کی جائے گی۔عام انتخابات عدلیہ کی زیرنگرانی کرانے کا فیصلہ تحریک انصاف اور الیکشن کمیشن کی درخواست پر کیا،تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپ کی اس غیر ذمہ دارانہ حرکت کو نظر انداز کیا گیا مگر جلد یہ واضح ہو گیا کہ آپ کے یہ بیانات بھول چوک اور فرط جذبات کا نتیجہ نہیں بلکہ انتخابات اور عدلیہ کی ساکھ کو کھوکھلا کرنے کی ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہیں۔

میں ایک ایسا ملک چاہتا ہوں جہاں ہر شخص کی عزت محفوظ ہو اورجہاں سستی شہرت کے خواہشمند سیاسی شعبدہ باز کسی کی عزت سے کھیل کر باآسانی فرار نہ ہوسکیں ۔

(جاری ہے)

جسٹس افتخار چوہدری کا یہ عدالتی نوٹس توفیق آصف ،احسن الدین شیخ اور نصیر کیانی نے صحافیوں کو پڑھ کر سنایا۔

نوٹس میں کہا گیا تھا کہ میں،افتخار محمد چوہدری آپ کو صریحاً مطلع کرتا ہوں کہ میرا تعلق کوئٹہ شہر سے ہے اور طالب علم سے لیکر وکالت کے زمانے تک تن دہی سے کام کرتا رہا۔

پیشہ وارانہ کارکردگی اور ذہانت کے اعتراف میں مجھے بلوچستان ہائی کورٹ کا جج اور بعد میں چیف جسٹس مقرر کیا گیا اور اس کے بعد مجھے سپریم کورٹ میں بطور جج اور چیف جسٹس پاکستان کی عوام کی خدمات کا موقع ملا۔میں نے زندگی بھر ملک میں قانون اور آئین کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی کی خاطر جدوجہد کی ہے ۔اللہ تعالی کے فضل و کرم سے میری ان کاوشوں کو ملکی اور عالمی سطح پر بہت پذیرائی حاصل ہوئی ۔

ہاورڈ یونیورسٹی کے لاء کالج نے مجھے تمغة دفاع حریت ،نوواساؤتھ ایسٹرن یونیورسٹی نے مجھے اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی اور خدمات کو سراہا ۔اس سب کے اعادہ کا مقصد یہ باور کرانا ہے کہ اللہ تعالی نے مجھے ملک اور ملک کے باہر گراں قیمت عزت اور نیک شہرت سے نوازا ہے جس کا سبب وکلاء کی تحریک تھی۔ہم نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ مستقبل میں عدلیہ الیکشن منعقد کرانے میں کوئی کردار ادا نہیں کرے گی کیونکہ اس کام سے نہ صرف ججوں کی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی میں ہرج ہوتا ہے بلکہ الیکشن میں دھاندلی کے الزامات بھی عدلیہ پر لگتے ہیں جس سے ادارے کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔

مگر 2013 کے عام انتخابا سے قبل تمام متعلقہ فریقوں نے الیکشن کمیشن کے توسط سے یہ درخواست کی کہ ہر ضلع میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر (ڈی آر او) اور ایڈیشل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججوں اور سول ججوں کو ریٹرننگ آفسر (آر او)متعین کیا جائے ۔اس سلسلے میں چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخر الدین نے15 اکتوبر2012 ء کو ایک خط رجسٹرار سپریم کورٹ کو ارسال کیا۔

چیف جسٹسز کمیٹی نے تین نومبر2012 ء کی میٹنگ میں الیکشن کمیشن سے بعض معاملات میں وضاحت کی ۔

اس کے بعد17 نومبر2012 ء کو میٹنگ میں سیکرٹری الیکشن کمیشن کی توضیحات کا جائزہ لینے کے بعد کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا۔الیکشن کمیشن کی توضیحات کا جائزہ لینے کے بعد (چیف جسٹسز) کمیٹی اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اگرچہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات منعقد کرانے کی بنیادی آئینی ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے مگر اس سلسل میں اسے دیگر اداروں کے تعاون کی ضرورت ہے ۔

اس لئے قوم کے مفاد کے پیش نظر کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ صرف اس ایک بار عدلیہ الیکشن کے انعقاد میں شرکت کرے گی ۔اس سلسلے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ضرورت کے مطابق جج صاحبان کی خدمات حاصل ہوں گی جنہیں حسب قاعدہ ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفسر اور ریٹرننگ افسر مقرر کیا جائیگا۔مئی2013 کے عام انتخابات میں آپ کی سیاسی جماعت پی ٹی آئی کو کئی انتخابی حلقوں میں کامیابی حاصل ہوئی اور جن حلقوں میں آپ کے نامزد امید واروں کو کامیابی نہیں ہو سکی اور وہاں کئی امیدواروں نے قانون میں مہیا کئے گئے الیکشن ٹریبونلز میں شکایات بھی درج کرائیں۔

الیکشن کے بعد آپ ے عدلیہ کے خلاف بے بنیاد اور من گھڑت الزامات کی بوچھا ڑ کر دی ۔خاص طور پر 26 جولائی2013 کی پریس کانفرنس میں آپ نے معززآر اوز پر انتہائی سنگین الزامات لگائے ۔اول اول تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپ کی اس غیر ذمہ دارانہ حرکت کو نظر انداز کیا گیا مگر جلد یہ واضح ہو گیا کہ آپ کے یہ بیانات بھول چوک اور فرط جذبات کا نتیجہ نہیں بلکہ انتخابات اور عدلیہ کی ساکھ کو کھوکھلا کرنے کی ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہیں۔

اس لئے آپ نے آر اوز کے خلاف شرمناک کا لفظ بھی استعمال کیا اس لئے رجسٹرار سپریم کورٹ کے نوٹ کے جواب میں31 جولائی2013 کو آپ کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیا گیا۔ اس نوٹس کے جواب میں آپ عدالت میں پیش ہوئے اور اپنے بیان میں آپ نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ آپ عدلیہ آزادی کا احترام کرتے ہیں اور آپ کے بیانات سے عدلیہ کی مضحیک مطلوب نہ تھیا ور مستقبل میں بھی ادارے کے خلاف توہین آمیز بیان دینے سے گریز کریں گے اور یہ کہ آپ کو اس بات کا بھر پر احساس ہے کہ کسی بھی ملک میں جمہوریت اسی صورت حال چل سکتی ہے جب عدلیہ کو غیر ضروری طور پر متنازعہ نہ بنایا جائے۔

وائٹ پیپر آپ کی پارٹی کے نام امیدو اروں کی الیکشن کمشنر،توہین عدالت نوٹس کا جواب ،سپریم کورٹ میں آپ کا بیان۔دیوانی درخواست اور درخواست برائے نظر ثانی بابت مقدمہ91/2011 ان دستاویزات میں کسی بھی جگہ میرے خلاف کوئی شکایت یا الزام نہیں ملتا۔مگر 12 دسمبر 2013 کو چیف جسٹس کے عہدہ سے میری ریٹائرمنٹ کے بعد آپ نے میرے خلاف انتہائی ہتک آمیز زبان استعمال شروع کر دی ۔

مجمع عام اور کئی ٹی وی پروگراموں پر آ کر آپ نے مجھ پر کھلم کھلا الزام لگایا کہ میں نے الیکشن میں ایک مخصوص پارٹی کو جتوانے کی خاطر دھاندلی کروائی ۔نوٹس میں عمران خان کی تقاریر کے اقتباس بھی دیئے گئے ہیں ۔ایک تقریر میں تو آپ نے مجھے اس فرضی انڈین ایمپائر سے تشبیہ دی جو ایک ٹیم کو ہروانے کے لئے کھلم کھلا دھاندلی کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو ایڈریس کیا تا جو کبھی بھی نہیں ہوا۔

پاکستان میں اور اس کے بعد ساری قوم کہہ رہی ہے کہ ریٹرننگ آفیسرز نے دھاندلی کروائی اور آپ نے چھ جون کو تین ہفتے کے بعد ریٹرننگ آفسرز کو مبارکباد دی کہ کتنا زبردست الیکشن کروایا۔ایک تقریر میں تو آپ نے مجھے اسی فرضی انڈین ایمپائر سے تشبیہہ دی جو ایک ٹیم کو ہرانے کے لئے کھلم کھلا دھاندلی کرتاہے ۔حقیقت یہ ہے کہ جو الزامات آپ نے مجھ پر لگائے ہیں وہ صرف میرے خلاف نہیں بلکہ عدالت کے دیگر جج صاحبان کے خلاف بھی ہیں جو کیس کی سماعت کررہے تھے اوراس حوالے سے آپ کے بیانات توہین عدالت میں بھی آتے ہیں۔

27 جولائی2014 ء کو ایک جلسے میں آپ کے بیانات کے جواب میں پورے جمع نے شیم شیم کے نعر ے لگائے یہ منظر ٹی وی پر نظر کیا گیا۔میں نے اب تک ان انتہائی ہتک آمیز اور گھٹیا الزامات پر کوئی تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے کیونکہ تحمل اور برداشت میری عمر بھر کی پیشہ وارانہ تربیت کا ثمر ہے۔ مگر24 اور27 جون کے بیانات میں آپ نے تہذیب کی سرحد سے تجاوز کردیا بغیر کسی ثبوت کے مجھ پر ایک میڈیا گروپ کے ساتھ ملی بھگت اورانتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگائے اورمیرے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کا مطالبہ بھی کیا ان سنگین الزامات سے مجھے ذاتی طورپر بہت ٹھیس پہنچی اور معاشرے کے راست فکر طبقوں میں میری شہرت کو سخت نقصان پہنچا اس لئے اب میرے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا کہ میں آپ کے پے درپے حملوں کیخلاف قانون کی پناہ حاصل کروں اور ہتک عزت کادعویٰ دائر کروں شاید میرے خلاف آپ کے اس شدید اور ناقابل فہم عناد کا سب وہ مقدمہ ہے جس میں آپ نے عدالت سے چار حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی درخواست کی تھی اور جس میں عدالت نے اس وقت کوئی کارروائی نہ کرسکی شاید آپ کو توقع تھی کہ آپ اس سیاسی قوت کے بل بوتے پر اپنی پسند کا فیصلہ حاصل کرلیں گے

مگر آپ کو یہ احساس نہیں رہا کہ عدالتیں کسی کی خواہشات کے مطابق فیصلے نہیں دیتیں بلکہ قانون اور آئین کے تابع ہوتی ہیں ۔

ڈی آر اوز اور آر اوز پر دھاندلی کے یہ الزامات لگاتے وقت اور عام انتخابات کی ساکھ کو خراب کرتے وقت آپ یہ کیسے بھول جاتے ہیں کہ انہی انتخابات کے نتیجے میں آپ کی پارٹی بھی برسر اقتدار ہے اور آپ کی پارٹی خود ایک صوبہ میں برسر اقتدار آئی ہے مجھے تو اس طرز عمل سے دوغلے پن اور منافقت کی بو آتی ہے ۔ پارلیمان کے رکن اور ملک کے ایک بڑے لیڈر ہونے کے ناطے آپ کو خاص طور پر محتاط ہونا چاہیے تھا کہ آپ ایسی زبان استعمال نہ کریں جس سے کسی فرد اور کسی ادارے کی توہین ہو مگر پے درپے بیانات سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ آپ نے عملاً مقصد میری نیک شہرت کو نقصان پہنچایا ہے اورکئی دہائیوں کی محنت شافہ سے کمائی ہوئی عزت پر حملہ کیا ہے ۔

آپ کے اس طرز عمل سے جو نقصان مجھے اور پاکستان کے عوام کو پہنچا ہے وہ تو اس قدر گہرا ہے کہ آپ کسی بھی طریقے سے اس کی تلافی نہیں کرسکتے ہیں میں نے ساری عمر ملک میں قانون کی حکمرانی کی جنگ لڑی ہے

کیونکہ میں ایک ایسا ملک چاہتا ہوں جہاں ہر شخص کی عزت محفوظ ہو اورجہاں سستی شہرت کے خواہشمند سیاسی شعبدہ باز کسی کی عزت سے کھیل کر باآسانی فرار نہ ہوسکیں اور یہ اس وقت ممکن ہے جب ہم اپنے حقوق کا دفاع کریں اس لیے میں نے اپنی عزت کے دفاع میں آپ پر مقدمہ دائر کرنے کا ارادہ کیا ۔

عوام الناس اور دنیا جہاں کے راست فکر لوگوں جو مجھے عزت اللہ تعالیٰ نے دی ہے اسے مال کی ترازوں میں تو لا نہیں جاسکتا مگر ایک علامتی ہرجانے کے طورپر میں آپ سے پندرہ ارب روپے ہتک عزت کے زمرے میں طلب کرتا ہوں مزید پانچ ارب روپے اس ذہنی اذیت کی تلافی کے لئے طلب کرتا ہوں جو آپ نے مجھے اور میرے اہل وعیال کو پہنچائی ہے ۔ یہ نوٹس ہتک عزت آرڈیننس کی دفعہ 8 کے مطابق آپ کو پیش کیا جاتا ہے اگر آئندہ چودہ روز کے اندر اندر آپ نے معذرت نہ کی یا ہرجانہ ادا نہ کیا تو عدالت میں مقدمہ دائر کروں گا مزید برآں ملک کے اندر اور باہر آپ کیخلاف انصاف کے حصول کی خاطر دیگر قانونی راستے اختیارکرنے کا بھی مجاز ہوں