پی آئی اے کے 50 فیصد ملازمین اضافی ہیں، وزیر مملکت ِ نجکاری،حکومت ان اضافی ملازمین کو ملازمتوں سے علیحدہ کرنے کے لیے ایک جامع منصوبہ بنا رہی ہے ،موجودہ حکومت قومی مفاد میں سخت معاشی فیصلے کرنے سے گریز نہیں کرے گی، محمد زبیر کی بی بی سی سے گفتگو

جمعہ 18 جولائی 2014 08:06

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔18جولائی۔2014ء) نجکاری کے وزیرِ مملکت محمد زبیر نے کہا ہے کہ پاکستان کی قومی فضائی کمپنی پی آئی اے میں 50 فیصد ملازمین سرپلس یا اضافی ہیں جن کو ملازمتوں سے علیحدہ کرنے کے لیے جامع منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔بی بی سی اردو سروس کے ساتھ انٹرویو میں انھوں نے پی آئی اے کی نجکاری کے پس منظر میں کہا کہ حکومت ان اضافی ملازمین کو ملازمتوں سے علیحدہ کرنے کے لیے ایک جامع منصوبہ بنا رہی ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس منصوبہ بندی کے تحت رضاکارانہ ریٹائرمنٹ اور اس کے بعد ملازمت کے نئے مواقع تلاش کرنے میں مدد کرنا شامل ہے۔’پی آئی اے کا مسئلہ صرف یہ اضافی ملازمین نہیں ہیں بلکہ ان کی قابلیت بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ یہ لوگ کتنے باصلاحیت ہیں اور جس کام کے لیے انھیں بھرتی کیا گیا تھا وہ انجام دینے میں کتنے ماہر ہیں، یہ بھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔

(جاری ہے)

‘پی آئی اے کے نجکاری پروگرام کی تفصیل بتاتے ہوئے وزیر نجکاری نے کہا کہ 22 جولائی کو مالیاتی مشیران کی تقرری کے ساتھ ہی پی آئی اے کی نجکاری کے عمل کا باضابطہ آغاز ہو جائے گا۔"پی آئی اے کا مسئلہ صرف یہ اضافی ملازمین نہیں ہیں بلکہ ان کی قابلیت بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ یہ لوگ کتنے با صلاحیت ہیں اور جس کام کے لیے انھیں بھرتی کیا گیا تھا وہ انجام دینے میں کتنے ماہر ہیں، یہ بھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔

"پاکستان کی قومی فضائی کمپنی دو دہائیوں سے ان سرکاری اداروں کی فہرست میں شامل ہے جنہیں نجی شعبے کے حوالے کیا جانا ہے لیکن یہ پہلی بار ہے کہ اس کی نجکاری کا باضابطہ آغاز کیا جا رہا ہے۔

وزیر نجکاری نے بی بی سی کو بتایا کہ مالیاتی مشیران کی مدد سے پی آئی کی نجکاری کا عمل اگلے سال جون تک مکمل کر لیا جائے گا۔’ہمارا ہدف جون 2015 تک اس عمل کو مکمل کرنا ہے۔

اس دوران ہم کمپنی کے26 یا 51 فیصد حصص نجی کمپنی کو فروخت کر کے اس کی انتظامیہ بھی ان کے حوالے کر دیں گے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ سب سے بڑی وجہ ہے ملازمین کی فوج ظفر موج ہے جنہیں مختلف سیاسی جماعتیں اپنی دور حکومت میں بھرتی کرتی رہیں۔ آج پی آئی اے میں ایک جہاز کے لیے 600 ملازمین ہیں جبکہ دنیا بھر میں یہ تعداد 200 سے کم ہوتی ہے۔پی آئی اے کے کل ملازمین کی تعداد 16600 ہے جبکہ اس کے پاس 35 جہاز ہیں جس میں سے نو جہاز مختلف وجوہات کی بنا پر استعمال نہیں کیے جا رہے۔

پی آئی اے سنہ 1992 سے حکومت کے نجکاری پروگرام میں شامل ہے لیکن یونیں اور سیاسی جماعتوں کے دباوٴ کے باعث اس کی نجکاری کا عمل مکمل نہیں ہو سکا۔نجکاری کے وزیر مملکت نے کہا کہ قابلِ فروخت حصص کی حتمی تعداد کا تعین مالیاتی مشیران کے مشورے پر کیا جائے گا۔محمد زبیر نے کہا کہ پی آئی اے کی نجکاری سے قبل اس کی ری سٹرکچرنگ کی جائے گی جس میں ملازمین کی چھانٹی کا عمل بھی شامل ہے۔

"اگر پی آئی اے کے ملازمین کو نکالنا پڑتا ہے تو ہم ایسے آپشنز پر بھی غور کر رہے ہیں جن کے ذریعے ان لوگوں کو نئی ملازمتوں کے مواقع تلاش کرنے میں ان کی مدد کریں۔"وزیرِ مملکت محمد زبیر نے کہا کہ پی آئی اے کے ملازمین کے لیے بہتر راستہ یہی ہے کہ وہ رضا کارانہ ریٹائرمنٹ کے پیکیج کو قبول کر لیں جو تیاری کے مراحل میں ہے۔’اگر پی آئی اے کے ملازمین کو نکالنا پڑتا ہے تو ہم ایسے آپشنز پر بھی غور کر رہے ہیں جن کے ذریعے ان لوگوں کو نئی ملازمتوں کے مواقع تلاش کرنے میں ان کی مدد کریں۔

وزیر نجکاری نے بتایا کہ وفاقی حکومت قطر کی حکومت سے رابطے میں ہے کیونکہ وہاں 2022 میں ہونے والے فٹبال کے عالمی مقابلوں کی تیاری کے لیے لاکھوں ملازمتوں کے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔’ہم پی آئی اے اور دیگر سرکاری اداروں کی نجکاری کے دوران ملازمتوں سے علیحدہ ہونے والے افراد کو دوبارہ ملازمتیں دلوانے کے لیے دبئی کی حکومت سے بھی رابطے میں ہیں کیونکہ وہاں پر 2020 میں ہونے والی عالمی نمائش کے لیے بھی بڑی تعداد میں افرادی قوت کی ضرورت ہے۔

‘پی آئی اے کی نجکاری کے خلاف اس کے کارکنوں اور بعض سیاسی جماعتوں کی جانب سے مخالفانہ مہم چلانے کے اعلانات پر تبصرہ کرتے ہوئے نجکاری کے وزیر نے کہا کہ 80 کی دہائی میں برطانوی وزیراعظم مارگریٹ تھیچر کو اپنے ملک میں نجکاری کا عمل شروع کرنے پر اس سے زیادہ مخالفت کا سامنا تھا لیکن انھوں نے اس مخالفت کے باوجود اپنا پروگرام جاری رکھا جس سے ملک کو فائدہ ہوا اور وہ ’آئرن لیڈی‘ کے نام سے مشہور ہوئیں۔

محمد زبیر نے کہا کہ موجودہ حکومت قومی مفاد میں سخت معاشی فیصلے کرنے سے گریز نہیں کرے گی۔’ہم اس لیے جلدی میں نجکاری کا عمل مکمل کرنا چاہتے ہیں کیونکہ نواز شریف کی حکومت کو جو مینڈیٹ ملا ہے، یعنی قومی اسمبلی میں ایک 187 نشستیں، اگر اس مینڈیٹ کو ہم نے ملکی مفاد میں استعمال نہیں کیا تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔‘

متعلقہ عنوان :