80 سے زائد اراکین پارلیمان نے گوشوار وں میں اپنی آمدن صفر ظاہر کی ہے ، خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں انکشاف ،تمام اراکین کمیٹی کو نیشنل ٹیکس نمبر جاری ہوچکے، تمام نے اپنے ٹیکس ریٹرن جمع کروا دیئے ہیں ، چار اراکین نے اپنے ٹیکس ریٹرن مقررہ مدت گزرنے کے باوجود جمع نہیں کرائے ، اجلاس کو بریفنگ ، تحریک انصاف کے عمر اسد کا اراکین پارلیمان کے ٹیکس گوشواروں کی تفصیلات مہیا کرنے کے مطالبہ پر دیگر اراکین کی شدید مخالفت ،کمیٹی نے رپورٹ مکمل کر لی ، اب قومی اسمبلی کو بجھوائی جائے گی،اراکین کمیٹی کااپنے فرائض کی انجام دہی کے بعد کمیٹی کو ختم کرنے کا مطالبہ

بدھ 16 جولائی 2014 07:59

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔16جولائی۔2014ء)اراکین پارلیمان کی جانب سے ٹیکسوں کی عدم ادائیگیوں کے معاملے کا جائزہ لینے کیلئے بنائی گئی خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں انکشاف ہوا ہے کہ 80 سے زائد اراکین پارلیمان ایسے ہیں جنہوں نے اپنی آمدن کے گوشوارے جمع کرواتے ہوئے اپنی آمدن صفر ظاہر کی ہے ، تمام اراکین کمیٹی کو نیشنل ٹیکس نمبر جاری ہوچکے ہیں اور تمام اراکین پارلیمان نے اپنے ٹیکس ریٹرن جمع کروا دیئے ہیں تاہم چار اراکین پارلیمان بشمول مخدوم امین فہیم‘ سید عیسیٰ نوری‘ سرزمین خان اور شاہ جہان بلوچ نے اپنے ٹیکس ریٹرن مقررہ مدت گزرنے کے باوجود جمع نہیں کرائے ، اجلاس کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے رکن کمیٹی عمر اسد کی جانب سے اراکین پارلیمان کے ٹیکس گوشواروں کی تفصیلات مہیا کرنے کے مطالبہ پر دیگر اراکین کی شدید مخالفت کی گئی بلخصوص مسلم لیگ نواز کے اراکین کمیٹی نے سخت مخالفت کی۔

(جاری ہے)

کمیٹی نے رپورٹ مکمل کر لی ہے اب قومی اسمبلی کو بجھوائی جائے گی۔اراکین کمیٹی کااپنے فرائض کی انجام دہی کے بعد کمیٹی کو ختم کرنے کا مطالبہ۔منگل کے روز اراکین پارلیمان کی جانب سے ٹیکسوں کی عدم ادائیگیوں کے معاملے کا جائزہ لینے کیلئے بنائی گئی خصوصی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس کی صدارت کمیٹی کے چیئرمین عمر ایوب خان نے کی۔ دس رکنی خصوصی کمیٹی نے اراکین پارلیمان کی جانب سے ٹیکس ادائیگی کے معاملے پر غور کیا اور اس حوالے سے اپنی رپورٹ کو حتمی شکل دے دی ۔

اجلاس کے دوران فیڈرل بیورو آف ریونیو کے حکام نے کمیٹی کو تفصیلی بریفنگ دی۔ انہون نے کمیٹی کو بتایا کہ ایف بی آر کی جانب سے تمام اراکین کمیٹی کو نیشنل تیکس نمبر جاری ہوچکے ہیں تاکہ ان کو ٹیکس ادائیگی میں سہولت فراہم کی جاسکے ۔ اراکین کی جانب سے پوھے گئے سوالات کے جواب میں ایف بی آر حکام نے بتایا کہ تمام اراکین پارلیمان نے اپنے ٹیکس ریٹرن جمع کروا دیئے ہیں تاہم چار اراکین پارلیمان ایسے ہیں جنہوں نے اپنے ٹیکس ریٹرن مقررہ مدت گزرنے کے باوجود جمع نہیں کرائے۔

اراکین کمیٹی بالخصوص اسد عمر کے اصرار پر ایف بی آر حکام نے مزید بتایا کہ ان اراکین پارلیمان میں مخدوم امین فہیم‘ سید عیسیٰ نوری‘ سرزمین خان اور شاہ جہان بلوچ شامل ہیں

ایف بی آر حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ تقریباً 80 اراکین پارلیمان ایسے ہیں جنہوں نے اپنی آمدن کے گوشوارے جمع کرواتے ہوئے اپنی آمدن صفر ظاہر کی ہے ۔ اس موقع پر پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی و رکن کمیٹی اسد عمر نے اصرار کیا کہ ان اراکین کے نام بھی ظاہر کیے جائیں تاہم ایف بی آر حکام کا کہنا تھا کہ انہیں قانونی طور پر ان اراکین کے نام ظاہر کرنے کی اجازت نہیں ہے اسد عمر کا کہنا تھا کہ تمام اراکین پارلیمان کا ٹیکس آڈٹ ہونا چاہیے اور اس حوالے سے عوام اور اراکین پارلیمان میں امتیاز نہیں کیا جانا چاہیے اسد عمر نے کہا کہ عوام کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ جو اراکین پارلیمان ان پر ٹیکس عائد و نافذ کرتے ہیں ایا وہ خود بھی ٹیکس دیتے ہیں یا کہ نہیں اس موقع پر دیگر اراکین نے اسد عمر کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کے اراکین خود کتنا ٹیکس ادا کرتے ہیں اس طرہ کسی رکن پارلیمان کو بے عزت کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

اس عمر کی مخالفت کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (نواز) سے تعلق رکھنے والے رکن اسمبلی میاں عبدالمنان نے سخت موقف اختیار کیا اور کہا کہ اراکین پارلیمان کو ذلیل کرنے اور ان کی کردار کشی کرنا ہامرے منشور میں نہیں ہے تاہم یہ پی ٹی آئی کا منشور ہوسکتا ہے ۔ یہ کمیٹی پارلیمانی کمیٹی ہے کسی سیاسی جماعت کی کمیٹی نہیں ہے تاہم میاں عبدالمنان کو نظر انداز کرتے ہوئے اسد عمرنے اپنا مطالبہ جاری رکھا اور کہا کہ اراکین کی آڈٹ شدہ ٹیکس ریٹرن دکھائی جائیں کہ ان کے پاس کتنی دولت و پراپرٹی ہے‘ اس معزز ایوان کا رکن بننے سے پہلے کتنی دولت تھی اور وقت کے ساتھ ساتھ اس دولت میں کتنا اضافہ ہو رہا ہے۔

رانا افضل خان پارلیمانی سیکرٹری کا کہنا تھا کہ ٹیکس کے حوالے سے عام آدمی اور اراکین قومی اسمبلی کے بارے میں الگ الگ قوانین نہیں ہوسکتے۔ رکن کمیٹی شیخ روحیل اصغر نے بھی اپنے ہم جماعت میاں عبدالمنان کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ اراکین اسمبلی کو ذلیل کرنا اب ایک فیشن بن گیا ہے تمام اراکین قومی اسمبلی و سینیٹ اپنے ٹیکسوں کی ادائیگی کرتے ہیں کوئی ٹیکس کم دے یا زیادہ یہ ایک بحث ہے کمیٹی کے اکثر اراکین نے ٹیکس ڈائریکٹری پرنٹ ہونے کے بعد اس خصوصی کمیٹی کے خاتمے کا مطالبہ کیا ان کا کہان تھا کہ کمیٹی کو جو ذمہ داری سونپی گئی تھی کمیٹی نے اس کو بخوبی سرانجام دے دیا ہے ۔

چیئرمین کمیٹی نے بھی اراکین کی اکثریت کی حمایت کی تاہم اسد عمر نے اس مطالبہ کی بھرپور مخالفتکی اس موقع پر اراکین نے اس مطالبہ کی بھرپور مخالفت کی‘ اس موقع پر اراکین کی اکثریت کاکہنا تھا کہ کسی بھی رکن کے کم یا زیادہ ٹیکس ادا ئیگی کے معاملہ خزانہ کمیٹی کے سپرد کردیا جائے کیونکہ یہ خصوصی کمیٹی اس حوالے سے اختیار اور مینڈیٹ نہیں رکھتی۔

میاں عبدالمنان کا کہنا تھا کہ اخلاقی اقدار کا معاملہ صرف ٹیکس ادائیگی کی حد تک نہیں ہوتا بلکہ یہ بات تمام شعبوں اور ذات کی حد تک ہونی چاہیے انہوں نے عندیہ دیا کہ وہ اس حوالے سے قومی اسمبلی میں قرار داد لے کر ائیں گے خصوصی کمیٹی نے اسد عمر کی جانب سے پیش کردہ مطالبات مسترد کردیئے جبکہ چیئرمین کمیٹی عمر ایوب خان کا کہنا تھا کہ کمیٹی کا مینڈیٹ یا اختیار اس حد تک نہیں ہے کہ وہ اراکین کی ٹیکس تفصیلات کی تحقیقات کر سکے اجلاس کے دوران خصوصی کمیٹی نے اراکین کی جانب سے ٹیکس ادائیگی کے معاملے پر اپنی کارروائی مکمل کرلی

چیئرمین کمیٹی کا کہنا تھا کہ اس رپورٹ کو اب قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا ذرائع کے مطابق کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موجودہ قوانین کے تحت چار اراکین اسمبلی کے علاوہ دیگر تمام اراکین پارلیمنٹ نے ٹیکس ریٹرنز جمع کرادی ہیں اور اس حوالے سے ایک تیکس ڈائریکٹری بھی شائع کی جاچکی ہے جو کہ ایک عوامی دستاویز ہے 80 سے زائد اراکین نے اپنی آمدن صفر ظاہر کی ہے چیئرمین کمیٹی نے واضح کیا کہ کمیٹی کا کام ختم ہوچکا ہے کم یا زیادہ ٹیکس ادائیگیوں کو دیکھنا کمیٹی کے مینڈیٹ سے باہر ہے تاہم یہ تحقیقات مناسب فورم پر کی جائیں گی۔