پی ایس او کی جانب سے 1999ء میں ایک ارب 58کروڑ کے قرضے بغیر ضمانت دیئے جانے کا انکشاف،پی اے سی کی مانیٹرنگ کمیٹی کی موجودہ وکلاء ٹیم فارغ کرکے نئے وکیل ہائر کرنے کی ہدایت،عدالتوں میں کیس ہارے جارہے ہیں جس کی وجہ پی ایس او کی قانونی ٹیم کا مخالفین سے ملا ہونا ہے،کمیٹی کے اجلاس میں انکشافات

جمعہ 11 جولائی 2014 05:38

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔11جولائی۔2014ء)پبلک اکاؤنٹس کمیٹی(پی اے سی) کی مانیٹرنگ کمیٹیمیں پی ایس او کی جانب سے 1999ء میں ایک ارب 58کروڑ روپے کے قرضے بغیر ضمانت دیئے جانے کا انکشاف ہوا ہے، زیادہ تر قرضے ہجویری اور راجی ایئر لائنز کو دیئے گئے۔ کمیٹی نے عدالتوں میں درست طریقے سے پیروی نہ کرنے پر وکلاء کی موجودہ ٹیم کو فارغ کرکے نئی ٹیم ہائر کرنے کی ہدایت کردی ،پی ایس او کے عدالتوں میں کیس ہارے جارہے ہیں جس کی وجہ پی ایس او کی قانونی ٹیم کا مخالفین سے ملا ہونا ہے ۔

جمعرات کے روز پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی مانیٹری کمیٹی کا اجلاس میاں منان کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا ۔ اجلاس میں وزارت پٹرولیم کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا ۔ آڈٹ حکام نے بتایا کہ1989ء میں ایک نجی کمپنی نے کراچی میں پٹرول پمپبنانے کیلئے پی ایس او سے 24لاکھ روپے ایڈوانس پیمنٹ لی کمپنی نے 2009ء میں پمپ بنا لیا لیکن پی ایس او کو چوبیس لاکھ روپے واپس نہ کئے ۔

(جاری ہے)

کمپنی کا کیس عدالت میں لایا گیا اور پی ایس او کیس ہار گیا ۔

میاں منان نے کہا کہ جنہوں نے ایڈوانس پیمنٹ کی وہ زندہ ہیں یا مردہ جن وکلاء نے کیس کوکمزور کیا ان وکلاء کو طلب کیاجائے وکلاء کمپنی کے ساتھ ملے ہوئے تھے کمیٹی نے کمپنی سے سود سمیت رقم وصول کرنے کی ہدایت کی ۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ 1999ء میں پی ایس او نے بغیر گارنٹی کے ایک ارب اٹھاون کروڑ روپے کے تجارتی قرضے دیئے زیادہ تر رقم ہجویری اور راجی ایئر لائنز کو دیئے گئے ۔

پی ایس او حکام نے بتایا کہ معاملہ نیب کے پاس ہے کنوینر کمیٹی نے کہا کہ پی ایس او کی قانونی ٹیم کو فارغ کیاجائے اس ٹیم کی موجودگی میں تمام کیسز کے فیصلے پی ایس او کیخلاف آرہے ہیں نئی ٹیم ہائر کی جائے جو عدالتوں میں کیس کو صحیح طرح پیش کرے آڈٹ حکام نے بتایا کہ اسلام آباد میں دفتر کے باوجود پی ایس او نے ایک نیا آفس کرائے پر لیا اور تین سال ایڈوانس ادائیگی بھی کردی کنوینر کمیٹی نے کہا کہ جنہوں نے معاہدہ کیا اور ایڈوانس رقم ادا کی انہیں پی اے سی میں پیش کیاجائے ۔

نیب کی مرضی ہو تو بندے نیویارک سے بھی پکڑ کر لے آتے ہیں سیاست قابو آجائے تو ٹھیک دوسرے پکڑنے ہوں تو قانون کی رکاوٹیں نکل آتی ہیں فراڈ کرنے والے عدالت میں چلے جاتے ہیں اور کیس سالوں چلتے رہتے ہیں ۔ عدالتوں میں کیسز کے ذریعے سرکار کا پیسہ ضائع ہورہا ہے اس پیسے کا ضیاع کو روکنے کیلئے قانون میں ترمیم کی جائے ۔