سینیٹ کمیٹی کا وزیراعظم ،وزارت پٹرولیم اور گیس کمپنی کی منظوری کے باوجود ترقیاتی منصوبوں پر اوگراکے اعتراض پر شدید ردعمل کا اظہار، اوگرا کی ہٹ دھرِمی کیخلاف عوام سٹرکوں پر نکلیں گے جس سے حکومت کی بدنامی ہو گی، سینیٹر زاہد خان کی واک آوٹ کی کوشش ، دیگر ارکان نے روک لیا، آج ہی وزارت اور ایس این جی پی ایل کو خط لکھ کر منظوری حاصل کرنے کے بعد منصوبے پر کام کا آغاز کر دیا جائیگا،چیئرمین اوگراکی یقین دہانی

جمعرات 10 جولائی 2014 07:21

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔9جولائی۔2014ء)سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قواعد ضوابط و استحقاق نے وزیراعظم ،وزارت پٹرولیم اور گیس کمپنی کی منظوری کے باوجود ترقیاتی منصوبوں پر اوگراکے اعتراض پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے اورکہا ہے کہ اوگرا کی ہٹ دھرمی کیخلاف علاقے کے عوام سٹرکوں پر نکلیں گے جس سے حکومت کی بدنامی ہو گی اور سینیٹر زاہد خان نے واک آوٹ کی کوشش بھی کی تاہم دیگر ارکان نے روک لیاجس پرچیئر مین اوگرا نے کمیٹی کو یقین دھانی کرائی کہ آج ہی وزارت اور ایس این جی پی ایل کو خط لکھ کر منظوری حاصل کرنے کے بعد منصوبے پر کام کا آغاز کر دیا جائیگا۔

اجلاس میں سینیٹرعبدالروٴف کی ڈی سی او اور ڈی سی کراچی کے ناروا رویے کے خلاف تحریک استحقاق اور سینیٹر زاہد خان صوابدیدی فنڈ سے مالاکنڈ اور لویر دیر سوئی گیس کے منصوبے پر وزارت پیٹرولیم ، سوئی ناردن گیس اور اوگرا سے منصوبے کی تاخیر کے حوالے سے بحث کی گئی ۔

(جاری ہے)

قائمہ کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر کرنل (ر) سید طاہر حسین مشہدی کی زیر صدارت بدھ کو پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا جس میں سینیٹر ز اسلا م الدین شیخ، اعتزاز احسن ، افراسیاب خٹک ، میاں رضا ربانی ،پر وفیسر ساجد میر، ہدایت اللہ ، عبدالرؤف ، اور چوہدری محمد جعفر اقبال ،امر جیت کے علاوہ سیکرٹری پیڑولیم عابد سعید ، چیئر مین اوگرا سعید احمد ، ایم ڈی ایس این جی پی ایل ، عارف حمید ڈی سی او کراچی قاضی جمال نے بھی شرکت کی ۔

سینیٹر زاہد خان کے صوابدیدی فنڈ سے لوئیر دیر مالا کنڈ میں فراہمی گیس کی قائمہ کمیٹی کے اجلاسوں میں یقین دھانیوں کے باوجود عمل در آمد نہ ہونے کے حوالے سے سینیٹر زاہد خان نے کہا کہ کمیٹی کی کو ششوں سے وزیر اعظم پاکستان نے مجوزہ گیس منصوبے کی خصوصی منظوری دی ۔حکومت پاکستان اور سوئی گیس کمپنی کے حصے کے فنڈز استعمال ہو چکے ۔بقیہ دس فیصد ترقیاتی کام پر عمل کیلئے اوگرا کی اجازت کی شرط ناقابل فہم ہے۔

سینیٹر زاہد خان نے اوگرا کی طر ف سے اعتراضات اور کمیٹی کے اجلاس میں غلط بیانی پر شدید احتجاج کرتے ہوئے اجلاس سے احتجاجاً واک اوٴٹ کیا تو سینیٹر میاں رضا ربانی ، اعتزاز احسن ، افراسیاب خٹک اور دوسرے اراکین نے سینیٹر زاہد خان کو راضی کر لیا ،

سیکریٹری پیڑولیم نے کہا کہ وزیر اعظم کے خصوصی اجازت نامے ، ایس این جی پی ایل کی رضا مندی کے بعد اوگرا کی طرف سے اعتراض معاملہ کو مزید الجھانے کی کوشش ہے ۔

ایم ڈی سوئی گیس عارف حمید نے کہا کہ وزیر اعظم نے ملک بھر کے تمام جاری ترقیاتی منصوبوں کی منظوری دے دی ہے ۔ وزیراعظم ، وزارت ، سوئی گیس کی رضا مندی کے بعد اوگرا کا اعتراض درست نہیں۔ سینیٹر زاھد خان نے کہا کہ عوامی فلاحی منصوبے کے لئے کمیٹی کا 5واں اجلاس منعقد ہو رہا ہے جس پر قومی خزانے سے بھاری اخراجات ہوتے ہیں ۔ اوگرا کی ہٹ دھرمی کیخلاف علاقے کے عوام سٹرکوں پر نکلیں گے جس سے حکومت کی بدنامی ہو گی ۔

کمیٹی کے اجلاس میں یہ بات سامنے آئی کہ فنڈز کی تاخیر اوگرا کے غیر ذ مہ دارانہ رویے کی وجہ سے ہوئی ہے ۔26 جون تک سوئی ناردرن گیس اور وزارت پیٹرولیم کی جانب سے تمام ہدایات جاری کر دیں گئی تھیں مگر چیئرمین اوگرا بروقت خطوط کا جواب نہ دینے اور سستِ روی کا مظاہرہ کرنے پر کمیٹی کے سامنے بے بس دکھائی دیے اور وزیر اعظم کی طر ف سے گائیڈ لائن پالیسی اور سپریم کور ٹ کے فیصلوں کے حوالے سے چیئر مین اوگرا کے بیان میں واضح تضاد تھا جس پر اراکین کمیٹی نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چیئرمین اوگرا کی طر ف سے مسلسل غلط بیانی کی جارہی ہے اور منصوبے پر عمل کی آخری تاریخ گزر جانے کی وجہ سے فنڈز کی واپسی کی ذمہ داری چیئرمین اوگرا پر عائد ہوگی ہے ۔

سیکریٹری پیڑولیم ، ایم ڈی ایس این جی پی ایل سے چیئر مین اوگرا کی طویل بحث کے بعد اور سینیٹر اعتزاز احسن ، افراسیاب خٹک کی طرف سے اٹھائے گئے آئینی و قانونی نقاط کی روشنی میں چیئر مین اوگرا نے کمیٹی کو یقین دھانی کرائی کہ آج ہی وزارت اور ایس این جی پی ایل کو خط لکھ کر منظوری حاصل کرنے کے بعد منصوبے پر کام کا آغاز کر دیا جائیگا۔

کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر عبدالرؤ ف نے ڈپٹی کمشنر کراچی کے غیر ذمہ دارانہ رویے اور تجاوزات کے معاملے پر عوام کے مالی نقصان کے خلاف تحریک استحقاق پیش کی ۔

کمیٹی نے یہ معاملہ نمٹاتے ہوئے کراچی جنوبی کے ڈپٹی کمشنر کی معافی کو قبول کرلیا اور کنٹونمنٹ کے علاقے میں تجاو زات ہٹانے کا معاملہ کمیٹی برائے انسان حقوق کی کمیٹی کو بھجوا دیا۔ سینیٹر عبدالروف نے کہا کہ کراچی کے علاقے میں غریب ریڑھی بانوں پر تشدد کیا گیا ، سامان کی لوٹ مار کی گئی ، چالیس سے پچاس لاکھ روپے کا سامان ضبط کر لیا گیا جو ان ریڑھی بانوں کو واپس کیا جائے ۔

اراکین کمیٹی نے متفقہ طور پر حکومت سندھ اور کراچی انتظامیہ کو ریڑھیاں اور سامان واپس کرنے کی سفارش کی ۔ سینیٹر رضا ربانی نے سٹیشن کمانڈر کی موجودگی میں رات ڈھائی بجے اپریشن کو انسانی حقوق کی خلا ف ورزی قرار دیا ۔ سینیٹر افراسیاب خٹک نے کہا کہ کراچی میں بڑے لینڈ مافیا کا راج ہے انہیں کھلی آزادی ہے لیکن غریبوں پر ظلم کیا جاتا ہے ۔

کمیٹی کے اجلاس میں ایران سے تیل کی سمگلنگ کو روکنے کے حوالے سے سینیٹر جعفر اقبال نے کہا کہ سندھ ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں سرے عام سٹرکوں پر تیل فروخت کیا جا رہا ہے ۔ جسے روکنے کی اشد ضرورت ہے ۔

کمیٹی کے اجلاس میں انکشاف ہوا کہ بلوچستان میں سمگل شدہ چودہ لاکھ لیٹر تیل پکڑا گیا ہے ۔ بعض آئیل کمپنیوں کے ٹینکرز بھی ایرانی تیل سمگلنگ میں شامل ہیں ۔

ایران کی سر حد کیساتھ جہاں پاکستانی چیک پوسٹ بنائی جاتی ہے اگلی جگہ سے سمگلنگ کا رستہ بنا لیا جاتا ہے ۔سینیٹر عبدالروف نے تجویز کیا کہ ایران سے سمگل شدہ تیل کو روکنے کیلئے قانونی رستے اپنائے جائیں ۔ سینیٹر اعتزاز احسن نے ایف بی آر کو قوانین پر سختی سے عمل درآمد کیلئے کہا ۔ کمیٹی کے اجلاس میں کنٹونمنٹ بورڈآفیسر اور سٹیشن کمانڈر ز کے کردار اور اختیار کے حوالے سے تفصیلی آگاہی کیلئے دفاعی کمیٹی کو معاملہ بھجوانے کا فیصلہ کیا گیا۔

چیئر مین قائمہ کمیٹی نے کہا کہ آئین کے تحت سرکاری ملازمین اپنے فرئض منصبی دیانت داری سے ادا کریں ۔ ممبران پارلیمنٹ کے علاوہ ہر پاکستانی شہری کے حقوق کا تحفظ کریں ۔سینیٹر افراسیاب خٹک نے آئین پر مکمل عمل درآمد کی ضرورت پر زور دیا اور کہاکہ اے جی این قاضی فارمولے میں طے شدہ کے پی کے کے چھ ارب روپے اب 35ارب روپے بن چکے ہیں ،وسائل کے استعمال میں آئین کے تحت اسی علاقے کی ترجیح ہونی چاہیے ۔ سیکریٹری پیڑولیم نے کہا کہ آئین کے تحت جہاں سے گیس نکل رہی ہے وہاں کے رہائشیوں کا حق پہلی ترجیح ہے ۔کے پی کے اور سندھ میں جتنی گیس پیدا ہو رہی ہے استعمال اس سے کم ہے۔