ای او بی آئی کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ پر نظرثانی کی درخواستیں مسترد،عدالت نے ادارہ سے نکالے گئے 358ملازمین کی نظرثانی اپیلیں خارج کردیں،ہمیں ملازمین سے ہمدردی ہے مگر ہم کیس وسیع تناظر میں سن رہے ہیں،جسٹس ثاقب نثار،لوگ زمین جائیداد بیچ کر ایجنٹ کو پیسے دیتے ہیں جب پکڑے جاتے ہیں تو مظلوم بن جاتے ہیں، ملازمین بھی غلط کام میں شریک تھے مگر اب کمیٹی والوں کو ظالم کہہ رہے ہیں ہمیں ان سے کوئی ہمدردی نہیں،جسٹس آصف سعید کھوسہ

بدھ 9 جولائی 2014 07:01

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔9جولائی۔2014ء)ایمپلائز اولڈایج بینفٹس انسٹی ٹیوٹ (ای او بی آئی) کیس میں سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ پر نظرثانی کی درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے ادارہ سے سے نکالے گئے 358ملازمین کی نظرثانی اپیلیں خارج کردی ہیں جبکہ جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں ملازمین سے ہمدردی ہے انہوں نے معلوم نہیں کس طرح پیسے جمع کر کے یہ ملازمتیں حاصل کیں مگر ہم کیس وسیع تناظر میں سن رہے ہیں تاہم جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ لوگ زمین جائیداد بیچ کر ایجنٹ کو پیسے دیتے ہیں کہ ہمیں یونان ،اٹلی یا دیگر کسی ملک میں پہنچا دے ، کچھ ترکی کے بارڈر پر مر جاتے ہیں،کچھ پکڑے جاتے ہیں جو واپس آتے ہیں وہ یہاں آکر ایجنٹ کیخلاف مقدمہ درج کرا دیتے ہیں اور خود مظلوم بن جاتے ہیں یہی صورتحال بھرتیوں کے اس مقدمے کی بھی ہے ،ملازمین بھی غلط کام میں شریک تھے مگر اب کمیٹی والوں کو ظالم کہہ رہے ہیں ہمیں ان سے کوئی ہمدردی نہیں۔

(جاری ہے)

جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے نظرثانی اپیلوں کی سماعت کی تو ملازمین کے وکیل عبدالحفیظ پیرزادہ نے عدالتی فیصلے کے بعض حصوں میں موجود تکنیکی غلطیوں سے عدالت کو آگاہ کرتے ہوئے بھرتیوں کی شفافیت کا جائزہ لینے کیلئے بنائی گئی کمیٹی کو متعصب قراردیا جس میں ایک رکن تو وہ تھے جن کی تقرری عمل میں نہیں آسکی تھی ،اس پر جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہاکہ عدالت نے فیصلہ صرف کمیٹی کی رپورٹ کو سامنے رکھ کر نہیں کیا بلکہ اس کے سامنے دیگر ریکارڈ اور حقائق بھی موجود تھے جن سے واضح ہوا کہ بھرتیاں شفاف نہیں تھیں اور پھر معاملہ عدالت نے نیب کو بھیجا ہے ۔

عبدالحفیظ پیرزادہ نے کہاکہ ملازمین توفارغ ہوگئے اس لئے عدالت نظرثانی اپیلوں کو سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے نوٹس جاری کرے اور پھر فیصلہ کا دوبارہ جائزہ لے ۔جسٹس ثاقب نثار نے کہاکہ اگر اب نئے سرے سے بھرتیوں کا حکم دیا جائے جس میں آپ کے موکلان کو بھی موقع دیا جائے تو کیا آپ کیلئے قابل قبول ہو گا تو فاضل وکیل نے کہاکہ اس حوالے سے ان کے پاس ہدایات نہیں ہیں پھر بہت سے ایسے متاثرہ ملازمین بھی ہیں جو امریکہ کینڈا وغیرہ سے آکر بھرتی ہوئے تھے ان کے پاس وہاں کی شہریت ہے اور اب وہ واپس جاچکے ہیں ۔

اس کے علاوہ چونکہ معاملہ میں کسی کا بنیادی حق متاثر نہیں ہوا تھا اس لئے معاملہ آرٹیکل 184(3)کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا تھا جس پر جسٹس جمالی نے کہاکہ358ملازمین بھرتی کرنے کیلئے 23سو امیدواروں کو نظرانداز کیا گیا جنہوں نے درخواستیں دی تھیں ان کے ٹیسٹ ہوئے نہ انٹرویو لئے گئے ان کا حق متاثر ہوا تھا۔

جسٹس ثاقب نثار نے کہاکہ ہمیں ملازمین سے ہمدردی ہے انہوں نے معلوم نہیں کس طرح پیسے جمع کر کے یہ ملازمتیں حاصل کیں مگر ہم کیس وسیع تناظر میں سن رہے ہیں تاہم جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ ہمارے ہاں سے لوگ زمین جائیداد بیچ کر ایجنٹ کو پیسے دیتے ہیں کہ ہمیں یونان ،اٹلی یا دیگر کسی ملک میں پہنچا دے ، کچھ ترکی کے بارڈر پر مر جاتے ہیں،کچھ پکڑے جاتے ہیں جو واپس آتے ہیں وہ یہاں آکر ایجنٹ کیخلاف مقدمہ درج کرا دیتے ہیں اور خود مظلوم بن جاتے ہیں حالانکہ جرم میں دونوں شریک تھے مگر جرم مکمل نہیں ہو پایا،جب غلط کام نہ ہو پائے تو ایک فریق مظلوم بن جاتا ہے اور دوسرے کو ظالم بنادیتا ہے،یہی صورتحال بھرتیوں کے اس مقدمے کی بھی ہے ،ملازمین بھی غلط کام میں شریک تھے مگر اب کمیٹی والوں کو ظالم کہہ رہے ہیں ہمیں ان سے کوئی ہمدردی نہیں۔

بعد ازاں بعض ملازمین کی جانب سے سردار اسلم نے دلائل دیئے جنہیں سننے کے بعد عدالت نے تمام نظرثانی اپیلیں خارج کردیں۔