غریبوں کو آٹے کی سستی فراہمی بارے عملی اقدامات پر وفاق اور صوبوں سے حتمی رپورٹ 17 جولائی تک طلب،وفاق اور صوبے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی بارے کوئی ٹائم فریم نہ دے سکے، وافر اناج کے باوجود غریبوں کو بھوک سے نہیں مرنے دیں گے،امداد کا نظام آ ن لائن ہونا چاہئے، جسٹس جواد ایس خواجہ، لگتا ہے کہ ہم عام لوگوں کو سستے آٹے کی فراہمی میں پانی ”کچھ“(ماپ) رہے ہیں، عدالت کو طفل تسلیاں نہیں عملی اقدامات بتائے جائیں‘ افسران افسری چھوڑ کر خدمت خلق کو شعار بنائیں‘ غریبوں کی خدمت کیلئے ہوش کیساتھ جنون کی بھی شدید ضرورت ہے، سرکار چلانا عوامی نمائندوں کا کام ہے مگر آرٹیکل 9‘ 14 اور 38 پر عمل کرانا اور اس کے تقاضے پورے کرانا ہمارا کام ہے‘ریمارکس

بدھ 9 جولائی 2014 06:59

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔9جولائی۔2014ء) سپریم کورٹ نے جماعت اسلامی کے مرکزی راہنماء لیاقت بلوچ کی درخواست پر وفاق اور صوبوں سے غریبوں کو آٹے کی سستی فراہمی بارے عملی اقدامات کے حوالے سے حتمی رپورٹ 17 جولائی کو طلب کرلی‘ وفاق اور صوبے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی بارے کوئی ٹائم فریم نہ دے سکے جبکہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے کہ ہم عام لوگوں کو سستے آٹے کی فراہمی میں پانی ”کچھ“(ماپ) رہے ہیں‘ عدالت کو طفل تسلیاں نہیں چاہئیں عملی اقدامات بتائے جائیں‘ دنیا کا کوئی ایسا مشکل کام نہیں کہ جس کا کوئی حل نہ ہو‘ افسران افسری چھوڑ کر خدمت خلق کو اپنا شعار بنائیں‘ غریبوں کے مسائل حل کرنے کیلئے ہوش کیساتھ ساتھ جنون کی بھی شدید ضرورت ہے‘ سرکار چلانا عوامی نمائندوں کا کام ہے مگر آرٹیکل 9‘ 14 اور 38 پر عمل کرانا اور اس کے تقاضے پورے کرانا ہمارا کام ہے‘ 9 ماہ گزرگئے لیکن اس حوالے سے کوئی قابل عمل حل نظر نہیں آرہا‘ غریبوں کو وافر اناج ہونے کے باوجود بھوک سے نہیں مرنے دیں گے،امداد کا نظام آ ن لائن ہونا چاہئے۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ ریمارکس منگل کے روز دئیے۔

جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ آٹے کی قیمتوں کے حوالے سے کیس کی سماعت شروع ہوئی تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل عتیق شاہ سمیت دیگر صوبوں کے لاء افسران پیش ہوئے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ صوبے میں کب تک یہ کام ہوجائے گا‘ ہم پانی ”کچھ“ (ماپ)رہے ہیں۔ عام حساب سے تقسیم صحیح نہیں ہے۔

سرکار اناج فراہم کرے وہ تو بے معنی نظر آرہا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ غریبوں کو سستے آٹے کی تقسیم اور اس کی مانیٹرنگ کی جائے وہ بتایا جائے۔ ابھی ہم اس سٹیج پر آگئے ہیں جہاں ہم طفل تسلیاں نہیں چاہتے‘ کمیٹیاں نہیں کام چاہئے۔ آپ تمام اعلی سرکاری عہدیدار ہیں۔ آپ کا کم و بیش 25 سال کا تجربہ ہوگا‘ اپنے تجربے کے مطابق بتائیں‘ ابھی تک کچھ نہیں ہوسکا اور نہ ہی کوئی ٹھوس حل سامنے آیا ہے۔

مشکلات ضرور ہیں لیکن اس کا کوئی حل نہیں‘ یہ بات ماننے کی نہیں۔ یہ بات میں کیا کوئی اور بھی تسلیم نہیں کرتے گا کہ اس کا کوئی حل نہیں ہے۔ اس معاملے کی وجہ سے کافی پریشانی ہے۔ اے اے جی عتیق شاہ نے کہا کہ غریب تک آٹا کیسے پہنچے گا اس کیلئے کام کررہے ہیں۔ 67 فیصد سے زائد آبادی کا مسئلہ ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آرٹیکل 14 کے تحت شہریوں کی عزت نفس بھی بحال رہے۔

جوڈیشل ریویو کرنے کا ہمیں کافی تجربہ ہے‘ چالیس سال سے ایسا کررہے ہیں۔ جب چیزیں ہمارے سامنے آئیں گی تو اس کا جوڈیشل ریویو کرلیں گے۔ عملدرآمد کی بات ہوئی تو مانیٹرنگ شروع ہوگی۔ افسری چھوڑ کر خدمت خلق کو اپنا شعار بنائیں۔ ہوش کیساتھ ساتھ جنون کی بھی ضرورت ہے ایسے نہیں چلے گا۔ اس کے بغیر یہ چیز آگے نہیں جائے گی۔

آپ سارے بیٹھ جائیں اور طے کرلیں کہ یہ سب کیسے ہوگا۔

پنجاب کی طرف سے بتایا گیا کہ وزیراعلی چین کے دورے پر ہیں تاہم حکام کو کہہ گئے ہیں کہ تمام معاملات میں تیزی لائی جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مسائل آئیں گے اس کا حل تو بتاسکتے ہیں کہ یہ فلاں تاریخ تک حل کرلئے جائیں گے‘ کم از کم آؤٹ لائن ہی بتادیں۔ حکام نے بتایا کہ وطن کارڈ ودیگر کارڈز کے استعمال بارے بھی سوچ بچار کی جارہی ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ”آ ن لائن“ سسٹم ہونا چاہئے۔

سبسڈی بارے زیاہ نہ بتائیں تجاویز بتائیں‘ سرکار چلانا آپ کا کام ہے ہمارا کام آئین کے آرٹیکل 9 اور 14 پر عمل کیا جائے اور اس تقاضے پورے کئے جاسکیں‘آرٹیکل 38 کا بھی جائزہ لیں۔ 9 ماہ گزرگئے لیکن کوئی قابل عمل حل نظر نہیں آرہا۔ ہمیں کم از کم مشکل کا پتہ تو چل سکے تاکہ اس کا کوئی حل نکالا جاسکے۔ عدالت نے کہا کہ تمام حکام رجسٹرار آفس کے قریب کمیٹی روم میں بیٹھ جائیں اور مشکلات اور قابل عمل حل سوچ کر عدالت کو بتائیں۔ بعدازاں عدالت نے سماعت 17 جولائی تک ملتوی کرتے ہوئے وفاق اور صوبوں سے حتمی رپورٹ طلب کی ہے۔

متعلقہ عنوان :