ای او بی آئی میں غیرقانونی تقرریوں کو کالعدم قرار دئیے جانے کے عدالتی فیصلے کیخلاف راجہ پرویز اشرف کے داماد راجہ عظیم الحق کی نظرثانی کی درخواست خارج،سابقہ حکومت نے سیاسی اور اقرباء پروری کی انتہاء کرتے ہوئے سیمنٹ فیکٹریوں سے اٹھا کر لوگوں کو پولیس میں تعینات کیا‘ سوچا گیا کہ نوکریاں دیکر ووٹ لیں گے مگر الیکشن بھی ہارگئے‘ چور دروازے سے آنیوالوں کو تحفظ نہیں دے سکتے‘جسٹس آصف سعید کھوسہ،مانتے ہیں متاثر ہونیوالوں نے ڈاکہ نہیں ڈالا مگر جو طریقہ کار اختیار کیا گیا وہ ڈاکے سے کم نہیں،امیدوار قابلیت رکھتا ہو تو بھی بدنیتی کو نظرانداز نہیں کرسکتے‘ جسٹس ثاقب نثار،آرمی ایکٹ‘ توہین عدالت اور اسلامی قوانین میں اپیل کا حق طے شدہ طریقہ کار کے مطابق ہی دیا گیا ہے،جسٹس اعجاز افضل

منگل 8 جولائی 2014 07:23

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔8جولائی۔2014ء) سپریم کورٹ نے ایمپلائیز اولڈ ایج بینیف انسٹیٹیوشن (ای او بی آئی )میں غیرقانونی تقرریوں کو کالعدم قرار دئیے جانے کے عدالتی فیصلے کیخلاف دائر سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے داماد راجہ عظیم الحق کی نظرثانی کی درخواست خارج کردی جبکہ فیصلے سے متاثرہ 400 دیگر درخواستوں کی سماعت (آج) منگل تک ملتوی کردی‘جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ سابقہ حکومت نے سیاسی اور اقرباء پروری کی انتہاء کرتے ہوئے سیمنٹ فیکٹریوں سے اٹھا کر لوگوں کو پولیس میں تعینات کیا جن میں سے بعض ایس ایس پی کے عہدے تک بھی پہنچے‘ سوچا گیا کہ نوکریاں دے کر ووٹ لیں گے‘ ووٹ بھی نہ ملے اور الیکشن بھی ہارگئے‘ چور دروازے سے آنے والوں کو تحفظ نہیں دے سکتے‘ سب عہدے حکومت نے اپنوں کو دے دئیے تو حقدار کہاں جائیں گے؟ ایک وزیر نے اپنے بھائی کو چیئرمین ای او بی آئی لگوایا، تقرری قانونی ہے تو پھر تقرری حاصل کرنے والوں کو پریشان نہیں ہونا چاہئے، ہمیں متاثر ہونے والوں کا احساس ہے مگر غیرقانونی کام کو جائز قرار نہیں دے سکتے‘

جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ مانتے ہیں کہ جو متاثر ہوئے انہوں نے ڈاکہ نہیں ڈالا مگر جو طریقہ کار اختیار کیا گیا وہ ڈاکے سے کم نہیں تھا،امیدوار قابلیت بھی رکھتا ہو تو بھی ہم بدنیتی کو نظرانداز نہیں کرسکتے‘ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دئیے کہ آرمی ایکٹ‘ توہین عدالت اور اسلامی قوانین میں اپیل کا حق طے شدہ طریقہ کار کے مطابق ہی دیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ ریمارکس پیر کے روز دئیے۔ جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے ای او بی آئی کیس میں نظرثانی کی درخواستوں کی سماعت کی۔اس دوران ملازمین کی جانب سے افراسیاب‘ شعیب شاہین اور عبدالحفیظ پیرزادہ نے دلائل دئیے۔ عبدالحفیظ نے دلائل میں موقف اختیار کیا کہ عدالتی فیصلے سے کافی لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ کئی لوگ تو زائدالعمر ہوگئے ہیں‘ کئی گھروں میں بیٹھے ہیں۔

عدالت سخاوت کا مظاہرہ کرے اب وقت آگیا ہے کہ عدالت کو اپنے آرٹیکل 184(3) کے تحت حاصل اختیار کا جائزہ لینا ہوگا۔ انہوں نے غلام سرور کیس میں لارجر بنچ بنانے کی استدعاء کررکھی ہے۔ ہائیکورٹس بھی آئینی عدالتیں ہیں اور وہ اپنی مرضی کے فیصلے دے سکتی ہیں۔ ان کے فیصلوں کیخلاف دائر اپیلوں پر سپریم کورٹ فیصلہ دیتی ہے۔ جب سپریم کورٹ 184(3) کے تحت کوئی فیصلہ کرتی ہے اور یہ ہائیکورٹ کے بھی خلاف جارہا ہو تو سپریم کورٹ کو اور بھی احتیاط کرنی ہوتی ہے۔

جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ آرٹیکل 184(3) کے تحت اپنے دائرہ کار کو جانتے ہیں اور محتاط ہوتے ہیں۔

حفیظ پیرزادہ نے کہا کہ بعض اوقات جج خود بھی غلطیاں کرتے ہیں کہ فیصلہ کوئی اور عدالت کرے۔ انہیں ایک جج نے بتایا تھا کہ انہوں نے ایک فیصلے میں جان بوجھ کر غلطی کی تاکہ اس کا فیصلہ سپریم کورٹ کرے۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ ان 23 ہزار درخواست گزاروں کو کہاں رکھیں کہ جن کو سنا ہی نہیں گیا اور جنہوں نے اشتہار کے مطابق اپلائی کیا تھا مگر ان کیساتھ کیا گیا ان کی بجائے لوگوں کو سیاسی بنیادوں پر بھرتی کیا گیا۔

اتنا کچھ ہونے کے باوجود عدالت نے متاثرہ افراد کیلئے دروازہ بند نہیں کیا اس پر حفیظ پیرزادہ نے کہا کہ ابھی بھی 600 سے زائد سیٹیں خالی پڑی ہیں اس پر عدالت نے کہا کہ ہم ای او بی آئی چیئرمین کو بلالیتے ہیں۔ عدالت کے استفسار کرنے پر بتایا گیا کہ چیئرمین عمرہ کی ادائیگی کیلئے سعودی عرب میں ہیں 12 جولائی کو واپس آجائیں گے۔ عدالت کا مزید کہنا تھا کہ پہلے ہم دلائل سن لیتے ہیں اور میرٹ پر فیصلہ کردیں گے۔

ضرورت ہوئی تو چیئرمین کو بھی طلب کرلیں گے۔

اس دوران عدالت نے سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی پہلے ای او بی آئی بعدازاں ورلڈ بینک میں تقرری بارے ان کے وکیل چوہدری افراسیاب کے دلائل بھی سماعت کئے جنہوں نے عدالت کو بتایا کہ ان کے موکل نے استعفیٰ دے دیا تھا اب ان کیخلاف نیب کی تحقیقات کی کیا ضرورت ہے؟ اس پر جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ ان کی تقرری میں سیاسی شخصیات ملوث تھیں اسلئے معاملہ نیب کو بھیجا گیا تھا کہ پتہ کرکے بتایا جائے کہ کون کونسی سیاسی شخصیات اس میں ملوث تھیں۔

عدالت نے بعدازاں اس کی نظرثانی کی درخواست خارج کردی۔ واضح رہے کہ راجہ عظیم الحق کو ای او بی آئی میں ڈپٹی ڈائریکٹر سے ڈائریکٹر جنرل اور بعدازاں ترقی دے کر ورلڈ بینک بھجوادیا گیا تھا۔ عدالت کیس کی مزید سماعت (آج) منگل کو بھی جاری رکھے گی۔