مشرف کے خلاف آئین شکنی کیس کی سماعت، استغاثہ کے مزید دو گواہوں کے بیانات قلمبند، مشرف کے دستخطوں کے ساتھ ایمرجنسی کے نافذ کا عبوری حکم نامہ اور پی سی او کا حکم نامے کا اصل ریکارڈ بھی عدالت میں پیش

جمعہ 4 جولائی 2014 07:02

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔4جولائی۔2014ء)سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کیس کی سماعت کے دوران خصوصی عدالت میں استغاثہ کے دو گواہوں نے بیانات ریکارڈ کروادیئے ہیں اور پرویز مشرف کے دستخطوں کے ساتھ ایمرجنسی کے نافذ کا عبوری حکم نامہ اور پی سی او کا حکم نامے کا اصل ریکارڈ بھی عدالت میں پیش کیا گیا ہے۔عدالت نے دونوں گواہوں پر جرح مکمل ہونے پر مقدمہ کی سماعت 08جولائی تک ملتوی کر دی ہے۔

جمعرات کے روز سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں جسٹس طاہرہ صفدر اور جسٹس یاور علی پر مشتمل خصوصی عدالت نے کی۔اس موقع پر استغاثہ کی جانب سے دو گواہوں سابق ڈپٹی سیکرٹری کابینہ ں ڈویژن سراج احمد اور سابق سیکشن افسر کابینہ ڈویژن کلیم احمد شہزاد کو بیانات ریکارڈ کرنے کے لئے عدالت میں پیش کیا گیا۔

(جاری ہے)

عدالت نے پہلے گواہ کلیم احمد شہزاد کا بیان ریکارڈ کرنے سے قبل ان سے حلف لیا ، جس کے بعد انہوں نے اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ایمرجنسی کے نفاذ کا حکم نامہ و پی سی او کا حکم نامہ صدارتی آرڈر اور حساس دستویزات تھیں اس لئے یہ وفاقی سیکرٹری کابینہ نے براہ راست سابق صدر سے وصول کیے تھے۔اس موقع پر انہو ں نے پرویز مشرف کے دستخطوں والے اصل ایمرجنسی کے نفاذ اور پی سی او کے حکم نامے بھی عدالت میں پیش کیے ۔

جس پر عدالت نے ان سے پوچھا کہ ان کا بیان تحقیقاتی ٹیم نے کب اور کہاں ریکارڈ کیا جس کے جواب میں کلیم احمد شہزاد نے ایف آئی اے کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے چار دسمبر کو2013کا ان کا بیان ان کے آفس میں ریکارڈ کیا تھا اور کچھ دستویزات بھی تحقیقاتی ٹیم نے مانگی تھیں جو انہیں فراہم کر دی گئیں، اس کے دو روز بعد ایف آئی اے نے مزید دستاویزات طلب کی جو مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو فراہم کی گئیں جبکہ اسی ماہ کی اٹھارہ تاریخ کو ایف آئی اے ٹیم نے پرویز مشرف کے دستخطوں والے پی سی او کے حکم نام کی کاپی مانگی جو اس کے اگلے روز دیدی گئی۔

اس موقع پر پرویز مشرف کے وکیل شوکت حیات ایڈووکیٹ نے سوال کیا کہ کیا یہ درست ہے کہ بیانات میں پرویز مشرف کا نام اور انکوائری نمبر درج نہیں جس پر کلیم احمد نے جواب دیا کہ یہ بات درست ہے۔اس کے بعد عدالت کے سامنے استغاثہ نے دوسرے گواہ کو بیان ریکارڈ کروانے کے لئے پیش کیا جہاں سابق ڈپٹی سیکرٹری کابینہ ڈویڑن سراج احمد نے اپنا بیان ریکارڈ کروایا۔

اپنے بیان میں سراج احمد نے بتایا کہ ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم نے جب کلیم احمد احمد شہزاد کے دفتر کا دورہ کیا تھا تو اس وقت تمام دستاویزات ایف آئی اے کو فراہم کی گئی تھیں اور وہیں پر ایف آئی اے نے ان کا بیان بھی ریکارڈ کیا تھا ،ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے کو مشرف کے دستخطوں کے ساتھ 3 نومبر کے ایمرجنسی کے حکمنامے اور دیگر متعلقہ دستاویزات فراہم کیں۔

اس پر وکیل صفائی نے پوچھا کہ کیا پر ویز مشرف نے ان کی موجودگی پر ایمرجنسی اور پی سی او کے حکم ناموں پر دستخط کیا تھے جس پر سراج احمد نے بتایا کہ پرویز مشرف نے ان کو موجودگی میں ان دستاویزات پر دستخط نہیں کیے۔اس پر وکیل صفائی نے پوچھا کہ اس قبل عدالت کو بتایا گیا کہ ایف آئی اے کی تحقیقات 16نومبر کو مکمل ہو گئی تھیں تو پر اس کے بعد چار دسمبر، چھ دسمبر، نو دسمبر 16اور اٹھارہ دسمبر ایف آئی اے نے دستاویز ات کیوں مانگیں؟اس پر سراج احمد نے بتایا کہ انہیں اس کا علم نہیں ،ایمرجنسی کے فرمان اور صدارتی حکم نامہ وصولی کی کابینہ کی کے کابینہ میں تاریخ درج ہے اور ساتھ اصل وقت بھی لکھا ہوا ہے جس وقت یہ دستاویزات ایف آئی اے کو فراہم کی گئی تھیں۔

اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ یہ تین نومبر کی دستاویزات حساس دستاویزات تھیں اس لئے ان وفاقی سیکرٹری کابینہ ڈویژن نے براہ راست وصول کی تھیں،بعد ازاں عدالت نے مقدمہ کی سماعت 08جولائی تک ملتوی کر دی ہے۔ آئندہ سماعت پر مزید دو گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے جائیں گے۔

متعلقہ عنوان :