آٹے کی قیمتوں میں اضافہ کیس،وفاق اور صوبوں کی رپورٹس مسترد،سپریم کورٹ نے7 جولائی کو وفاقی اور صوبائی سیکرٹریز خوراک کو ذاتی طور پر طلب کر لیا،امراء اور مراعات یافتہ طبقے کو بھی سبسڈی میں شامل کرکے غریبوں کیساتھ مذاق کیا جارہا ہے‘ جب تک عراق سے تریاق آئے گا سانپ کا ڈسا تو مرجائے گا‘ جسٹس جواد ایس خواجہ، پاکستان میں بابرکت رمضان المبارک آتے ہی مہنگائی بڑھ گئی‘ شاید حکومت برکت حاصل کرنا چاہتی ہے‘ ہمیں ڈیٹا نہیں چاہئے، غریب کے پیٹ میں ڈیٹا ڈالنے سے کچھ نہیں ہوگا،ججز بھی مراعات یافتہ طبقہ ہیں انہیں بھی سبسڈی کی ایک دمڑی نہیں ملنی چاہئے‘ کے پی کے میں تبدیلی کی امید تھی وہ بھی پوری نہیں ہورہی‘ وفاق اور صوبے لوگوں کو بنیادی حقوق نہیں دیں گے تو عدلیہ اپنے فرائض سے روگردانی نہیں کرسکتی‘ ریمارکس، سرکاری افسران ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر صرف کاغذوں کا پیٹ بھرتے رہتے ہیں‘ جسٹس گلزار

بدھ 2 جولائی 2014 06:37

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔2جولائی۔2014ء) سپریم کورٹ نے آٹے کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ کی درخواست کی سماعت کے دوران وفاق اور صوبوں کی جانب سے دی گئی رپورٹس پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے انہیں سختی سے مسترد کردیا ہے اور 7 جولائی کو وفاقی اور صوبائی سیکرٹریز خوراک کو ذاتی طور پر طلب کیا ہے اور ان سے غریب عوام تک سستے آٹے کی ترسیل ہونے کے حوالے سے حلف نامے بھی طلب کئے ہیں‘ سیکرٹریز کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اکتوبر 2013ء سے اب تک کے عدالتی احکامات پر جو عمل کیا گیا ہے اس حوالے سے بھی رپورٹ عدالت میں پیش کریں‘ سیکرٹریز مستحقین خوراک تک آٹے و دیگر خوراک آئٹمز کی فراہمی کیلئے عدالت کو ٹھوس اور قابل عمل تجاویز بھی دی جائیں عدالت نے اپنے حکم نامے میں کہا کہ سبسڈی کا تعلق عمومی حالات سے ہے جو غریب لوگوں کیلئے ٹارگٹڈ نہیں ہیں جبکہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسلامی مملکت خداداد پاکستان میں بابرکت رمضان المبارک آتے ہی مہنگائی بڑھ گئی‘ شاید حکومت برکت حاصل کرنا چاہتی ہے‘ ہمیں ڈیٹا نہیں‘ کیونکہ غریب کے پیٹ میں ڈیٹا ڈالنے سے کچھ نہیں ہوگا‘ امراء اور مراعات یافتہ طبقے کو بھی سبسڈی میں شامل کرکے غریبوں کیساتھ مذاق کیا جارہا ہے‘ جب تک عراق سے تریاق آئے گا سانپ کا ڈسا تو مرجائے گا‘ یہ کمیٹیاں بنانے کا نہیں عمل کا وقت ہے‘ کیا حکمرانوں کے سینوں میں دل نہیں ہے کہ انہیں غریبوں کا احساس تک نہیں‘ ججز بھی مراعات یافتہ طبقہ ہیں انہیں بھی سبسڈی کی ایک دمڑی نہیں ملنی چاہئے‘ کے پی کے میں تبدیلی کی امید تھی وہ بھی پوری نہیں ہورہی‘ کے پی کے میں پانچ ارب روپے ٹارگٹڈ خوراک کیلئے رکھنا خوش آئند ہے مگر اس پر عمل کیسا ہوگا‘ وفاق اور صوبے لوگوں کو بنیادی حقوق دیں اگر وہ حقوق نہیں دیں گے تو عدلیہ اپنے فرائض سے روگردانی نہیں کرسکتی‘ عدالت کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ حکومتوں کو ان کی ذمہ داریوں سے بھی آگاہ کرے‘ گھر بیٹھے بنائے گئے سروے قابل قبول نہیں‘

جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دئیے کہ سرکاری افسران ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر صرف کاغذوں کا پیٹ بھرتے رہتے ہیں‘ قانون تو بن جاتا ہے مگر اس پر عمل نہیں ہوتا‘ کمیٹیاں بننے سے گاڑیاں اور کھانے کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں مگر اس سے غریب کے مسائل حل نہیں ہوتے۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ ریمارکس منگل کے روز دئیے۔ جسٹس جواد کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ آٹے کی قیمتوں کے حوالے سے کیس کی سماعت شروع ہوئی تو سیکرٹری فوڈ سکیورٹی سیرت اصغر‘ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عتیق شاہ پیش ہوئے۔ جسٹس جواد نے عتیق شاہ سے پوچھا جائے کہ کیا آٹے کی فراوانی پورے ملک میں پھیل گئی ہے۔ حنیف راجوانہ کہاں ہیں‘ بتایا گیا کہ وہ ملک سے باہر ہیں اس پر جسٹس جواد نے کہا کہ ہمیں ملک کے اندر بھی توجہ دینی چاہئے ملک کے اندر بھی ایسے حالات ہیں جو توجہ کے متقاضی ہیں۔

عتیق شاہ نے بتایا کہ 5939 یوٹیلٹی سٹور بھی بنائے جارہے ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ کا#غذی کارروائی ہی ہوتی ہے۔ یہ پی سی ون کب بنتا ہے ہماری منشاء ایک ہی ہے کہ لوگوں کو مناسب نرخوں پر کھانے پینے کی اشیاء دی جائیں۔ 2350 کیلوریز فی یوم مقرر کی گئی ہے اور یہ سرکار کا کام ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو مہیاء کرے‘ آمدن‘ گفتن‘ برخواستن کا سلسلہ ہوتا ہے۔

عتیق شاہ نے بتایا کہ حکومت نے یوٹیلٹی سٹورز و دیگر حوالوں سے سبسڈی 12 ارب روپے سے بڑھا کر 17 ارب روپے کردی گئی ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ کوئی خاص پیشرفت نظر نہیں آرہی۔ وفاقی حکومت کہتی ہے کہ اب یہ معاملہ صوبوں کا ہے۔ کوئی محلات میں ہو یا جھونپڑی میں رہتا ہو آپ نے ان کیلئے اربوں روپے رکھ دئیے ہیں۔ سیرت اصغر نے کہا کہ صوبوں کا کام ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔

جسٹس گلزار نے کہا کہ غریب حضرات ہیں ان تک ہماری اور ہماری ان تک رسائی نہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہم کیا کرسکتے ہیں اس حساب سے اگر ہم تینوں اٹھ کر چلے جائیں تو ہم صرف راولپنڈی اسلام آباد کے رمضان سستے بازار ہی دیکھ سکتے ہیں۔

جسٹس جواد نے توفیق آصف سے کہا کہ بتائیں عدالت کیا کرے اور کیا کرسکتی ہے اور کیا ہونا چاہئے۔ توفیق آصف نے کہا کہ اگر سیرت اصغر کی رپورٹ کو مدنظر رکھیں تو عدالتی سماعت کی روح کے مطابق نظر نہیں آتا۔

ہم بند گلی میں ہیں اگر یہ رپورٹ سچی بھی ہے تو بھی یہ سارا انحصار کررہے ہیں۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ہے۔ پوری آبادی کا اٹھارہ فیصد کو فائدہ دے رہے ہیں۔ 1200 روپے فی گھر دے رہے ہیں۔ آئین و قانون کا جو مقصد ہے وہ پورا نہیں ہوتا۔ خوراک کیساتھ ساتھ چھت اور دیگر لوازمات ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہم خوراک کی بات کررہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ حکومت خود بتائے کہ لوگوں تک خوراک کیسے پہنچے گی۔

آئین کا نفاذ ہوتا ہے۔ لوگوں کے حقوق کا تحفظ ہونا ہے۔ توفیق نے کہا کہ حقائق بہت ہی تلخ ہیں ساری سماعت کا مقصد پورا نہیں ہوتا۔ دو دراز میں رہنے والی فیملی کو اگر ریلیف ملتا ہے تب تو ہم مانیں لوگوں کے حالات بہت خراب ہیں۔ شہر کے اندر گاڑی رکھنا خوشحالی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ سی ایژن جی کی وجہ سے چند سو روپے بچانے کیلئے لوگوں کی لمبی لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں‘ خواتین بھی اس میں شامل ہیں۔

ہم تو بہت ہی غریب لوگوں کی بات کررہے ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہم پانی ”کچھ“ رہے ہیں‘ کوئی حل بتائیں۔ وہ لوگ جنہیں ٹارگٹڈ اناج کی فراہمی ہورہی ہے۔ رمضان شروع ہوا تو اور مہنگائی ہوگئی ہے۔ شاید یہ اسلامی مملکت ہونے کی وجہ سے سب برکتیں حاصل کررہے ہیں۔ ہمارے نزدیک صوبوں کی ذمہ داری زیادہ نظر آتی ہے۔ بلوچستان کے ڈائریکٹر فوڈ پیش ہوئے ہیں وہ ڈیٹا بتانے لگے تو جسٹس جواد نے کہا کہ ہمیں ڈیٹا نہیں چاہئے غریب کے پیٹ میں ڈیٹا ڈالنے سے کچھ نہیں ہوگا۔

عدالت کو بتایا گیا کہ دس علاقے بارکھان اور کوہلوں سمی دیگر علاقے شامل ہیں ان میں سبسڈی دی جارہی ہے۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ گوادر تک کے لوگ غریب ہیں۔ بلوچستان حکومت نے بتایا کہ 100 کلوگرام گندم کی قیمت 3650 روپے ہے۔ 650 روپے فی 100 کلوگرام ہمیں زائد دینا پڑتا ہے ہم کوشش کررہے ہیں کہ یہ ختم ہوجائے۔ 21 کروڑ روپے رمضان میں سبسڈی دے رہے ہیں۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ یہ فائدہ آپ کہاں سے دے رہے ہیں۔

جسٹس جواد نے کہا کہ جو لوگ قوت خرید ہی نہیں رکھتے ان کیلئے کیا کرتے ہیں تو حکومت بلوچستان نے بتایا کہ سب معاملات بہتر کررہے ہیں۔ جسٹس جواد نے گورنر بلوچستان‘ وزیراعلی سمیت سبسڈائز آٹا دے رہے ہیں۔ وہ لوگ بھی ہیں کہ جن کو سبسڈی دینے کی ضرورت نہیں ہے ان کو کیوں دے رہے ہیں۔ ٹارگٹڈ معاملہ کیوں نہیں کرتے۔ آپ تو سمارٹ کارڈ بھی بن چکے ہیں۔

جسٹس گلزار نے کہا کہ چار گنا سبسڈی بڑھا کر بھی آپ غریب لوگوں تک نہیں پہنچ سکتے۔ غریب آدمی اور امراء میں آپ فرق ہی نہیں کررہے۔

جسٹس جواد نے کہا کہ جن کو ضرورت نہیں ہے ان کو کیوں دے رہے ہیں۔ آپ کو ہماری بات سمجھ میں ہی نہیں آتی۔ اگر ڈائریکٹر فوڈ کو کچھ سمجھ ہی نہیں تو لوگ تو مریں گے ہی۔ عدالت نے بلوچستان حکومت کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کردیا۔

21 کروڑ روپے کا غریب کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ 1200 روپے فی چالیس کلوگرام گندم خریدنے کی اہلیت نہیں رکھتے ان کیلئے کیا کیا جارہا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ صرف کاغذ پر کیلوریز لکھنے سے تو لوگوں کو یہ کیلوریز نہیں مل سکیں گی۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ سمریاں بھجوانے سے کچھ نہیں ہوگا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ بلوچستان میں کتنی فیئر پرائس شاپس ہیں ان کے بارے میں آپ کو معلومات ہونی چاہئیں۔

فون کرکے پتہ کریں اور تفصیلات بتائیں۔ ڈائریکٹر خوراک نے بتایا کہ ابھی سبسڈی نہیں دے رہے ہیں فی الحال رمضان پیکیج کا اعلان کیا تھا اسلئے فیئر شاپس بھی نہیں ہیں‘ دس منٹ میں پتہ کرکے جواب دیں۔ کے پی کے حکومت نے عدالت کو بتایا کہ 3853.77 ملین روپے سبسڈی دے رہے ہیں۔ اس بجٹ میں ہم نے 5 ارب روپے ٹارگٹڈ سبسڈی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ نادرا کے ذریعے غریب لوگوں کی فہرست مرتب کرکے یہ رقم اور فائدہ دیا جائے گا اس حوالے سے کمیٹی بھی قائم کی گئی ہے۔

جسٹس جواد نے کہا کہ کمیٹی کو چھوڑیں‘ یہ بتائیں کہ غریب لوگوں کا تعین کیسے کریں گے اور وہ لوگ سبسڈی کے مستحق ہیں ان تک یہ چیزیں کیسے پہنچیں گی‘ مانیٹر کیسے کریں گے۔ خیبر پختونخواہ کی لاء افسر نے کہا کہ بجٹ کا معاملہ ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ پانچ ارب ہو یا پچاس ارب‘ اگر لوگوں تک اس کا فائدہ نہیں پہنچا تو یہ سب فضول ہے۔ ہمیں صوبے میں تبدیلی دیکھنے کی امید تھی۔

ضرب المثل ہے ”تریاق از عراق“ جب تک عراق سے سانپ کے ڈسنے کا تریاق آئے گا سانپ کا ڈسا تو مر جائے گا۔ یہ کمیٹیوں کا وقت ہے آپ ابھی تک کمیٹیوں میں ہی پھنسے ہوئے ہیں۔ ضلع‘ تحصیل وار لوگوں بارے معلومات حاصل ہونی چاہئیں۔ ہمیں کمیٹیاں نہیں چاہئیں۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ کمیٹیوں سے تو صرف خرچہ ہی بڑھتا ہی اور کچھ نہیں ہوتا۔

جسٹس جواد نے کہا کہ حکومتوں کے سینوں میں دل ہونے چاہئیں۔

19 جولائی 2013ء کو پہلا حکم نامہ جاری کیا گیا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ شمالی وزیرستان متاثرین بھی آئے ہوئے ہیں حکومت کیا کررہی ہے۔ لوگوں کی لائنیں لگی ہوئی ہیں۔ لوگوں تک کھانا نہیں پہنچ پاتا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ یہ معاملہ وفاقی حکومت دیکھ رہی ہے۔ پانچ ارب روپے چھوٹی رقم نہیں ہے۔ ٹارگٹڈ طریقے سے لوگوں تک اناج کی ترسیل ہونی چاہئے‘ پرسوں تک جواب دیں۔

جسٹس گلزار نے کہا کہ کمیٹی‘ کمیٹی کا سٹاف‘ گاڑیاں اس سے اور کیا حاصل ہوگا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آٹھ ماہ ہوگئے لیکن معاملے میں کوئی خاص پیشرفت نہیں ہورہی۔ ہمیں کمیٹی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ریجنل ڈائریکٹر فوڈ کوہاٹ ڈویژن عبدالجلیل پیش ہوئے اور بتایا کہ پانچ ارب روپے کی سبسڈی تین طریقوں سے دینے بارے غور کیا گیا ہے۔ سمارٹ کارڈ یا راشن کارڈ جاری کئے جائیں یا پھر یوٹیلٹی سٹورز کے ذریعے اناج فراہم کیا جائے۔

عدالت نے کہاکہ کے پی کے سیکرٹری فوڈ کو اگلی سماعت پر طلب کیا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ججز کو حکومت نے ویسے بھی بہت سی مراعات دے رکھی ہے۔ یوٹیلٹی سٹورز کے ذریعے ہمیں تو اس سبسڈی کی دمڑی بھی نہیں ملنی چاہئے۔ نجانے صوبے بھر میں کتنی کمیٹیاں ہوں گی۔ حکومت پنجاب کی جانب سے رزاق اے مرزا پیش ہوئے۔ ایڈیشنل سیکرٹری فوڈ پنجاب ڈاکٹر ناصر پیش ہوئے۔

ستمبر میں گندم کی قیمت بہت بڑھ جاتی ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہمیں گندم کی پیداوار کا شارٹ فال نہیں ہے تو پھر لوگوں تک اناج کیسے پہنچے گا۔ ایڈیشنل سیکرٹری نے بتایا کہ ہم جو آٹا دیتے ہیں اس سے لوگوں کو دس روپے کا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ کے پی کے حکومت کی سوچ ٹھیک لگ رہی ہے۔ پنجاب حکومت نے بتایا کہ آشیانہ سکیم‘ لوگوں کو قرضے‘ پانچ مرلہ پلاٹ دئیے جارہے ہیں۔

خواتین کیلئے صنعت زار ہیں۔ لاہور‘ فیصل آباد اور راولپنڈی میں بھی گھر بنائے جائیں گے۔ 2008ء میں حکومت پنجاب نے سستی روٹی سکیم شروع کی تاہم اس کا عوام تک فائدہ نہیں پہنچ سکا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اس سکیم سے تو امراء نے بھی فائدہ اٹھایا ہوگا۔ سستے تندور میں بھی ٹارگٹڈ بات نہیں کی گئی۔

رزاق اے مرزا نے بتایا کہ راشن کارڈ سکیم شروع کی جارہی ہے۔

جن لوگوں کی انکم ڈیڑھ سو روپے سے کم ہے ان کیلئے سکیم جاری کی جائے گی۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہم امریکہ میں رہتے ہیں ڈالروں کی کیوں بات کررہے ہیں۔ رزاق مرزا نے بتایا کہ 173 روپے فی کس کے علاوہ دالیں‘ چینی اور آٹا دیا جائے گا۔ سندھ حکومت کی جانب سے بتایا گیا کہ لوگوں کی خوشحالی کیلئے کام کررہے ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اس کاغذ کے پرزے سے تھر کی بھوک و ننگ والا خوشحال ہوجائے گا۔

گزٹ میں شائع کرنے سے خوشحال نہیں آجائے گی۔ سندھ حکومت کے لاء افسر نے بتایا کہ ہمیں جو سہولت وفاق دے رہا ہے ہم آگے لوگوں کو دے رہے ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہمیں قوانین سے دلچسپی نہیں لوگوں کو ریلیف ملنا ہی ہماری دلچسپی ہے۔ وفاق اور صوبوں کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کو بنیادی حقوق دے۔ اگر وہ نہیں دیں گے تو ہم اپنی ذمہ داری سے روگردانی نہیں کرسکتے۔

حکومت صرف کمیٹیاں بنانے کے علاوہ کوئی ذمہ داری ادا نہیں کررہی۔ ضخیم فائلیں تو بن گئیں مگر ریلیف نہ ہونے کے برابر ہے۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ سرکاری افسران ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر صرف کاغذوں کا پیٹ بھرتے رہتے ہیں۔ قانون تو بن جاتا ہے مگر اس پر عمل نہیں کیا جاتا۔ عدالت نے کہا کہ تمام صوبوں کی رپورٹس پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہیں۔

جسٹس جواد نے کہا کہ جو کچھ اللہ توفیق دے گا عدالت اپنا کام کرے گی۔ اس حوالے سے کسی کو کوئی خوش فہمی نہیں ہونی چاہئے۔ وفاق صوبوں اور صوبے وفاق کی بات کررہے ہیں۔ کمیٹیوں سے نکل کر عملی کام کئے جائیں۔ اب تو جدید ٹیکنالوجی استعمال کی جارہی ہے۔ عدالت نے وفاق اور صوبوں سے کہا کہ آپ انڈر ٹیکنگ دیں گے یا ہم فوڈ سیکرٹریز کو طلب کریں۔ یہ عدالت کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ حکومت کے کاموں سے ان کو آگاہی بھی دے۔

ہم بالکل مطمئن نہیں‘ کچھ صوبے کمیٹیاں بنارہے ہیں۔ کچھ قانون بناکر گزٹ میں چھاپ رہے ہیں۔

عدالت نے کہا کہ امراء اور ہمارے جیسے مراعات یافتہ افراد کیلئے حکومت کے کام مذاق نہیں ہیں مگر غریبوں کیلئے ضرور ہیں۔ چاروں صوبائی خوراک و زراعت سیکرٹریز پیش ہوں اور اس حوالے سے انڈرٹیکنگ بھی دیں۔ عدالتی حکم پر وفاق اور صوبوں نے صحیح طور پر عمل نہیں کیا۔

سبسڈی دی جارہی ہے۔ یہ غریب اور امراء کے درمیان امتیازی صورتحال رکھتی ہے۔ صوبوں نے جو رپورٹ دی ہے وہ اطمینان بخش نہیں ہے۔ بلوچستان میں 2009ء سے سبسڈی نہیں دی دی جارہی ہے۔ صرف رمضان کیلئے سبسڈی دی گئی ہے۔ کوئی فیئر پرائس شاپ صوبی بھر میں نہیں ہے۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے نے صوبائی سکیم سے آگاہ کیا۔ غریب لوگوں کو سبسڈی ٹارگٹڈ فوڈ آئٹم دئیے جائیں گے۔

سمارٹ کارڈ و دیگر کارڈ جاری کئے جائیں گے۔ اس کام کیلئے پانچ ارب روپے بجٹ میں رکھے گئے ہیں۔ وفاق کی سکیمیں اس کے علاوہ ہیں۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے ایڈیشنل سیکرٹری فوڈ کیساتھ پیش ہوکر بتایا کہ غربت کے خاتمے کیلئے کئی طرح کے پروگرام شروع کئے گئے ہیں۔ فوڈ آئٹمز کی غریبوں کو ترسیل کیلئے کوئی ٹارگٹڈ سکیم شروع نہیں کی گئی۔ سندھ حکومت نے بتایا کہ ایک بل صوبائی اسمبلی میں پیش کیا گیا ہے جس میں غربت ختم کرنے کیلئے اقدامات شامل ہیں۔

بل صرف کاغذ کلا ٹکڑا ہے اس سے غربت کیسے ختم ہوگی۔ موثر اقدامات نہیں کئے گئے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عتیق شاہ اور سیرت اصغر سیکرٹری نیشنل فوڈ سکیورٹی بھی پیش ہوئے اور کہا کہ ہم سبسڈی دے رہے ہیں باقی ذمہ داری اب صوبوں کی ہے۔ اس بارے وفاقی حکومت 200 ارب روپے کی سبسڈی دے رہے ہیں۔

جسٹس جواد نے کہا کہ لوگوں کو کھانا اور اناج دانہ نہیں مل رہا۔

گھروں میں بیٹھ کر افسران سروے کرالیتے ہیں کہ اتنے فیصد لوگ غریب ہیں۔ بی آئی ایس پی کا سروے کچھ اور مقصد کیلئے ہے۔ ان کی رپورٹ بھی کافی اور ٹارگٹڈ نہیں ہے۔ وفاقی حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ جو رقم اور سبسڈی خوراک کیلئے رکھی گئی ہے وہ اسی پر ہی استعمال کی جائے کسی اور آئٹم پر استعمال نہ ہوسکے۔ آرڈر میں کہا گیا ہے کہ وفاق اور صوبوں کی رپورٹس اطمینان بخش نہیں ہیں‘ آٹھ ماہ گزرچکے ہیں اور سب سے زیادہ قابل ترجیح معاملے پر کوئی توجہ ہی نہیں دی جارہی‘ صرف کمیٹیاں بنائی جارہی ہیں۔

ان حالات میں ہم ہدایت جاری کرتے ہیں کہ فوڈ سیکرٹریز اپنی تجاویز کیساتھ پیش ہوں جن میں کمیٹیوں کا تذکرہ نہ ہو اور عملی طریقے بتائے گئے ہوں کہ جس سے عام لوگوں تک آٹا پہنچ سکے‘ بتائے جائیں۔ سیکرٹریز انڈر ٹیکنگ بھی دیں گے کہ سکیمیں تیار کرکے بروقت ان پر عمل کیا جائے گا۔ یہ وفاق اور صوبوں کیلئے آخری موقع ہے۔ ہم اس معاملے سے تھک چکے ہیں۔ پیر کو سماعت کی جائے گی۔ ہم حلف لیں گے اگر اس کی پاسداری نہ ہوئی تو جو نتائج ہوں گے اس بارے میں لاء افسران سیکرٹریز کو بتادیں۔ 7 جولائی کو سماعت ہوگی۔ سیکرٹریز عدالتی احکامات بارے اکتوبر 2013ء سے لے کر اب تک کے حوالے سے رپورٹ بھی دیں۔