خیبر پختونخوا حکومت کی کل جماعتی کانفرنس کا شمالی وزیرستان ایجنسی میں جاری آپریشن کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال پر تشویش کا اظہار،فوجی آپریشن کی کم ازکم وقت میں تکمیل،متاثرین کو فی خاندان 50ہزار روپے ماہانہ معاوضہ،ملک بھر میں کہیں بھی آئی ڈی پیز کے آنے جانے پر پابندی نہ لگانے،ایف سی کی صوبہ کو فوری واپسی اور صوبہ کے تاجروں کو وفاقی ٹیکسوں میں خصوصی چھوٹ دینے کا مطالبہ،متاثرین کی ملک کے کسی بھی حصہ میں آمدپر پابندی غیر آئینی ہے،مشترکہ و متفقہ اعلامیہ

اتوار 29 جون 2014 08:51

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔29جون۔2014ء)خیبر پختونخوا کی تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل کل جماعتی کانفرنس نے شمالی وزیرستان ایجنسی میں جاری آپریشن کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شمالی وزیرستان پر آپریشن پر وفاق نے صوبائی حکومت اور قومی سیاسی و مذہبی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی،جس کے نتیجے میں نہ صرف شمالی وزیرستان ایجنسی بلکہ ملحقہ قبائلی اور بندوبستی علاقوں میں ایک بڑے انسانی بحران کا خدشہ پید اہوگیا ہے اورفوجی آپریشن کی کم ازکم وقت میں تکمیل،متاثرین کو فی خاندادن 50ہزار روپے ماہانہ معاوضہ،ملک بھر میں کہیں بھی آئی ڈی پیز کے آنے جانے پر پابندی نہ لگانے اور جو لوگ وہاں رہ گئے ہیں انہیں گھروں میں ہی ہر ممکن سہولیات فراہم کرنے،ایف سی کی صوبہ کو فوری واپسی اور صوبہ کے تاجروں کو وفاقی ٹیکسوں میں خصوصی چھوٹ دینے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ مذکورہ جنگ کیو جہ سے وزیرستان کے عوام کے نقصانات کا جلد از جلد ازالہ کیا جائے۔

(جاری ہے)

یہ مطالبات وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک کی زیر صدارت جرگہ ہال سی ایم ہاؤس میں منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس کے متفقہ و مشترکہ اعلامیہ میں کئے گئے جو اے پی سی کے اختتام پر صوبائی وزیراطلاعات شاہ فرمان خان نے پڑھ کر سنایا۔اعلامیہ میں کہا گیا کہ خیبر پختونخوا اور ملحقہ قبائلی علاقہ جات کے غیور و جسور اور محب وطن و اسلام پسند شہریوں کے ساتھ گزشتہ تیرہ سال سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائین اتحادی کے عنوان سے جو امتیازی سلوک روا رکھاجا رہا ہے اس کے نتیجے میں اب تک نہ صرف ہزار وں افراد جاں بحق ہو چکے ہیں بلکہ اس خطے کی تاریخ میں پہلی دفعہ”آئی ڈی پیز“کی نئی اصطلاح کے ذریعے لاکھوں افراد جن میں خواتین ،بزرگ اور بچے سب سے زیادہ متاثر ہوئے کو اپنے گھروں سے بے گھر ہونے کے تلخ اور ناقابل برداشت واقعات سے بھی دو چار ہونا پڑا ہے ۔

اس جنگ کا اتحادی بننے کے نتیجے میں خیبر پختونخوااور قبائلی علاقہ جات میں کاروبار اور روزگار تباہ ہو چکے ہیں ۔ کھیت اور باغات اجڑ چکے ہیں ،صنعتیں بندپڑی ہیں ، ڈھائی ہزار سے زائد تعلیمی ادارے تباہ کیے جا چکے ہیں جبکہ صوبے اور قبائلی علاقہ جات کے انفراسٹرکچر کو پہنچنے والے نقصانات اس کے علاوہ ہیں ۔ ملاکنڈ ڈویژن ، باجوڑ ایجنسی،مہمند ایجنسی ،اورکزئی ایجنسی ،کرم ایجنسی اور جنوبی وزیرستان ایجنسی کے بعد اب جب رمضان المبارک کی آمد آمد ہے اور گرمی اپنے عروج پر ہے ایسے میں شمالی وزیرستان میں بڑے پیمانے پر ایک اور آپریشن کا آغاز ایسے حالات میں کیا گیا ہے کہ نہ تو ا س آپریشن کے اثرات اور متاثرین کو درپیش مسائل کے ازالے کے لئے کوئی پیشگی بندوبست کیا گیا ہے اور نہ ہی اس اتنے بڑے بحران کو جنم دینے سے پہلے صوبائی حکومت اور قومی سیاسی و مذہبی جماعتوں اور قیادت کو اعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف شمالی وزیرستان ایجنسی بلکہ ملحقہ قبائلی اور بندوبستی علاقوں میں ایک بڑے انسانی بحران کا خدشہ پید اہوگیا ہے ۔

آپریشن شروع کرنے سے پہلے وفاقی حکومت کو اے پی سی بلانی چاہیئے تھی۔ واضح رہے کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق شمالی وزیرستان سے اب تک پانچ لاکھ سے زائد افراد نقل مکانی کر چکے ہیں جنہیں ہینڈل کرنے اور اس بڑی تعداد کو رہائش ، خوراک ،پانی ،علاج ،حفاظت اور زندگی کی دیگر سہولیات کی فراہمی کے لئے کوئی خاطر خواہ بندوبست نہیں کیاگیا ہے جس کی وجہ سے شمالی وزیرستان کے محب وطن قبائل میں شدید غم و غصہ اور مایوسی پائی جاتی ہے ۔

شمالی وزیرستان آپریشن کا ایک اور افسوسناک پہلو یہاں سے ایک بڑی تعداد کا پاکستان کے بندوبستی علاقوں کی بجائے سر حد پار افغانستان کی جانب نقل مکانی کرنا ہے جس کے نتیجے میں ان خاندانوں کے پاکستان دشمن قوتوں کے ہاتھوں یر غمال بننے کے خدشات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔اس پس منظر اور عوامل کو مد نظر رکھتے ہوئے آل پارٹیز (کل جماعتی )کانفرنس مطالبہ کرتی ہے کہ گزشتہ عشرے کے دوران دہشت گردی، قدرتی آفات اور آپریشنوں میں نقصانات کی بنا پر صوبہ خیبر پختونخوا کو ہارڈ ایریا(Hard Area)تسلیم کیا جائے،نقل مکانی کرنے والے لاکھوں افراد جن کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے کی فوری داد رسی اور ان کو ریلیف فراہم کرنے کے لئے وفاقی حکومت ، صوبائی حکومت اور منتخب قبائلی نمائندوں پر مشتمل ایک فعال اور متحرک ریلیف کوآرڈینشن کمیٹی تشکیل دی جائے ۔

صوبائی حکومت ایمرجنسی بنیادوں پرمالیاتی ضروریات کرے اور اس کو بعد میں مرکز سے دعویٰ کرے،نقل مکانی کرنے والوں اور آپریشن زدہ علاقوں میں پھنسے ہوئے لاکھوں افراد کو ٹرانسپورٹ کی فوری سہولت فراہم کی جائے ،جاری آپریشن میں 15لاکھ سے زائد مال مویشیوں کے مرنے کا خدشہ ہے جس سے لائیو سٹاک کا ایک بڑا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ لہٰذا ان مویشیوں کے لئے چارے اور پانی کا بندوبست کیا جائے،قبائلی اور اسلامی روایات نیز شدید گرمی کے پیش نظر ریلیف کیمپ کھلے میدانوں کی بجائے عمارتوں میں قائم کیے جائیں ،متاثرین کے لیئے 20ہزار روپے فی خاندان ادائیگی کا اعلان بہت کم ہے ۔

لہٰذا متاثرہ خاندانوں کو کم از کم فی خاندان 50ہزار روپے ماہانہ نقد امداد دی جائے ،نقل مکانی کرنے والے چونکہ محب وطن قبائل ہیں اس لئے ان کی اندرون ملک اپنے رشتے داروں کے پاس جانے اور وہاں ٹھہرنے پر پابندی عائد نہ کی جائے بلکہ ان کو اس ضمن میں مناسب سہولت دی جائے ،متاثرین کی ملک کے کسی بھی حصہ میں آمد پابندی غیر آئینی ہے۔لہٰذا ان کے داخلے میں رکاوٹیں نہیں ڈالنی چاہئیں بلکہ دوسرے صوبوں سے حسب سابق رکاوٹیں ڈالنے کی بجائے امداد کی توقع رکھتے ہیں،ٹھوس منصوبہ بندی اور ٹائم فریم کے بغیر آپریشن کا آغاز مناسب نہیں تھا۔

غیر معینہ مدت تک آپریشن جاری رکھنا خطرناک ہے،جو لوگ اپنے گھروں میں کسی بھی وجہ سے رہ گئے ہیں ان کے تحفظ جان و مال اور خوراک وغیرہ کا فوری بندوبست کیاجائے ،ملکی اور غیر ملکی ڈونرز ایجنسیوں، مخیر حضرات اور اداروں سے آپریشن سے پیدا ہونے والے انسانی المیے پر قابوپانے میں مدد دینے کے لئے صوبائی حکومت اور متعلقہ اداروں کے ساتھ خصوصی مالی امداد کی درخواست کی جا تی ہے ،صوبے کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر تاجروں، صنعتکاروں کو کاروبار چلانا مشکل ہو گیا ہے۔

لہٰذا فیڈرل ٹیکس جس میں سیلز ٹیکس/ انکم ٹیکس/کسٹمز ڈیوٹی میں خصوصی چھوٹ دی جائے،بڑے نقصان کے نام پر بے گناہ عوام کو ہدف بنانے سے گریز کیا جائے،قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا میں مسلسل جنگ اور آپریشنوں کے نتیجے میں جو تباہی ہوئی ہے اس کا ازالہ کیا جائے،پارلیمانی ٹاسک فورس برائے فاٹا بنائی جائے تا کہ وہ خود اپنی سفارشات دے دیں،اے پی سی کے شرکاء پولیس کی قربانی کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور ان کی کارکردگی کو تحسین کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

صوبہ خیبر پختونخوا میں جاری دہشت گردی کی روک تھام کیلئے پولیس اور ایف سی کی نفری ناکافی ہے لہٰذا درخواست ہے کہ ایف سی کو فی الفور خیبر پختونخوا واپس کیا جائے،متاثرین کے کیمپس اور رہائش گاہوں میں لوڈ شیڈنگ فوری طور پر بند کی جائے اورکانفرنس کے شرکاء پاکستان کے عوام اور خیراتی اداروں سے بھی مصیبت کی اس گھڑی میں امدادی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی اپیل کی کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امید ہے وفاقی حکومت اور مقتدر ادارے شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن سے پیدا ہونے والے انسانی بحران کے خاتمے کے لئے آج کی اس کل جماعتی کانفرنس کے مطالبات اور تجاویز پر فی الفور عمل درآمد کو یقینی بنانے میں کسی سیاسی مصلحت اور پس و پیش سے کام نہیں لیں گے ۔

متعلقہ عنوان :