کراچی اغواء اور منشیات کی سمگلنگ میں گھر چکا ہے‘ بر طا نو ی اخبا ر کا دعو ی ، پاکستان کا تجارتی دارالحکومت مجرمانہ سیاستدانوں، نسلی اور مذہبی ناخداوں اور غیر معمولی سفاکانہ مجرموں کے سامنے اپنی اتھارٹی کھو چکا ہے ،کراچی کے بغیر پاکستان کو واپس راہ پر لانا مشکل ہوگا، طالبان کی طرف سے ائیرپورٹ پر حالیہ سفاک حملے نے ڈرامائی طور پر کراچی کی مشکلات کی وجہ نظریاتی اور مذہبی وجوہ کو اجاگر کیا ،فنانشل ٹائمز

ہفتہ 28 جون 2014 08:20

لندن(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔28جون۔2014ء)برطانوی اخبار”فنانشل ٹائمزکا کہنا ہے کہ پاکستان کا تجارتی دارالحکومت کراچی اغواء اور منشیات کی اسمگلنگ میں گھر چکا ہے۔کراچی پاکستانی معیشت کا انجن اور دنیا کا سب سے پر تشدد میگا سٹی ہے۔ اغوا ء میں عسکریت پسندی کا عنصر اب عروج پر ہے۔گزشتہ سال کراچی میں سب سے زیادہ ریکارڈ اغوا برائے تاوان کے مقدمات درج ہوئے جو173تھے۔

کئی کیسز خفیہ طور پر ادائیگی کے بعد ختم ہوئے۔ رینجرز کی طرف سے چھاپوں کے بعد اس سال کے اعداد و شمار میں بہتری آئی ہے۔ اخبا ر کی رپو رٹ کے مطا بق بحیرہ عرب پر واقع 22ملین نفوس کے شورش زدہ ساحلی شہر کراچی میں ریاست طویل عرصے سے مجرمانہ سیاستدانوں، نسلی اور مذہبی ناخداوں اور غیر معمولی سفاکانہ مجرموں کے سامنے اپنی اتھارٹی کھو چکی ہے۔

(جاری ہے)

انسانی حقوق کمیشن کے مطابق کراچی میں گزشتہ برس ریکارڈ 3251 افراد کو قتل کردیا گیاجن میں بم دھماکوں میں بچوں کی ہلاکت،جلا کر مارنے، نامعلوم اطراف سے آنے والی گولیوںِ، فرقہ وارانہ اوراغوا برائے تاوان کی ہلاکتیں شامل ہیں۔کراچی میں پیسے کے لئے اغوا کرنا عام ہے لیکن طالبان کی طرف سے ائیرپورٹ پر حالیہ سفاک حملے نے ڈرامائی طور پر کراچی کی مشکلات کی وجہ نظریاتی اور مذہبی وجوہ کو اجاگر کیا ہے۔

گزشتہ پانچ برس کے دوران انتہا پسند مذہبی عناصر نے شہر کے مختلف حصوں میں اپنی گرفت کو مضبوط کیا۔ سندھی ،مہاجر، پشتون ،بلوچ ، پنجابی ، افغان اور دیگر کے امتزاج کایہ شہر کراچی منی پاکستان کہلاتا تھا۔ ہمیشہ سے موجود تشدد اور کراچی میں بڑھتا ہوا عدم استحکام پاکستان بھر کو شدید متاثر کرتاہے۔ ایک فرانسیسی محقق لکھتا ہے کراچی ایک اندرونی دھماکے کے راستے پر ہے جس کی بڑی وجہ قومی معیشت میں کراچی کی پائیدار مرکزیت اور شہر میں پھیلتی تیزی سے پیچیدہ نسلی مرکب ہے۔

کراچی کے بغیر پاکستان کو واپس راہ پر لانا مشکل ہوگا۔ کراچی ائیر پورٹ حملے نے طالبان کے خلاف پاکستان کی سب سے بڑی فوجی کارروائی کو متحرک کیا۔ خانہ جنگی میں کراچی کے شہری فرنٹ لائن پر زیادہ ہیں۔ 1940کی دہائی میں مشرق کا پیرس کہلانے والا کراچی 80 کی دہائی کے بعد طالبانائزیشن میں جکڑا جا چکا ہے۔ غیر ملکی سفارت کار کے مطابق پاکستان کا مستقبل کراچی میں لکھا جائے گا۔

اصل سوال یہ ہے کہ اس شہر کو کون کنٹرول کرے گا مہاجر؟ سندھی؟ پشتون؟ طالبان؟۔کئی دیگر گروپ اور منشیات کے اسمگلر بھی موجود ہیں۔اخبا ر لکھتاہے کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن اہم ہے جو پاکستان میں طالبان کے کردار کا تعین کرے گا۔ رپورٹ کے مطابق ایم کیو ایم کے ہیڈ کوارٹر کا دورہ واضح کرتا ہے کہ طاقت کا توازن کراچی میں تبدیل ہو رہا ہے۔ پشتون، طالبان اور دیگر انتہا پسند گروپوں کے عسکریت پسندوں سمیت افغان مہاجرین نے ایم کیو ایم کی طاقت کو چیلنج کیا ہے۔

ایم کیو ایم کے رہنما کہتے ہیں کہ الطاف حسین نے طویل عرصے سے کراچی پر قبضہ کرنے کی طالبان کی کوشش کے بارے میں خبردار کیا تھا۔ ایم کیو ایم کے رہنما خواجہ اظہار الحسن نے 25 سو سے زیادہ غیر اندراج شدہ مدارس پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔رپورٹ کے مطابق کراچی کبھی ایسا میدان جنگ نہیں تھا یہاں137سینما ہاؤسز اور32تھیٹر ز تھے۔اب کراچی کے کچھ حصے نارمل مگر بدصورت جدید شہر کا نظارہ پیش کرتے ہیں۔

کراچی کی ساحلی سیر گاہ پیرا ڈائز پوائنٹ کسی بھی صورت ایک جنت نظیر نہیں لگتی۔

رپورٹ کے مطابق طالبان نے تمام غیر ملکی سرمایہ کاروں، ایئر لائن اور کثیر القومی کارپوریشنوں کوپاکستان چھوڑ جانے کامطالبہ کیا اور نواز شریف کے پنجابی مرکز پر حملہ کرنے کی دھمکی دی۔پشاور ائیر پورٹ پر طیارے پر فائرنگ کا واقعہ ہو گیا۔جس طرح کی صورت حال طالبان نے پاکستان میں بپا کر رکھی ہے ویسی ہی عراق میں انتہا پسند تنظیم آئی ایس آئی ایس نے بنا رکھی ہے۔

پاکستانی خفیہ ایجنسی کے حکام اور سیکورٹی ماہرین دونوں ممالک میں نظریاتی اور آپریشنل جیسی بہت سی باتوں کومشترک پا رہے ہیں۔انتہا پسند گروپ نہ صرف پاک فوج کے جوانوں کو شہید کر رہے ہیں بلکہ دیگر فرقوں اور مذاہب کے ماننے والوں کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔