مشرف کے خلاف آرٹیکل چھ کی کاروائی کی منظو ری وزیر اعظم نے نہیں وزیر داخلہ نے دی تھی،سیکرٹری داخلہ ،کاروائی کے لئے وزیر اعظم اور وفاقی کابینہ سے منظوری نہیں لی گئی،شاہد خان سے خصو صی عدالت میں جر ح ، پرویز مشرف کے کاروائی بدنیتی پر مبنی ہے، وکیل صفائی بیریسٹر فروغ نسیم، غداری کیس میں جرح مقدمہ کے مستقبل کیلئے انتہائی اہم ہے،آج تک آرٹیکل 6کے تحت کسی کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی،میرے موکل کے خلاف ایسی کارروائی مساوی حقوق سے متعلق آئینی شقوں کے منافی ہے،غیر ملکی میڈیا سے بات چیت

جمعرات 26 جون 2014 07:44

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔26جون۔2014ء) سابق صدر جنرل( ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری مقدمہ کی سماعت کرنے والی تین رکنی خصوصی عدالت نے مقدمہ کی سماعت آج جمعرات تک ملتوی کر دی ہے۔دوران سماعت سیکرٹری داخلہ و شکایت کنندہ شاہد خان نے کہا ہے کہ آرٹیکل چھ کی کاروائی کی منظو ری وزیر اعظم نے نہیں بلکہ وزیر داخلہ نے دی تھی اور مقدمے کا مسودہ انہوں (شکایت کنندہ) نے خود تیار کیا تھا، یہ درست نہیں کہ شکایت درج کرنے سے قبل وزارت قانون انصاف سے قانونی رائے نہیں لی گئی،کاروائی کے لئے وزیر اعظم اور وفاقی کابینہ سے منظوری نہیں لی گئی جبکہ وکیل صفائی بیریسٹر فروغ نسیم نے کہا ہے کہ ان کے موٴکل پرویز مشرف کے کاروائی بدنیتی پر مبنی ہے۔

بدھ کے روز سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری مقدمہ کی سماعت جسٹس طاہرہ صفدر اور جسٹس یاور علی پر مشتمل تین رکنی خصوصی عدالت نے جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں کی۔

(جاری ہے)

اس موقع پر سابق صدر کے وکیل بیریسٹر فروغ نسیم نے غداری مقدمہ کے شکایت کنندہ و سیکرٹری داخلہ شاہد خان پر جرح جاری رکھتے ہوئے سوال کیا کہ آرٹیکل چھ کی کاروائی کی منظوری کس نے دی جس پر سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ ملنے کے بعد آرٹیکل چھ کی کاروائی کی منظوری وفاقی وزیر داخلہ نے دی،

وکیل صفائی نے پوچھا کیا کہ کیا وزیر اعظم نے آرٹیکل چھ کی کاروائی کی منظوری نہیں دی جس پر انہوں نے جواب دیا کہ آرٹیکل چھ کی کاروائی کے لئے وزیر اعظم یا وفاقی کابینہ سے منظوری نہیں لی گئی بلکہ وزیر داخلہ نے اس کی منظوری دی تھی۔

اس پر فروغ نسیم نے سوال کیا کہ کیا ا اس مقدمے میں وزیر اعظم کابیان ریکارڈ کیا گیا جس پر سیکریٹری داخلہ شاہد خان نے جواب دیا کہ وزیر اعظم کا کوئی بیان ریکارڈ نہیں کیا گیا۔ اس کے بعد وکیل صفائی نے سوال کیا کہ پرویز مشرف کے خلاف غداری مقدمہ کے لئے شکایت درج کرنے سے قبل وزارت قانون سے مشاورت کب کی گئی؟ اس کے جواب میں سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ اصل تاریخ یاد نہیں البتہ اس حوالے سے وزارت قانون و انصاف سے کئی بار مشاورت کی گئی تھی تاہم ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ وزارت داخلہ کو موصول ہونے کے بعد وزارت قانون و انصاف سے تفصیلی مشاورت ہوئی اور اس کے بعد ہی اگلی کاروائی کا آغاز کیا گیا۔

فروغ نسیم نے اپنے سوال جاری رکھتے ہوئے شکایت کنندہ سے پوچھا کہ کیا یہ درست نہیں کہ وزارت قانون اس حوالے مشاورت کی ہی نہیں گئی جس پر سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ یہ درست نہیں کہ وزارت قانون سے مشاورت نہیں ہوئی ، وزارت داخلہ سے کئی بار مشاورت ہوئی اور تحقیقاتی رپورٹ ملنے کے بعد تفصیلی مشاورت ہوئی ہے۔فروغ نسیم نے پوچھا کہ کن شواہد کا جائزہ لینے کے بعد آرٹیکل چھ کے تحت شکایت درج کرائی گئی؟۔

شاہد خان نے بتایا تمام شواہد ایف آئی اے کی رپورٹ اور اس سے منسلک دستاویزات پر مشتمل ہیں ۔اس پر فروغ نسیم نے پوچھا کہ پرویز مشرف کے خلاف غداری مقدمہ قائم کرنے کے لئے درج کروائی گئی شکایت کا مسودہ کس نے تیار کیا تھا ؟جس پر سیکریٹری داخلہ نے کہا شکایت کے اندراج کیلئے مختلف مسودے تیار کیے گئے تھے مگر حتمی مسودہ انہوں نے خود تیار کیا تھا۔

۔ فروغ نسیم نے کہا پرویز مشرف کے خلاف شکایت بدنیتی پر مبنی ہے کیونکہ شکایت درج کروانے کے اصل طریقہ کار اپنایا ہی نہیں گیا۔ادھرسابق صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کیس میں ان کے وکیل فروغ نسیم نے کہا ہے کہ غداری کیس میں جرح مقدمہ کے مستقبل کیلئے انتہائی اہم ہے،آج تک آرٹیکل 6کے تحت کسی کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی،میرے موکل کے خلاف ایسی کارروائی آئین میں مساوی حقوق سے متعلق شقوں کے منافی ہے۔

غیر ملکی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فوجداری یا سول مقدمے میں سوچ یہ ہوتی ہے کہ اگر عدالت کو کچھ آگاہی نہیں ہے تو دونوں فریق چیزیں بتائیں گے اور ریکارڈ پر لائیں گے۔ اس کا ایک مخصوص طریقہ کار ہوتا ہے اور اگر اسے صحیح انداز میں نہ کیا جائے تو پھر عدالت کہتی ہے کہ یہ تو ریکارڈ پر آیا نہیں اس لیے اس پر فیصلہ نہیں دے سکتے۔

پرویز مشرف پر الزام ہے کہ انہوں نے 2007ء میں آئین کو معطل کر کے ملک میں ایمرجنسی نافذ کی اور سپریم کورٹ کے ججوں سمیت درجنوں کو معزول کیا۔فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ ملک میں آرٹیکل 6 کا نفاذ 1956ء سے ہوا جس کے تحت کسی بھی شخص کے خلاف آئین شکنی کی کارروائی شروع کی جا سکتی ہے مگر ان کے موکل ہی کے خلاف ایسی کارروائی آئین میں مساوی حقوق سے متعلق شقوں کے منافی ہے۔

ایسا کیوں ہوا کہ صرف 3 نومبر 2007ء کے اقدام پر آرٹیکل 6 کا مقدمہ بنایا گیا اور صرف فرد واحد پر۔ کئی اور آرٹیکل 6 کے واقعات ہیں اور سیکرٹری صاحب نے بھی یہ تسلیم کیا مگر کہا کہ میرے پاس وقت نا تھا۔ تو میرا سوال تھا کہ دیگر واقعات کے لیے وقت نا تھا اور اس کے لیے تھا۔ تو یہ امتیازی سلوک ہے۔پرویز مشرف کہہ چکے ہیں کہ 2007ء کے اقدامات انہوں نے اس وقت کے سیاسی اور عسکریت رہنماوٴں کی مشاورت سے کیے۔ چند سیاسی رہنما بھی فوج کے سابق سربراہ کی طرف سے گواہ کے طور پر عدالت کے سامنے پیش ہونے کی پیش کش کر چکے ہیں۔پرویز مشرف یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ فوج اپنے سابق سربراہ کے خلاف اس کارروائی پر خوش نہیں۔

متعلقہ عنوان :