بلوچستان کا مالی سال 2014-15ء کیلئے 215.713 بلین روپے کا بجٹ پیش کردیا گیا ،متبادل توانائی کو استعمال میں لانے کیلئے مختلف اسکیمیں شروع کرنے کا فیصلہ، بے روزگاری پر قابو پانے کیلئے 3925نئی آسامیاں پیدا کی جائیں گی، تنخواہوں اور پنشن کی مد میں ملازمین کو 10فیصد ایڈہاک ریلیف دیا جائے گا، دہشت گردی کے متاثرین کا معاوضہ 20لاکھ سے بڑھا کر 40لاکھ روپے کرنیکی منظوری، بلوچستان ریونیو اتھارٹی کے قیام کا فیصلہ ،پسماندگی بلوچستان کا مقدر نہیں،محدود وسائل بلوچستان کی معاشی تقری میں رکاوٹ ہیں میر خالد خان لانگو ،وفاق کے تعاون کے بغیر ان مسائل سے نجات ممکن نہیں، صوبائی حکومت اپنی ذمہ داریوں کابخوبی ادراک رکھتی ہے، عبدالمالک بلوچ کی قیادت میں مخلوط حکومت عوام سے کئے گئے وعدوں پر پورا اترنے کی ہرممکن کوشش کررہی ہے ،مشیر خزانہ بلوچستان کی بجٹ تقریر

جمعہ 20 جون 2014 07:55

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔20جون۔2014ء) مشیر خزانہ بلوچستان میر خالد خان لانگو نے خوشحال ترقی یافتہ اور معاشی طور پر مضبوط و مستحکم بلوچستان کو نصب العین قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پسماندگی بلوچستان کا مقدر نہیں محدود وسائل بلوچستان کی معاشی تقری میں رکاوٹ ہیں وفاق کے تعاون کے بغیر ان مسائل سے نجات ممکن نہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر جان محمد جمالی کی صدارت میں منعقدہ اجلاس میں مالی سال 2014-15کا بجٹ پیش کرتے ہوئے کیا مشیر خزانہ نے کہا کہ گزشتہ کئی سال سے بلوچستان کو پر آشوب اور کٹھن حالات کا سامنا ہے ایک سال قبل جب ہماری حکومت نے صوبے کی باگ دوڑ سنبھالی تو ہمیں ورثے میں انتہائی کمزور معیشت ملی بلاشبہ گزشتہ مخلوط حکومت کیلئے مشکلات اور آزمائشوں کا سال رہا لیکن ہم نے مشکلات کا نہ صرف سامنا کیا بلکہ کئی شعبوں میں ضروری اصلاحات متعارف کرانے اقتصادی ترقی کی رفتار تیز کرنے، بے جا اخراجات اورغربت کم کرنے، بے روزگاری پر قابو پانے اور تعلیم وصحت کے شعبوں میں بہتری لانے کیلئے ہرممکن کوششیں بھی کیں جس کے نتیجے میں صوبائی معیشت پچھلے مالی سال کے مقابلے میں اس سال قدر بہتر حالت میں ہے اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آج ہمیں مشکلات درپیش نہیں تاہم ہماری صوبائی حکومت اپنی ذمہ داریوں کابخوبی ادراک رکھتی ہے۔

(جاری ہے)

اور وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی قیادت میں یہ مخلوط صوبائی حکومت عوام سے کئے گئے وعدوں پر پورا اترنے کی ہرممکن کوشش کررہی ہے۔ بلوچستان ملک کے43فیصد رقبے پر محیط ہے جبکہ اس کی آبادی85لاکھ سے زائد ہے اور محل وقوع کے لحاظ سے انتہائی اہمیت کاحامل ہے مختلف جنگلی حیات کے حوالے سے یہ پاکستان کاانتہائی اہم اور منفرد علاقہ ہے دنیا میں صنوبر کے سب سے بڑے جنگلات یہاں پائے جاتے ہیں ہمیں قدرت نے1129کلومیٹر طویل ساحلی پٹی سے نوازا ہے ہمارے ساحلی علاقے معاشی لحاظ سے خاص اہمیت کے حامل ہیں یہاں کی زمین میں بے پناہ معدنی ذخائر موجود ہیں جنہیں دریافت کرنے اور استعمال میں لانے کی ضرورت ہے ہمارے پاس سونا، چاندی اور تانبے کے علاوہ قدرتی گیس ،تیل اور کوئلے کے وسیع ذخائر ہیں گیس1952ء میں سب سے پہلے بلوچستان میں دریافت ہوئی جس نے پورے ملک کی معاشی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا وسطی ایشیاء سے لے کرخلیج فارس تک پھیلے ہوئے ممالک کی وجہ سے صوبہ بلوچستان کی تجارتی سرگرمیوں اور معاشی استحکام کاسنگم ہے

پاکستان کی آئینی تاریخ میں پہلی مرتبہ اٹھارویں ترمیم کی شکل میں صوبوں کے اختیارات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا جو صوبائی خود مختاری اورحقیقی وفاقیت کی جانب ایک مثبت قدم ہے جس میں وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا کردار قابل قدر ہے آئین کے آرٹیکل172(3)کی روح سے وفاقی وحدتوں میں تیل وگیس کے ذخائر میں وفاق اورصوبے برابری کی بنیاد پر حصہ دار قرار پائے اس آئینی تبدیلی کے بعد ہماری معیشت کو نہ صرف تقویت ملے گی بلکہ یہاں بیرونی سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہوگا، جس سے بے روزگاری میں کمی واقع ہوگی موجودہ مخلوط حکومت پہلے ہی دن سے صوبے میں ترقی کے عمل کوتیز کرنے ،امن وامان کو بہتر اور سنگین جرائم پر قابو پاکر سازگار معاشی ماحول فراہم کرنے تعلیم،صحت اور فراہمی آب جیسے سماجی شعبوں میں بنیادی ڈھانچہ بہتر کرنے ،بے جا اور غیر ترقیاتی اخراجات کو کم کرکے وسائل کو ترقیاتی سرگرمیوں کیلئے استعمال میں لانے مالیاتی نظم وضبط قائم کرنے بے روزگار نوجوانوں کو ملازمت کے مواقع فراہم کرنے کرپشن اور اقرباء پروری کے سدباب صوبائی آمدن اور ذرائع روزگار کے اضافے کیلئے معدنیات کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنابجلی کے بحران پر قابو پانے کیلئے شمسی توانائی اور دیگر متبادل توانائی کے مختلف منصوبے شروع کرنے ماہی گیری سے منسلک ذرائع آمدن اور روزگار کی ترقیاقلیتوں کے بنیادی وآئینی حقوق کوتحفظ فراہم کرنے اور وسائل کو بہتر انداز میں بروئے کار لانے کیلئے کوشاں ہے کیونکہ ہم پسماندگی کو بلوچستان کا مقدر نہیں سمجھتے ہمارے محدود مالی وسائل کافی حد تک ہماری معاشی ترقی میں رکاوٹ ہیں ہم ان تمام مسائل سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے تاوقت کہ وفاقی حکومت ہمیں معقول مالی امداد فراہم نہ کرے۔

ہمارے مالی حالات میں بہتری وفاقی حکومت کی مالی معاونت سے ہی ممکن ہے

ہمارا مقصد ہے کہ ہمارے مالی حالات بڑے ترقیاتی مقاصد کو قربان کئے بغیر بہتر ہوں ہم مسلسل جدوجہد کررہے ہیں کہ کسی طرح اپنے غیرضروری اور ترقیاتی اخراجات کم کرکے اپنے ترقیاتی اخراجات بڑھانے پر توجہ مرکوز کریں موجودہ بجٹ ان مقاصد کو پیش نظر رکھ کر بنایا گیا ہے جن سے عام آدمی کے مسائل کوحل کیاجائے پسماندگی کوختم کرکے ہی دم لیں گے اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک ہم اپنے مقاصد حاصل نہیں کرلیتے ایک ترقی یافتہ، خوشحال خود انحصار اور پھلتا پھولتا بلوچستان ہمارا نصب العین ہے ہمارے اس تصور میں بلوچستان کی ترقی، یہاں کے لوگوں کی خوشحالی اور خطے کی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر یہاں اقتصادی سرگرمیوں کا فروغ ان کی ترجیحات میں ہمیشہ شامل رہا ہیں مشیر خزانہ میر خالد خان لانگو نے کہا کہ درحقیقت صوبہ بلوچستان تبدیلی کے ایک بڑے دور سے گزرہا ہے یہ وہ منظر ہے جسے دیکھنے کیلئے صدیوں سے آنکھیں ترستی رہی ہیں ۔

بلوچستان کی سرزمین پر ایک نئی صبح طلوع ہورہی ہے۔ صوبے میں شروع کئے گئے میگاپروجیکٹس اسی نئی صبح کی علامات ہیں ۔ اس صبح نو کے ہم سب گواہ ہیں جو ان تبدیلیوں کے ثمرات سے فیضیاب ہونگے ۔ ہم سب کا خواب ایک خودانحصار  ترقی یافتہ اور خوشحال بلوچستان ہے انہوں نے مالی سال 2014-15ء کیلئے 215.713 بلین روپے کا بجٹ پیش کیا پی ایس ڈی پی کیلئے 50.742 بلین روپے مختص کئے گئے ہیں جس میں بیرون تعاون کا حصہ 2.723 بلین روپے ہیں جبکہ غیر ترقیاتی بجٹ 164.97 ایک بلین ہوگا ریونیو اخراجات کا تخمینہ 135.050 فیصد ہوگا صوبے کی اپنے وسائل سے آمدن کا تخمینہ 8.970 بلین روپے ہوگا جبکہ وفاق سے حاصل ہونیوالی آمدنی میں سے قابل تقسیم پول سے 141.213 بلین براہ راست منتقلی 16.858 بلین دیگر 10.000 بلین جبکہ کیپٹل محصولات 23.279 بلین ہوگا آمدن کا کل تخمینہ 200.051 بلین ہے جبکہ بجٹ خسارہ 15.662 بلین روپے ہوگا مالی سال 2014-15ء کے بجٹ میں امن و امان کیلئے غیر ترقیاتی بجٹ میں 17251.118 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں جو موجودہ مالی سال کے مقابلے میں 200 فیصد زیادہ ہے ہائی ویز پر سفر کو پر امن بنانے کیلئے 2000.000 ملین روپے پولیس اور لیویز فورس کو دیئے جائینگے جبکہ 243.980 ملین روپے کی خطیر رقم سے جدید اور معیاری اصلاح کا بندوبست کیا جائیگا ضروری آلات کیلئے 140.085 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں بجٹ میں تعلیم کو اہمیت دی گئی ہے 5 ارب روپے سے بلوچستان انڈومنٹ فنڈ کے تحت بلوچستان ایجوکیشن انڈومنٹ کمپنی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے سکولز اور کالجز میں سہولیات کی فراہمی کیلئے 324.884 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں صحت کیلئے غیر ترقیاتی بجٹ میں 14.148بلین روپے مختص کئے گئے ہیں

جو موجودہ سال کے مقابلے 26فیصد زیادہ ہیں محکمہ توانائی کے لئے3235.775ملین روپے مختص کئے گئے ہیں موجودہ مالی سال کے مقابلے میں محکمہ توانائی کے لئے مختص رقم پچیس فیصد زیادہ ہے متبادل توانائی کو استعمال میں لانے کے لئے مختلف اسکیمیں شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ بے روزگاری پر قابو پانے کیلئے 3925نئی آسامیاں پیدا کی جائیں گی، تنخواہوں اور پنشن کی مد میں تمام ملازمین کو 10فیصد ایڈہاک ریلیف دیا جائے گاکوئٹہ:دہشت گردی کے متاثرین کا معاوضہ 20لاکھ سے بڑھا کر 40لاکھ روپے کرنے کی منظوری دی گئی ہے نئے بجٹ کے تحت بلوچستان ریونیو اتھارٹی کے قیام کا فیصلہ گیا ہے متن کے مطابق ایک جامعہ پنشن پروجیکٹ شروع کردیا گیا تاکہ پنشن کی مد میں بے قاعدگیوں پر قابو پایا جاسکے حکومتی خرچے پر بیرون ملک علاج ومعالجہ ،سیمیناروں کانفرنسوں اور ورکشاپس میں شرکت پر پابندی کے ساتھ ساتھ لگڑری گاڑیوں کی خریداری پر مکمل پابندی رہے گی حکومتی و سرکاری اخراجات پر ہوٹلز میں میٹنگ و تقریبات کے انعقاد پر پابندی عائد کرنے کے ساتھ ساتھ پبلک اکاؤ نٹس کمیٹی کی فوری تشکیل کا فیصلہ کیا گیا ہے

متعلقہ عنوان :