تحریک انصاف آپریشن کے اعلان پر اعتماد میں نہ لینے پر ناراض ،فوج کی حمایت کا اعلان، وزیر اعظم نے مذاکرات پر توجہ دی نہ ہی مذاکراتی کمیٹیوں کو اختیارات دیئے جس کے باعث مذاکرات کامیاب نہیں ہوئے، کسی بھی مسئلے کا حل مذاکرات ہیں ، اب جبکہ آپریشن شروع کردیا گیا ہے تو اس کی حمایت کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ، تحریک انصاف پاک فوج کے ساتھ کھڑی ہے،عمران خان کی میڈیا سے بات چیت

منگل 17 جون 2014 08:18

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔17جون۔2014ء) پاکستان تحریک انصاف آپریشن کے اعلان پر اعتماد میں نہ لینے پر ناراض مگر فوج کی حمایت کا اعلان کردیا جبکہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ وزیر اعظم نے مذاکرات پر توجہ نہیں دی اور نہ ہی مذاکراتی کمیٹیوں کو اختیارات دیئے جس کے باعث مذاکرات کامیاب نہیں ہوئے،مذاکرات کے نتیجے میں حکومت سے بات چیت کے حامی طالبان گروپ الگ ہوئے مگر وزیر اعظم بتائیں جو طالبان مذاکرات کرنا چاہتے ہیں ان کے ساتھ آپریشن کے دوران کیا کریں گے،کسی بھی مسئلے کا حل مذاکرات ہیں ، حکومت نے مذاکرات شروع کرنے پر تو اعتماد میں لیا مگر آپریشن کا اعلان عجلت میں کیا گیا اگر ہمیں اعتماد میں لیا جاتا تو بہتر تجویز دیتے،جبکہ آپریشن شروع کردیا گیا ہے تو اس کی حمایت کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ،طالبان کے خلاف جاری آپریشن میں تحریک انصاف پاک فوج کے ساتھ کھڑی ہیں۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کے روز پارٹی کے کور کمیٹی اجلاس کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔تحریک انصاف کی مرکزی مجلس عاملہ( کور کمیٹی) کا اجلاس پیر کو عمران خان کی رہائش گاہ پر منعقد ہوا جس میں پارٹی صد ر مخدوم جاوید ہاشمی، وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی، مرکزی سیکرٹری اطلاعات ڈاکٹر شیریں مزاری ، رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عارف علوی، اسد عمر،وزیر اعلی خیبر پختونخواہ پرویز خٹک،صدر پی ٹی آئی کے پی کے اعظم سواتی و دیگر شریک ہوئے ۔

اجلا س میں مذاکرات کے حوالے سے ون پوائنٹ ایجنڈے پر بحث ہوئی جہاں طالبان کے خلاف شروع کیے گئے آپریشن اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مجموعی صورتحال پر غور کیا گیا۔

ذرائع کے مطابق اجلاس میں کمیٹی کے زیادہ تر ممبران نے پارٹی سربراہ کو آپریشن کی حمایت کرنے کا مشورہ دیا تاہم بعض سینئر راہنماوٴں کی یہ بھی رائے تھی کہ حمایت سے پہلے حکومت کو اپنے تحفظات سے آگاہ کیا جائے اور پوچھا جائے کہ مذاکرات کے حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس سے جو مینڈیٹ دیا تھا اس کا کیا گیا اور آپریشن کا فیصلہ اتنی عجلت میں کیوں کیا گیا۔

اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ حکومت نے تحریک انصاف کو مذاکراتی عمل میں تو شامل کیا تاہم آپریشن کا فیصلہ کرتے وقت اعتماد میں نہیں لیا گیا، اگر حکومت اعتماد میں لیتی تو تحریک انصاف اس سے بہتر حل تجویز کرتی۔ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے نتیجے میں ہی اچھے اور برے طالبان میں فرق واضح ہوا ہے اور حکومت سے مذاکرات کے حامی طالبان الگ ہوئے ہیں مگر وزیر اعظم یہ بتائیں کے مذاکرات کے حامی طالبان کے ساتھ آپریشن کے دوران کیا کیا جائے گا۔

ایک سوال کے جواب میں چیرمین تحریک انصاف نے کہا کہ آپریشن کا فیصلہ اگرچہ جلد بازی میں کیا گیا مگر تحریک انصاف اس آپریشن میں فوج کے ساتھ کھڑی ہے او ر مکمل حمایت کا اعلان کرتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعظم نے طالبان پر توجہ دی ہی نہیں بلکہ خود بیرون ملک دورے پر رہے اور مذاکراتی کمیٹیوں کو اصل اختیارات دیئے ہیں نہیں جس کے باعث مذاکراتی عمل کے سو فیصد نتائج حاصل نہیں ہوسکے اور اب حکومت ہم سے حمایت مانگ رہی ہے ، تحریک انصاف سمیت سب امن کے چاہتے ہیں مگر حکومت نے اعتماد میں نہیں لیا اور جلد بازی میں آپریشن کا فیصلہ کیا ۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ وزیر اعظم قوم کو بتائیں کہ آپریشن کے دوران آئی ڈی پیز کہاں جائیں گے اور ان کا کون دھیان رکھے گا۔تاریخ بتاتی ہے کہ ایسے مسائل صرف مذاکرات کے ذریعے ہی حل ہوتے ہیں ، ماضی میں بھی آپریشن کیے گئے مگر ان کے خراب اثرات برآمد ہوئے جس کے باعث آج تک امن قائم نہیں ہوسکا۔بعد ازاں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ حکومت نے فوجی آپریشن پر اعتماد میں نہیں لیا مگر آپریشن کی حمایت کرتے ہیں تاہم جو گروپ مذاکرات چاہتے ہیں ان سے یہ عمل جاری رکھنا چاہئے،پاک فوج کے ساتھ ہیں اور آپریشن کی کامیابی کیلئے دعا گو ہیں لیکن حکومت سات لاکھ آئی ڈی پیز کے سلسلے میں اپنا موقف واضح کرے کہ ان کیلئے کیا پلان تیار کیا گیا ہے کیونکہ کے پی کے کی حکومت نے آپریشن کے حوالے سے کوئی تیاری نہیں کی ہے۔

پیر کو پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت نے شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع کرنے پر پاکستان تحریک انصاف کو اعتماد میں نہیں لیا ہے۔ آپریشن کی حمایت کرتے ہیں لیکن طالبان کے جو گروپ مذاکرات چاہتے ہیں ان کے ساتھ مذاکرات کا عمل جاری رکھنا چاہیے۔ میڈیا کے ذریعے پتہ چلا کہ آپریشن ہورہا ہے اور آئی ایس پی آر کے ترجمان آپریشن شروع کرنے کا اعلان کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو تمام سیاسی قیادت کو شمالی وزیرستان آپریشن کے معاملے پر اکٹھا کرنا چاہیے تھا اور ان کو اعتماد میں لے لیتے جس طرح ماضی میں اے پی سی اجلاس بلا کر مذاکراتی عمل کیلئے اعتماد میں لیا گیا تھا اور اب حکومت ہم سے شمالی وزیرستان آپریشن میں مدد چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم پاک فوج کے ساتھ ہیں اور آپریشن کی کامیابی کیلئے دعا گو ہیں لیکن حکومت سات لاکھ آئی ڈی پیز کے سلسلے میں اپنا موقف واضح کرے کہ ان کیلئے کیا پلان تیار کیا گیا ہے کیونکہ کے پی کے کی حکومت نے آپریشن کے حوالے سے کوئی تیاری نہیں کی ہے اور اس پر پی ٹی آئی کا اعتراض ہے کہ اتنے بڑے فیصلے پر تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیا جاتا۔

انہوں نے کہا کہ مذاکرات کی طرح آپریشن کے بھی حامی ہیں لیکن کے پی کے حکومت اس فیصلے پر بہت سے زیادہ متاثر ہوگی پوری قوم امن چاہتی ہے اور امن کیلئے دعا گو ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کے پی کے میں خود کش حملے کم ہوئے ہیں دہشت گردی سے سو ارب کا نقصا ن ہورہا تھا اب یہ پینتیس ارب سے کم ہوگیا کے پی کے کے لوگوں کے حالات بہتر ہورہے تھے۔ حکومت کو تمام فیصلے مشاورت کے ساتھ کرنے چاہئیں۔