وفاق کی سندھ حکومت کو کراچی ائیر پورٹ پر ممکنہ حملے کی مکمل اطلاع دیئے جانے کے باوجود اقدامات کیوں نہیں کئے گئے؟چوہدری نثار، موٹر سائیکل کے ذریعے ریکی کرنے کی انٹیلی جنس رپورٹ دی اور گیٹ کا بھی بتا دیا گیا تھا، سندھ حکومت قوم کو بتائے کہ کیا اقدامات کئے گئے؟ ،سید خورشیدہ شاہ کاوزیر اعظم سے میرا رابطہ نہ ہونے کا بیان جھوٹا ہے،سندھ میں غیر ملکی دہشت گرد گھومتے رہے انہیں حملے سے پہلے روکا کیوں نہیں ؟ ، پانچ کرپشن کیسز پرکارروائی کی وجہ سے مجھے ٹارگٹ کیا جارہا ہے،وزیرداخلہ کی پارلیمنٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو

جمعہ 13 جون 2014 07:45

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔13جون۔2014ء)وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ وفاق کی جانب سے سندھ حکومت کو کراچی ائیر پورٹ پر ممکنہ حملے کی مکمل اطلاع دیئے جانے کے باوجود اقدامات کیوں نہیں کئے گئے؟۔ موٹر سائیکل کے ذریعے ریکی کرنے کی انٹیلی جنس رپورٹ دی اور گیٹ کا بھی بتا دیا گیا تھا۔ سندھ حکومت قوم کو بتائے کہ کیا اقدامات کئے گئے؟ ۔

سید خورشیدہ شاہ کاوزیر اعظم سے میرا رابطہ نہ ہونے کا بیان جھوٹا ہے۔سندھ میں غیر ملکی دہشت گرد گھومتے رہے انہیں حملے سے پہلے روکا کیوں نہیں ؟ اور دعویٰ کیا ہے کہ سارا مسئلہ پانچ کرپشن کیسز پرکارروائی کی وجہ سے انہیں ٹارگٹ کیا جارہا ہے۔ ۔وہ جمعرات کو پارلیمنٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کررہے تھے۔چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ کراچی ائیر پورٹ کا واقعہ انتہائی افسوسناک ہے اور قابل مذمت ہے مگر جن کو واقعہ کو روکنے کی بنیادی ذمہ داری تھی سیاق وسباق سے ہٹ کر اور سارے واقعہ پر غیر سنجیدگی کا مظاہرہ بھی قابل مذمت ہے۔

(جاری ہے)

پانچ ماہ سے جو وفاقی حکومت کی ذمہ داری تھی وہ پوری کی گئی اور مختلف واقعات میں 6 انٹیلی جنس جنس الرٹ حکومت سندھ کو بھیجے گئے، ان الرٹس کی روشنی میں مارچ میں وزیر داخلہ نے پھر سندھ حکومت کو باقاعدہ خط لکھا کہ ائیر پورٹ کے پرانے ٹرمینل کے گیٹ پر مکمل طور پر غیر محفوظ ہیں اور یہاں سکیورٹی بڑھائی جائے۔ اس رپورٹ میں باقاعدہ ان گیٹ کا حوالہ دیا گیا تھا جو مکمل طور پر غیر محفوظ ہے اور دہشت گردوں کی نظر پر ہے ۔

حکومت سندھ کی طرف سے سکیورٹی بڑھانے کا کوئی اقدام نہیں کیا گیا اور یہ بدقسمتی ہے کہ پانچ دہشت گرد اس ڈی ایچ ایل گیٹ سے داخل ہوئے جس کی رپورٹ میں نشاندہی کی گئی تھی ۔بات یہیں ختم نہیں ہوتی ۔وفاقی حکومت نے انٹیلی جنس ایجنسی کی رپورٹ کی روشنی میں ایک وقت پر اطلاع بھی فراہم کی کہ اطلاعات کے مطابق دہشت گرد ایک موٹر سائیکل پر سوار ہو کر ان راستوں کی ریکی اور فوٹر گرافی بھی کر چکے ہیں یہ سب رپورٹس ریکارڈ پر ہیں اور پبلک کی جا سکتی ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ یہ اطلاعات مجبور ہو کر بیان کررہا ہوں ۔تین دنوں سے سندھ حکومت کے وزراء اپنی کوتاہی پر شرمندہ ہونے کی بجائے بے بنیاد اور لغو بیانات کا سہارا لیکر اپنی ذمہ داری سے فرار حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔کبھی خبر دیتے ہیں کہ وزیر داخلہ نے وزیر اعظم کا ٹیلی فون نہیں سنا ۔حقیقت یہ ہے کہ ہم ساری رات سندھ حکومت کے متعلقہ افسران کو تلاش کرتے رہے کہ کاش یہ بیان کر سکتے کہ ان کا کیا کہنا تھا ۔

کبھی کہا جاتا ہے کہ ائیر پورٹ وفاقی حکومت کے زیر کنٹرول ہے اور کبھی بے بنیاد باتیں کر کے عوام میں کنفیوژن پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔پوچھنا چاہتا ہوں کہ یہ ائیر پورٹ خدانخواستہ بھارت میں تھا کہ سندھ حکومت کی کوئی ذمہ داری نہیں تھی ۔وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ کیا دہشت گرد پیراشوٹ او ہیلی کاپٹر سے ائیر پورٹ کی حدود میں داخل ہوئے۔

حقیقت یہ ہے کہ دس غیر ملکی بھاری ہتھیاروں سے مسلح دہشت گرد کراچی کی سڑکوں پر دس اور گیارہ بجے کے درمیان ایک گھنٹہ سے زائد دیر گھومتے رہے کسی نے انہیں کیوں چیک نہیں کیا ۔حتی کہ ائیر پورٹ ٹرمینل کی انٹری پر بھی اسکو نہیں روکا گیا جہاں ہمیشہ پولیس کا ناکہ ہوتا ہے ۔امن وامان کا معاملہ صوبائی دائرہ کار میں ہوتا ہے اور18ویں ترمیم کے بعد تو اسے مکمل طور پر صوبوں کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

صوبائی حکومت نے اپنے من پسند آئی جی اور چیف سیکرٹری تعینات کرائے اور جو افسران کراچی میں امن قائم رکھنے کے لئے ذمہ داریاں ادا کررہے تھے انہیں وفاقی حکومت کی درخواست کے باوجود عہدوں سے ہٹا دیا گیا ۔کراچی واقعہ پر ہر روز منفی بیان دینے والے قوم کو بتائیں کہ وفاقی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی پانچ ماہ کی الرٹ رپورٹس پر کیا اقدامات کئے گئے ۔

دہشت گردوں کو میلوں دور سے کراچی کے حساس ترین علاقے سے گزرنا اور ٹارگٹ تک پہنچنے تک کیوں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی گئی ۔کسی بھی انٹیلی جنس الرٹ پر کوئی کارروائی نہ کی گئی ۔حد تو یہ ہے کہ جب کراچی گیا تو وزیر اعلی اور آئی جی کو میٹنگ کی اطلاع دی گئی ۔واقعہ ائیر پورٹ پر ہوا تو میٹنگ کسی اور جگہ رکھنے کی کیا ضرورت تھی ۔میٹنگ میں گورنر اور فوج کے اعلی افسران سے لیکر رینجرز ،سول ایوی ایشن کے حکام شریک ہوئے جنہوں نے ساری صور ت حال پر بریفنگ دی ۔

افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ وہاں جانے پر میڈیا کے ذریعے اطلاع ملی کہ سات افراد پھنس گئے ہیں میں نے گودام کی دیوارتوڑ کر ریسکیو کا عمل فوری طور پر شروع کرنے کے احکامات دیئے ۔ریسکیو کا کام کرانا سندھ کے وزیراعلی کا کام تھا ۔

وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ جھوٹ بولتے ہیں کہ وزیر اعظم سے میرا رابطہ نہیں ہوا تھا ۔

انہوں نے کہا کہ صورت حال بہت حساس ہے ۔ضرورت اس امرکی ہے کہ وفاق اور صوبہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرے ۔الزام تراشی قابل مذمت ہے اگر ہر صوبہ کہہ دے کہ اس کی حدود میں جو ائیر پورٹ اور وفاقی حکومت کی تنصیبات صوبوں کی ذمہ داری نہیں تو یہ گھمبیر بن جائیگا ۔ انہوں نے کہا کہ سارا مسئلہ پانچ کرپشن کیسز ہیں جن کی وجہ سے انہیں ٹارگٹ کیا جارہا ہے۔