سینٹ میں کراچی کے واقعہ پر ارکان کاشدید ردعمل،وزیرداخلہ اور مشیر ہوابازی سے استعفیٰ کا مطالبہ کر دیا، دہشت گرد جب چاہتے ہیں کارروائی کردیتے ہیں،سکیورٹی اداروں کے سربراہ کہاں ہیں؟ حاجی عدیل،جب تک اداروں کا احتساب نہیں ہوگا کام ٹھیک نہیں ہوگا ، رضاربانی، آپریشن صرف خیبر پختونخواہ نہیں جھنگ اور جنوبی پنجاب میں بھی کیا جائے، رحمان ملک

منگل 10 جون 2014 07:26

اسلام آ باد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔10جون۔2014ء)سینٹ میں کراچی کے واقعہ پر ارکان نے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے وزیرداخلہ اور مشیر ہوابازی سے استعفیٰ کا مطالبہ کر دیا، حاجی عدیل نے کہا کہ دہشت گرد جب چاہتے ہیں جہاں چاہتے ہیں کارروائی کردیتے ہیں ۔سکیورٹی اداروں کے سربراہ کہاں ہیں؟ میاں رضاربانی نے کہا کہ حکومت کی نیشنل سکیورٹی پالیسی ناکام ہوگئی ہے نیکٹا ابھی تک نہیں بنا جب تک اداروں کا احتساب نہیں ہوگا کام ٹھیک نہیں ہوگا ۔

اے رحمان ملک نے کہا کہ افغانستان انٹیلی جنس طالبان کو ٹریننگ دے رہی ہے آج بھارتی اسلحہ بھی سامنے آگیا ۔حکومت آپریشن کرے، آپریشن صرف خیبر پختونخواہ میں نہیں جھنگ اور جنوبی پنجاب میں بھی کیا جائے۔پیر کے روز سینٹ کے اجلاس میں نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے حاجی عدیل نے کہا کہ کراچی واقعہ نیا نہیں ہے اس سے پہلے مہران بیس ، پشاور ائرپورٹ ، جی ایچ کیو ، کامرہ میں بھی اس قسم کے حملے ہوچکے ہیں ، دہشت گرد جب چاہتے ہیں جہاں چاہتے ہیں کارروائی کردیتے ہیں ۔

(جاری ہے)

سکیورٹی اداروں کے سربراہ کہاں ہیں؟ جن کے بجٹ میں ہر سال دس سے بیس فیصد اضافہ کیا جاتا ہے اور وہ اپنے آپ کو محفوظ نہیں کرسکتے ۔ انہوں نے کہا کہ عقیدے اور فقہ کی بنیاد پر پاکستان کے لوگ اپنے ہی لوگوں کو مار رہے ہیں ایسی صورتحال میں کشمیری کیسے پاکستان کے حق میں ووٹ دیں ۔ ہماری حفاظت کرنے والے جب اپنی حفاظت نہیں کرسکتے تو ہماری حفاظت کیسے کرینگے پھر ہمیں اجازت دیں کہ ہم اپنے ساتھ ہتھیار لے کر آئیں اس حکومت نے پہلا کام یہ کیا کہ اراکین پارلیمنٹ سے سکیورٹی واپس لی اپوزیشن سے سکیورٹی واپس لے کر حکومت اپنے لوگوں کو سکیورٹی دے رہی ہے ۔

ان واقعات کے بعد بڑی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے ملک کو براہ راست کنٹرول کرنے والوں پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہیں ۔ سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ صرف کراچی کا واقعہ ہی ہوتا تو پھر کچھ کہا جاتا ایوان بالا کا اجلاس جاری ہے، کراچی ، تفتان اور شمالی وزیرستان میں واقعات ہوئے پچھلے چار دنوں میں بلوچستان میں آپریشن جاری ہے جہاں درجنوں لوگ مارے گئے ہیں مگر حکومتی بینچوں پر ایک وزیر بھی ایوان میں نہیں آیا وفاق جل رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیر داخلہ نے سینٹ کا بائیکاٹ کررکھا ہے وزارت داخلہ کا کراچی واقعہ پر ایک بیان بھی نہیں آیا وزیراعظم کی ہدایت پر وزیر داخلہ کراچی گئے اگر یہی صورتحال ہے تو پھر ایسے واقعات ہونے ہی ہیں ایسے لگتا ہے کہ وزیر داخلہ اپنے لوگوں کا بائیکاٹ کرکے بیٹھ گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو اسلحہ ملا ہے وہ کس گاڑی کے ذریعے اتنا اسلحہ ایئرپورٹ کے اندر نہیں جاسکتا وہ کسی اور ذریعے سے گئی ہوگی اس وقت سکیورٹی ادارے کہاں ہیں ۔

حکومت کی نیشنل سکیورٹی پالیسی ناکام ہوگئی ہے نیکٹا ابھی تک نہیں بنا جب تک اداروں کا احتساب نہیں ہوگا کام ٹھیک نہیں ہوگا ۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے ایوی ایشن کراچی واقعہ کے بعد اپنا استعفیٰ دیں اس واقعہ کے بعد کوئی حق نہیں کہ وہ یہ عہدہ رکھیں کراچی ائرپورٹ پر حملے کے شدید اثرات ہونگے ۔ انہوں نے کہا کہ تفتان میں دو ہوٹلوں میں حملہ آور گھس کر فرار ہوجاتے ہیں اور وزارت داخلہ ایسے ظاہر کرتی ہے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں بلوچستان میں آپریشن ہورہاہے ایوان کو بلوچستان آپریشن پر اعتماد میں لیا جائے وزیرستان میں بھی حملہ ہوا ہے ملک میں ہونے والے واقعات کی وزیر داخلہ ذمہ داری قبول کریں اور استعفیٰ دیں ۔

سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ اس ایوان میں چھ ماہ پہلے بہت کچھ تھا آج وہ وقت ہے کہ اپوزیشن کو حکومت پر تنقید کرنے کی بجائے یکجا ہوکر حکومت کا ساتھ دیں اگر اسی طرح آنکھیں بند رکھی تو پھر اس سے بڑا واقعہ ہوگا ۔ بھارت نے پاکستان بننے کے بعد آج تک پاکستان کو تسلیم نہیں کیا انہوں نے کہا کہ ایران سے 23راکٹ داغے گئے ہیں اس کی وجہ تو ہوگی کراچی حملے میں بھارتی اسلحہ نکلتا ہے جب دہشت گرد کراچی آئے تو اس وقت ادارے سوئے ہوئے تھے؟ ۔

کراچی میں سب کو اپنی کمزوری کا علم تھا اور کراچی حملے کا علم ہونے کے باوجود اس کا تحفظ کیوں نہیں کیا گیا واقعہ کی تحقیقات ہونی چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ شاہد اللہ شاہد کا شناختی کارڈ ایوان میں پیش کرنے کا کہا تھا اب چھپ کر رہنے کا وقت نہیں ہے ، شاہد اللہ شاہد کہتا تھا کہ مذاکرات کامیاب ہونگے ہم نے کہا تھا کہ یہ بدنیت ہے افغانستان انٹیلی جنس طالبان کو ٹریننگ دے رہی ہے آج بھارتی اسلحہ بھی سامنے آگیا ۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ ہمارا اتحادی ہے وہ کہتا ہے سارا اسلحہ اور دہشت گردی افغانستان کے راستے سے آرہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مشترکہ اجلاس میں اپوزیشن کی طرف سے دی جانے والی پالیسی عملدرآمد کرکے ان حملوں کو روکا جاسکتا ہے ، حکومت آپریشن کرے اس سے پہلے کہ بہت تاخیر ہوجائے اس کینسر کو پاکستان سے نکالنا ہوگا آپریشن صرف خیبر پختونخواہ میں نہیں جھنگ اور جنوبی پنجاب میں بھی کیا جائے۔

وزیر داخلہ اور وزیراعظم ہمیں ان کیمرہ اجلاس میں بریفنگ دیں ۔ سینیٹر رؤف لالہ نے کہا کہ ایک دوسرے پر تنقید نہ کی جائے دیکھا جائے طالبان کون لائے تھے کل بلوچستان میں واقعہ ہوا ہے اس صورتحال میں آس پاس کے ملکوں کی بات ہورہی ہے شعیہ ازم اور دیگر فرقوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، سکیورٹی پالیسی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے بحیثیت پارلیمانی لیڈر میں ایوان کو مشورہ دیتا ہوں کہ خارجہ پالیسی اور داخلہ پالیسی تبدیل کی جائے ۔ انہوں نے کہا کہ جب امن ہوگا تو بجٹ پر بحث ہوسکتی ہے میڈیا پر جو فوٹیج دکھائی جارہی تھی اس سے پتہ چلتا ہے کہ بارود اور اسلحہ اتنا زیادہ تھا کہ وہ دس بندے نہیں لاسکتے تھے اس کی تحقیقات ہونی چاہیے ۔