وفاقی حکومت کی جانب سے صوبے کیلئے رکھے گئے فنڈ اور جاری ترقیاتی منصوبوں کو مانیٹر کرنے کیلئے متحدہ اپوزیشن الائنس کا قیام، تحریک انصاف، جے یوآئی ف ،اے این پی اور دیگر جماعتیں شامل ، اگر پاک چین اقتصادی راہداری کا روٹ ژوب اور کوئٹہ سے گوادر جائے تو سفر میں ہزار کلومیٹر کا فرق پڑ جاتا ہے۔ سیاست سے بالاتر ہوکر صوبہ خیبرپختونخواہ میں سولہ لاکھ ایکڑ زمین کو قابل کاشت بنایا جاسکتا ہے،مولانا فضل الرحما ن،فاٹا اور قبائلی علاقوں میں میڈیکل کالج‘ یونیورسٹیاں اور روزگار دینے کی ضرورت ہے تو دہشت گردی خود بخود ختم ہوجائے گی،حاجی عدیل، نیشنل پریس کلب میں اپوزیشن رہنماؤں کی میڈیا سے بات چیت

منگل 10 جون 2014 07:25

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔10جون۔2014ئب) جمعیت علمائے اسلام (ف) اور اپوزیشن جماعتوں نے مالی سال بجٹ 2014-15 ء میں وفاقی حکومت کی جانب سے صوبے کیلئے رکھے گئے فنڈ اور جاری ترقیاتی منصوبوں کو مانیٹر کرنے کیلئے متحدہ اپوزیشن الائنس بنا دیاہے اور جے یوآئی کے سربراہ مولانا فضل الرحما ن نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے منشور میں شامل ہے کہ ترقی پذیر ممالک کو معیشت میں جکڑنا ہے۔

اگر پاک چین اقتصادی راہداری کا روٹ ژوب اور کوئٹہ سے گوادر جائے تو سفر میں ہزار کلومیٹر کا فرق پڑ جاتا ہے۔ سیاست سے بالاتر ہوکر صوبہ خیبرپختونخواہ میں سولہ لاکھ ایکڑ زمین کو قابل کاشت بنایا جاسکتا ہے جبکہ اے این پی کے حاجی عدیل نے کہا ہے کہ ستم ظریفی یہ ہے کہ پارلیمنٹ قبائلی علاقے کے بارے میں قانون سازی نہیں کر سکتی اور آئین میں موجود شقوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

(جاری ہے)

فاٹا اور قبائلی علاقوں میں میڈیکل کالج‘ یونیورسٹیاں اور روزگار دینے کی ضرورت ہے تو دہشت گردی خود بخود ختم ہوجائے گی۔وہ پیر کو یہاں نیشنل پریس کلب میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔اس موقع پر پاکستان تحریک انصاف ‘ جمعیت علمائے اسلام ف ‘ عوامی نیشنل پارٹی ‘ قومی وطن پارٹی‘ فاٹا ‘ قبائلوں علاقوں سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی پر مشتمل ورکنگ گروپ بننے کا اعلان کیاگیا جس کی سربراہی مولانا افضل الرحمن کریں گے ۔

اس موقع پر جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہمارے ہاں معیشت غلام ہے ‘ آئی ایم ایف ‘ ورلڈ بینک‘ ایشیائی ترقیاتی بینک نے پاکستان کی معیشت کو جکڑ رکھا ہے۔ اب سوچنا یہ ہے کہ ملک کے وسائل استعمال کرکے ملک کو ترقی کی طرف کس طرح گامزن کرنا ہے۔ آئی ایم ایف کے منشور میں شامل ہے کہ ترقی پذیر ممالک کو معیشت میں جکڑنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے روٹس کو تبدیل کیا گیا۔ کیا پسماندہ علاقے کو پسماندہ رکھنے کا فیصلہ کیا گیاہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر پاک چین اقتصادی راہداری موٹر وے کا روٹ ژوب اور کوئٹہ سے گوادر جائے تو سفر میں ہزار کلومیٹر کا فرق پڑ جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاست سے بالاتر ہوکر صوبہ خیبرپختونخواہ میں سولہ لاکھ ایکڑ زمین کو قابل کاشت بنایا جاسکتا ہے اس کیلئے صوبہ بھر کی تمام سیاسی جماعتوں کو مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا۔

ہم چاہتے ہیں کہ پنجاب بلوچستان ‘ سندھ بھی خوشحال ہو ہماری کسی بھی صوبے کی خوشحالی پر کوئی اعتراض نہیں۔ انہوں نے کہا کہ کچھ منصوبے جاری ہیں اور کچھ پر کام کیا جارہا ہے جو عوام میں زیر بحث ہیں۔ پارلیمنٹ میں موجود صوبے کی تمام سیاسی جماعتوں کو صوبے کے مسئلے کے حل کیلئے حکومت پر دباؤ ڈالنا ہوگا۔ انہوں نے کہا ہے کہ مشترکہ حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے یہ تب ممکن ہوگا کہ ہم آپس میں متحد ہوں گے۔

حکومت کو تجویز دی تھی کہ دیہاتی علاقوں میں گیس کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے لیکن بیورو کریسی نے بتایا ہے کہ اس پر بیاسی ارب روپے کی لاگت آئے گی اگر یہ بیورو کریسی وزیراعظم کو مرحلہ وار بریفنگ دیتی تو اب تک یہ کام ہوگیا ہوتا۔ اس موقع پر عوامی نیشنل پارٹی کے حاجی عدیل نے کہا کہ سینیٹ کی جانب سے اسمبلی کو بجٹ 48 تجاویز دی گئیں اب یہ اسمبلی پر منحصر ہے کہ وہ ان تجاویز کو بجٹ میں شامل کرتی ہے کہ نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ستم ظریفی یہ ہے کہ پارلیمنٹ قبائلی علاقے کے بارے میں قانون سازی نہیں کر سکتی اور آئین میں موجود شقوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ فاٹا اور قبائلی علاقوں میں میڈیکل کالج‘ یونیورسٹیاں اور روزگار دینے کی ضرورت ہے تو دہشت گردی خود بخود ختم ہوجائے گی۔انہوں نے کہا کہ بجٹ میں 57 ارب روپے کی کمی کا سامنا ہے۔سندھ صوبہ متعصب ہے اگر آج انہیں معلوم ہو کہ بھاشا ڈیم سندھ کیلئے سود مند نہیں تو وہ اس کی بھی مخالفت کرنا شروع کردیں گے۔

حکومت پاک چین اقتصادی راہداری کے روٹس کے حوالے سے بتائے۔ انہوں نے کہا کہ یہ صوبہ خیبرپختونخواہ سے پانی جاتا ہے جس سے صوبے 47 ارب روپے آبیانہ وصول کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم سینیٹرز کے فنڈز جاری کریں۔ جماعت اسلامی کے رکن اسمبلی شیر اکبر خان نے کہا کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں صوبہ خیبرپختونخواہ اور فاٹا کی نمائندگی نہیں ہے عوامی مسلم لیگ کا ایک رکن شیخ رشید جو اس کا ممبر ہے۔

قبائلی علاقے پاکستان کی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں علاقے میں سکول کالج بنانے کی ضرورت ہے۔ سابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ امیر حیدر ہوتی ‘ سابق وزیراعلیٰ اکرم درانی‘ شاہ جی گل آفریدی ‘ سینیٹر زاہد خان‘ تحریک انصاف کے شہریار آفریدی ‘ قومی وطن پارٹی کی انیسہ زیب طاہر خیلی‘ مسلم لیگ ن کے نثار محمد خان‘ پی ٹی آئی کے گلزار خان‘ جمعیت علمائے اسلام کے سینیٹر حاجی غلام علی نے بھی شرکت کی۔