عبدالرشید غازی قتل کیس،وفاقی پولیس نے مقدمے کا مکمل چالان تیار کرلیا،مشرف بے گناہ قرار،لال مسجد آپریشن میں مشرف کیخلافٹھوس شواہد سامنے نہیں آئے،ملزم کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑتے ہیں،مکمل چالان کے مندرجات،ذاتی اختلاف کی وجہ سے چوہدری نثار نے کیس کی انکوائری پر شکایات کا نوٹس نہ لیا،شہداء فاؤنڈیشن

منگل 10 جون 2014 07:22

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔10جون۔2014ء) لال مسجد کے نائب خطیب علامہ عبدالرشید غازی شہید اور ان کی والدہ صاحب خاتون شہید کے قتل کے مقدمے میں چالان کو اسلام آباد پولیس نے مکمل کرلیا ہے۔ اسلام آباد پولیس نے ملزم پرویزمشرف کے خلاف علامہ عبدالرشید غازی قتل کیس کا مکمل چلان پراسیکیوشن برانچ کو بھیج دیا ہے۔باوثوق ذرائع کے مطابق پراسیکیوشن برانچ نے علامہ عبدالرشید غازی قتل کیس کا مکمل چالان ایڈیشنل اینڈ سیشن جج واجد علی خان کی عدالت میں جمع کرادیا ہے۔

شہداء فاؤنڈیشن کے جاری کردہ بیان کے مطابق مکمل چالان علامہ عبدالرشید غازی قتل کیس کے تفتیشی افسر و ایس ایچ او تھانہ کورال افتخار چٹھہ نے تیار کیا ہے۔یاد رہے کہ افتخار چٹھہ کروڑوں روپے مالیت کے سونا چوری کرنے کے الزام میں گرفتار ہے۔

(جاری ہے)

افتخار چٹھہ نے سونا چوری کے کیس میں گرفتاری سے ایک روز قبل پرویزمشرف کے خلاف مقدمے کا مکمل چالان تیار کیا تھا۔

بعدازاں ڈی آئی جی اسلام آباد خالد خٹک کی سربراہی میں قائم پولیس کی اعلیٰ سطحی مشترکہ تفتیشی ٹیم نے بھی افتخار چٹھہ کی طرف سے تیار کردہ مکمل چالان کی توثیق کردی ہے۔

اسلام آباد پولیس کے اعلیٰ آفیسرز نے علامہ عبدالرشید غازی قتل کیس میں پرویزمشرف کے خلاف تمام شواہد و ثبوت کو نظر انداز کرتے ہوئے پرویزمشرف کو مکمل چالان میں بھی خانہ نمبر دو میں برقرار رکھا ہے۔

علامہ عبدالرشید غازی قتل کیس کے مکمل چالان میں اسلام آباد پولیس نے مدعی مقدمہ صاحبزادہ ہارون الرشید غازی اور دیگر کی طرف سے پرویزمشرف کے خلاف پیش کئے گئے تمام شواہد کو نظر انداز کرتے ہوئے پرویزمشرف کو مقدمے سے بری کرنے کی کوشش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ”لال مسجد آپریشن میں پرویزمشرف کے ملوث ہونے کے کوئی ٹھوس شواہد سامنے نہیں آئے،لہٰذا پولیس ملزم پرویزمشرف کو خانہ نمبر دو میں چالان کرتے ہوئے عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑتی ہے،عدالت ملزم پرویزمشرف کے مستقبل کا فیصلہ کرے“۔

باوثوق ذرائع کے مطابق علامہ عبدالرشید غازی قتل کیس میں پرویزمشرف کو بری کرنے کا فیصلہ اعلیٰ سطح پر بہت پہلے کیا جاچکا تھا۔یہی وجہ ہے کہ وفاقی وزارت داخلہ نے شہداء فاؤنڈیشن اور ہارون الرشید غازی کی طرف سے پرویزمشرف کے خلاف علامہ عبدالرشید غازی قتل کیس میں وفاقی پولیس کی ناقص انکوائری کی کئی دفعہ شکایات کے باوجود بھی کوئی نوٹس نہیں لیا۔

علامہ عبدالرشید غازی قتل کیس میں پرویزمشرف کو پولیس کی طرف سے بے گناہ قرار دینے کی مختلف وجوہات شہداء فاؤنڈیشن کو بتائی گئی ہیں۔ ذرائع کے مطابق پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت علامہ عبدالرشید غازی قتل کیس کی انکوائری کے لئے ڈی آئی جی ہیڈ کواٹرز خالد خٹک کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی تفتیشی ٹیم مکمل طور پر غیرمئوثر رہی۔ڈی آئی جی خالد خٹک کی سربراہی میں قائم پولیس کی مشترکہ تفتیشی ٹیم نے کسی بھی سطح پر علامہ عبدالرشید غازی قتل کیس کی انکوائری میں حصہ نہیں لیا۔

البتہ ڈی آئی جی اسلام آباد خالد خٹک کی سربراہی میں قائم وفاقی پولیس کی پانچ رکنی مشترکہ تفتیشی ٹیم نے ملزم پرویزمشرف سے چک شہزاد فارم ہاؤس میں دو دفعہ ملاقات کی تھی۔پرویزمشرف سے ملاقات کے بعد ڈی آئی جی خالد خٹک کی سربراہی میں قائم پولیس کی مشترکہ تفتیشی ٹیم نے پرویزمشرف کو بچانے کی کوشش شروع کردی تھی اور کئی مواقعوں پر انکوائری کے دوران تفتیشی ٹیم کے بعض ارکان نے کھل کر پرویزمشرف کو بے گناہ قرار دینا شروع کردیا تھا۔

دوسری طرف علامہ عبدالرشید غازی قتل کیس کی برائے نام انکوائری کی ذمہ داری وفاقی پولیس کے سینئرآفیسرز نے ایک کرپٹ ترین انسپکٹر افتخار چٹھہ کے سپرد کررکھی تھی۔افتخار چٹھہ 28مئی کو چھ کروڑ ستاسی لاکھ روپے مالیت کے سونا چوری کرنے کے الزام میں گرفتار ہوچکا ہے۔افتخار چٹھہ اور اس کے دیگر شریک جرم دو سپاہیوں سے سی آئی ڈی پولیس نے سات کلو سونا برآمد بھی کرلیا ہے۔

علامہ عبدالرشید غازی قتل کیس کی برائے نام انکوائری کرنے والے انسپکٹر افتخار چٹھہ تاحال سی آئی ڈی پولیس کی حراست میں ہیں۔ایک ایسا انسپکٹر جو چوری میں ملوث پایا گیا ہے وہ پرویزمشرف کے خلاف انکوائری کرتا رہا اور ڈی آئی جی اسلام آباد خالد خٹک کی سربراہی میں پولیس کی پانچ رکنی مشترکہ تفتیشی ٹیم ہر پندرہ دن بعد ایک اجلاس بلاکر افتخار چٹھہ کی انکوائری کی توثیق کرتے رہے۔

شہداء فاؤنڈیشن نے الزام عائد کیا ہے کہ افتخار چٹھہ نے یقیناََ دوران تفتیش پرویزمشرف اور اسکے دیگر ذرائع سے بھاری مالی فوائد حاصل کئے ہوں گے۔علامہ عبدالرشید غازی قتل کیس کے مکمل چالان میں پرویزمشرف کو پولیس کی طرف سے بے گناہ قرار دینے کے متعلق باوثوق ذرائع نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز سے اختلافات ہیں۔

مولانا عبدالعزیز اور چوہدری نثار علی خان کے مابین شدید اختلافات بھی پرویزمشرف کو مقدمے سے بری کرنے کی اہم وجہ ہے۔ اسی اختلاف کی وجہ سے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے علامہ عبدالرشید غازی قتل کیس کی پولیس انکوائری کے حوالے سے شہداء فاؤنڈیشن اور ہارون الرشید غازی کی طرف سے کی جانے والی شکایات کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔

مولانا عبدالعزیز سے مسلم لیگ نواز بالخصوص وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے اختلافات اس وقت شروع ہوئے تھے جب عام انتخابات سے قبل مولانا عبدالعزیز نے مختلف قومی اخبارات میں مسلم لیگ نواز کی الیکشن میں حمایت نہ کرنے کے حوالے سے اپنا ایک بیان اشتہار کے طور پر شائع کرایا تھا۔

مولانا عبدالعزیز سے وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کے اختلافات اس وقت شدت اختیار کرگئے جب گزشتہ سال چوہدری نثار علی خان نے وفاقی وزیر داخلہ کا چارج سنبھالنے کے فوراََ بعد آئی جی اسلام آباد کو حکم دیا کہ وہ لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز سے پولیس کی سیکیورٹی واپس لے لیں۔وزیر داخلہ کے حکم کے بعد اس وقت کے آئی جی سکندر حیات نے مولانا عبدالعزیز کی سیکیورٹی پر معمور پولیس اہلکار واپس لے لئے تھے۔

مولانا عبدالعزیز سے چوہدری نثار علی خان کے حکم پر سیکیورٹی واپس لینے کے کچھ ہی روز بعد اس وقت کے ایس ایس پی آپریشنل ڈاکٹر رضوان نے مولانا عبدالعزیز کی اہلیہ ام حسان کو اغوا کرنے کا مبینہ منصوبہ تیار کیا۔اس مقصد کے لئے ڈاکٹر رضوان نے مولانا عبدالعزیز کے قریبی رفیق قاری ادریس کو بہانے سے راوالپنڈی سے اسلام آباد بلایا اور بعدازاں قاری ادریس کو شکر پڑیاں کے قریب سے ڈاکٹر رضوان اغواء کرکے کسی نامعلوم مقام پر لے گئے اور قاری ادریس کو تقریباََ پانچ گھنٹے تک ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان نے مبحوس رکھا۔

اس دوران ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان قاری ادریس پر شدید دباؤ ڈالتے رہے کہ وہ مولانا عبدالعزیز کی اہلیہ ام حسان کو کسی جگہ بلائیں تاکہ ہم انہیں اپنی تحویل میں لے لیں۔

قاری ادریس نے ڈاکٹر رضوان کی بات ماننے سے انکار کردیا۔مجبوراََ پانچ گھنٹے بعد ڈاکٹر رضوان نے قاری ادریس کو چھوڑ دیا۔اس واقعہ کے بعد مولانا عبدالعزیز کی اہلیہ ام حسان نے اس وقت کے آئی جی سکندر حیات کو تحریری درخواست دیتے ہوئے تمام صورتحال سے آگاہ کیا۔

ام حسان نے آئی جی سکندر حیات کو تحریری درخواست میں یہ بھی لکھا تھا کہ اگر مجھے یا مولانا عبدالعزیز کو کچھ ہوا تو اس کی ذمہ داری وزیراعظم نواز شریف،وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان اور ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان پر عائد ہوگی۔ام حسان کی درخواست پر آئی جی اسلام آباد سکندر حیات نے واقعہ کی انکوائری کے لئے ایس پی سٹی اسلام آباد کی سربراہی میں انکوائری ٹیم بھی تشکیل دی تھی لیکن اس انکوائری میں ہونے والی پیش رفت سے آج تک ام حسان کو ااگاہ نہیں کیا گیا۔

باوثوق ذرائع کے مطابق مولانا عبدالعزیز سے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی ذاتی رنجش بھی پرویزمشرف کو علامہ عبدالرشید غازی قتل کیس میں پولیس کی طرف سے بری کرنے کی وجہ بنی ہے۔علامہ عبدالرشید غازی قتل کیس کا مکمل چالان 12جون کو ایڈیشنل اینڈ سیشن جج واجد علی خان کی عدالت میں مقدمے کی سماعت کے موقع پر پیش کیا جائے گا۔