انسانوں کی آبادی میں اضافہ روکنے کی تمام تر کوششیں ناکام،جانوروں نے ”فیملی پلاننگ پالیسی “ اپنا لی،جاری مالی سال میں انسانوں کی شرح افزائش 19.5فیصد رہی جو جنوبی ایشیاء میں بلند ترین سطح ہے،اقتصادی سروے، گدھے ، گھوڑے ، خچر ، اونٹ اپنی آبادی کنٹرول کرکے مثال بن گئے،تعداد میں کوئی اضافہ نہیں ہوا، مرغیوں نے ”انسانی رویہ “رکھا، کئی کروڑ بڑھ گئیں،رپورٹ

اتوار 8 جون 2014 07:50

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔8جون۔2014ء) ملک میں انسانی آبادی میں اضافے کی رفتار میں کمی کیلئے حکومتیں کوششیں ناکام ہورہی ہیں تاہم دوسری جانب منافع بخش جانوروں گدھے ، گھوڑے ، خچر ، اونٹ اپنی آبادی کنٹرول کرکے مثال بن گئے ہیں تاہم گوشت کیلئے استعمال ہونے والے جانوروں کی تعداد میں معمولی اضافہ ہوا ہے صرف مرغیوں کی تعداد میں اضافہ کی شرح انسانی آبادی کے قریب قریب ہے ۔

اقتصادی سروے 2013-14ء کے مطابق پاکستان میں اس وقت انسانی آبادی میں اضافے کی رفتار 19.5فیصد سالانہ ہے جو جنوبی ایشیا میں بلند ترین شرح ہے ۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں طویل عرصے سے انسانی آبادی میں بے تحاشا اضافے پر قابو پانے کیلئے بہبود آبادی جیسے پروگراموں پر اربوں روپے خرچ کررہی ہیں جو بے سود جارہے ہیں

تاہم اقتصادی سروے میں لائیو سٹاک کے حوالے سے انکشاف کیا گیا ہے کہ خچروں کی تعداد میں 9 سالوں سے کوئی اضافہ نہیں ہوا اور وہ 2 لاکھ کی تعداد پر رک گئے ہیں گھوڑوں کی نسل بھی گزشتہ 6 سالوں سے 49 لاکھ سے آگے نہیں بڑھ سکی ۔

(جاری ہے)

سات سالوں سے اونٹوں کی تعداد بھی 10 لاکھ سے تجاوز نہیں کرسکی ۔ حیران کن طور پر گدھوں کی تعداد میں بھی کوئی اضافہ نہیں ہوا اور دو سال سے ان کی تعداد بھی 49 لاکھ برقرار ہے ۔ جن جانوروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اسے بھی غیر معمولی اضافہ قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ ایک سال کے دوران بھیڑوں کی تعداد دو کروڑ اٹھاسی لاکھ سے بڑھ کر دو کروڑ 91 لاکھ ہوگئی ہے بکریوں کی تعداد چھ کروڑ 49 لاکھ سے بڑھ کر 6 کروڑ 66 لاکھ ہوگئی ہے ۔

سروے کے مطابق ملک میں گائے اور بیل کی مجموعی تعداد تین کروڑ ستانوے لاکھ ہوگئی ہے ، بھینسوں کی تعداد 3کروڑ 37لاکھ سے بڑھ کر 3کروڑ 46لاکھ ہوگئی ہے ۔ انسانی آبادی کی رفتاری سے صرف مرغیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جو 78کروڑ 50لاکھ سے بڑھ کر 85کروڑ 50لاکھ ہوگئی ہے ۔ اقتصادی سروے کے مطابق ان جانوروں کی تعدادمیں گزشتہ سال میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا تھا اور یہی صورتحال رواں سال بھی برقرار ہے۔