پاکستانی، افغانی عسکریت پسندوں کی جانب سے مہلک ہتھیار بنانے کا انکشاف ، مواد دبئی، ملائیشیا دیگر ممالک سے منگوایا جا رہا ہے

اتوار 8 جون 2014 07:39

پشاور( رحمت اللہ شباب۔اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔8جون۔2014ء)پاکستان اور افغانستان میں موجود غیر ملکی عسکریت پسندوں کی جانب سے مہلک ہتھیار بنانے کا انکشاف ہو ا ہے یہ ہتھیار عرب ،عراقی،برمی اور چائنہ کے عسکریت پسند انجینئر وں کے تعاون سے تیار کئے جا رہے ہیں ان کا میٹریل دوبئی،ملائیشیاء، اور دیگر کئی ممالک سے ڈارئی پورٹ کے ذریعے منگوائے جا رہے ہیں۔

ان ہتھیاروں میں کئی خطرناک بیکٹیریابھی استعمال کئے جارہے ہیں جس سے خطرناک بیماریاں پھیل رہی ہیں۔اُردو پوائنٹ کی تحقیقی رپورٹ میں طالبان اور عسکریت پسندوں کے مختلف ذرائع سے حاصل کی گئی معلومات میں ان بات کا انکشاف ہو ا ہے کہ افغانستان اور پاکستان میں موجود عسکریت پسندوں نے غیر ملکی عسکریت پسندوں کے تعاون سے ایسے مہلک ہتھیار بنا رہے ہیں جس میں پروٹینیم، یورینیم بڑے پیمانے پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

(جاری ہے)

ان دو اجزاء کے استعمال سے دھماکے کے دوران زور دار توانائی پیدا ہو تی ہے اور تباہی کا اندیشہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔اس کے علاوہ انتھراکس بیکٹیریا کے استعمال سے سانس لینے میں دشواری ،بخار،اندرونی و بیرونی اعضاء کو نقصان بھی پہنچ رہا ہے۔جبکہ ٹیو گیس، ٹنگ گیس کے استعمال سے آنکھوں کی بیماری ،سینے کی جلن ،نالیوں کی نقصان اور سینے میں تکلیف کے ساتھ ساتھ سانس لینے کی دشواری بھی پیدا ہوتی ہے۔

یو ٹزم بیکٹیریا دل کی تکلیف کا باعث ہوتا ہے ۔

ٹاکسنز کے استعمال سے آنکھوں سے آنسو اور دیگر تکالیف جبکہ بیو بانک بیکٹیریا تھراتھرہٹ اور پھیپھڑوں کا مسئلہ پیدا کرتا ہے ۔یہ وہ پانچ خطرناک اجزاء ہیں جن کو عسکریت پسند بم دھماکوں اور فورسز پر حملو ں میں استعمال کرتے ہیں۔یہ میٹریل افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقہ جات میں با آسانی دستیا ب ہے جب کہ کچھ میٹریل دوبئی،ملائیشیاء،شام اور دیگر کئی ممالک سے سمندری اور پہاڑی راستوں کے ذریعے منگوایا جا رہا ہے۔

بارود کی تیاری کے حوالے سے عسکریت پسندوں کے ایک کمانڈر نے نام ظاہر نہ کرنے کی صورت پر بتایا ہے کہ برمی اور عراقی عسکریت پسندوں نے دوبئی سے دو کنٹینر خالی بالٹیاں منگوائی ہے جن میں ان پانچ اجزاء کے بارود بنائے جارہے ہیں۔ان بالٹیوں کو کراچی ڈرائی پورٹ کے ذریعے افغانستان پہنچا دیا گیا ہے۔یہ بالٹی دوبئی اور سعودی عرب میں دیواروں کے پینٹ میں استعمال کی جاتی ہے ان بالٹیوں واضح طور پر Made in K.S.A لکھا ہو ا ہے اور ان کو افغانستان اور پاکستان میں عسکریت کے مراکز میں عام استعمال میں بھی دیکھا گیا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ان بالٹیوں میں تیا رکردہ بارود میں موبائل فون کااستعمال کیا جاتا ہے اور بارود کے ساتھ ان میں ایک پرانے موبائل کا بورڈ استعمال کیا جاتا ہے جس میں صرف افغان سِم استعمال کی جاتی ہے ان کو کہیں بھی فِٹ کرنے کی صورت میں دور سے ایک ایس۔ایم۔ایس کی ضرورت ہوتی ہے۔ایس۔ایم ۔ایس موصول ہو تے ہی پروٹینیم اور یورنییم آپس میں توانائی پیدا کرتے ہیں اور توانائی پیدا ہوتے ہی زور دار دھماکہ ہوجاتا ہے۔

جس میں نٹ بولٹ بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔دورِ جدید میں 3G کے استعمال سے اکثر عسکریت پسند بھی مستفید ہو نے لگے ہیں کیونکہ 3G کے سگنل ٹریس نہ ہونے کی وجہ سے عسکریت پسند ایک ناممکن ہدف کا آسان بنا دیتے ہیں۔کیونکہ پاکستان اور افغانستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس موبائل کی جدید ٹیکنالوجی کے حوالے سے اب تک کوئی جیمر یا کوئی ایسا آلہ نہیں ہے جو اس حملوں کو روکیں۔

قبائلی علاقوں میں موبائل سر وس نہ ہونے کی وجہ سے ان بارود کو (مخابرہ)یعنی وائرلیس سیٹ کے ذریعے اور یا پھر افغان سِموں کے ذریعے استعمال کیا جاتا ہے عام طور پر مخابرے میں بارود کو بلاسٹ کرنے کا اپنا فنکشن موجود ہوتے ہیں۔روس اور چائنہ کے بنائے ہوئے مخابروں میں بارود کے نمبر فٹ کئے جاتے ہیں۔اورعسکریت پسند محفوظ جگہ میں بیٹھ کر سیٹنگ میں اُسی نمبر کو ڈائل کرنے کے بعد دھماکہ ہو جاتا ہے۔

موبائل اور وائر لیس سیٹوں پر کامیاب کاروائیوں کے بعد عسکریت پسنداب خود کش حملوں کے بجائے ان حملوں کو ترجیح دے رہے ہیں۔کیونکہ ایک تو اس میں ایک عسکریت پسند کی جان بچانے کے ساتھ ساتھ ان پر خرچہ بھی انتہائی کم ہو تا ہے ۔

اگر دیکھا جائے تو 2013 اور2014 میں عسکریت پسندوں نے پاکستان اور افغانستان میں ہونے والے ان کارروائیوں میں ریموٹ کنٹرول دھماکوں کا استعمال زیادہ کیا ہے۔

اور مجموعی طور پر دو سالوں میں صرف 16خودکش حملے کئے گئے ہیں۔جو پچھلے سالوں کی نسبت انتہائی کم ہے۔عسکریت پسندوں کی ان نئی کارروائیاں جہاں سیکیورٹی اداروں کے لئے تکلیف دہ ہیں وہاں عام لوگوں کیلئے یہ زحمت بنی ہوئی ہے۔پاکستان کے قبائلی علاقہ جات میں 75فیصد لوگ سانس ،بخار ،تھراتھرہٹ ،پھیپھڑوں سمیت دیگر خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہو چکے ہیں جن میں اکثریت عمر رسیدہ خواتین اور بچوں کی ہیں جب کہ قبائلی علاقوں کے ساتھ ملحقہ اضلاع میں بھی 45 فیصد لوگ اس بیماریوں کے شکار ہو چکے ہیں۔کراچی میں ان بارود کے استعمال سے 60فیصد لوگ متاثر ہو چکے ہیں۔جو حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادروں کے لئے سوالیہ نشان ہے۔