حکومت کی ایک سال کی کارکردگی صفر ہے،سید خورشید شاہ ، وزیر خزانہ کی شاگردی کرنا پڑے گی‘ وہ سونے کو پتھر اور پتھر کو سونا بنانے کے ماہر ہیں،نون سازی کے حوالے سے اپوزیشن سے مشاورت نہیں کی جارہی جس کے باعث حکومت کو مشکلات کا سامنا ہے،قائد حزب اختلاف،ہمیں دہشت گردی‘ گندم اور توانائی بحران ورثے میں ملے‘ مارشلاؤں نے اس ملک کا بیڑا غرق کردیا‘ نیا پاکستان بنانے والے بھی ہوش کے ناخن لیں ہمیں اسی پاکستان کو بہتر بنانا ہے‘ ملک کا ہر پیدا ہونے والا بچہ 84 ہزار روپے کا مقروض ہے، قومی اسمبلی میں بجٹ بحث پر اظہار خیال

ہفتہ 7 جون 2014 05:23

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔7جون۔2014ء) قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ حکومت کی ایک سال کی کارکردگی صفر ہے‘ قانون سازی کے حوالے سے اپوزیشن سے مشاورت نہیں کی جارہی جس کے باعث حکومت کو مشکلات کا سامنا ہے‘ ایک سال میں حکومت نے کوئی معاشی اہداف حاصل نہیں کئے‘ کرسی اقتدار بھی عجیب شے ہے کہ غریب کی جھونپڑی بھی محل لگتی ہے۔

وزیر خزانہ کی شاگردی کرنا پڑے گی‘ وہ سونے کو پتھر اور پتھر کو سونا بنانے کے ماہر ہیں‘ یقیناً بجٹ تفصیلات کے بعد وہ اپوزیشن کو ناک آؤٹ کردیں گے مگر حکومت نے ایک سل میں اتنا قرضہ اٹھالیا جتنا ہم نے پانچ سال میں بھی نہیں اٹھایا تھا‘ حکومت نے بہت بڑا کشکول اٹھالیا ہے‘ ہمیں دہشت گردی‘ گندم اور توانائی بحران ورثے میں ملے‘ مارشلاؤں نے اس ملک کا بیڑا غرق کردیا‘ نیا پاکستان بنانے والے بھی ہوش کے ناخن لیں ہمیں اسی پاکستان کو بہتر بنانا ہے‘ ملک کا ہر پیدا ہونے والا بچہ 84 ہزار روپے کا مقروض ہے‘ اپوزیشن لیڈر کی تقریر کے دوران نماز جمعہ کا وقفہ ہوگیا‘ اجلاس پیر کی شام تک ملتوی کردیا گیا۔

(جاری ہے)

جمعہ کو قومی اسمبلی میں بجٹ برائے سال 2014-15ء پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے کہا کہ حکومت کی قانون سازی کے حوالے سے پہلے پارلیمانی سال میں پوزیشن نہایت کمزور ہے‘ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں ریکارڈ قانون سازی ہوئی جبکہ حکومت کی کارکردگی زیرو ہے‘ میں نے اپوزیشن سے مل کر قانون سازی کی اور قانون سازی پیپلزپارٹی کیلئے نہیں بلکہ ملک کیلئے ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ وزیر خزانہ نے لمبی تقریر کی۔ بجٹ تقریر پر ارکان اسمبلی پریشان تھے اور ساتھ ساتھ میڈیا بھی پریشان ہے کہ بجٹ میں کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر خزانہ نے 2014-15ء کا بجٹ پیش کیا اس سے پہلے انہوں نے کہا تھا کہ آئندہ بجٹ کو ایوان میں اپریل میں لے کر آئیں گے تاکہ کمیٹی میں زیر بحث لاکر اسے ایوان میں لائیں۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن اور وزیراعظم کی کرسی عجیب و غریب ہوتی ہی۔

غریب کی جھونپڑی بھی محل لگتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار علی خان کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بجٹ پارلیمنٹ بنائے کوئی وزارت یا ڈویژن نہ بنائے لیکن حکومت نے ان کی سفارشات پر لگتا ہے کہ عمل نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ایوان کو مچھلی منڈی بننے سے روکا ہے۔ ایوان کا تقدس بحال رکھنا چاہئے۔

انہوں نے کہا سپیکر صاحب! آپ بھی تین مرتبہ اور وزیراعظم نواز شریف چھٹی مرتبہ ایوان میں آرہے ہیں اور ان کا کچھ عرصہ جلاوطنی میں گزرا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے 52 کلوگرام کا بجٹ پیش کیا اس کے سواء بجٹ میں کچھ نہیں ہے۔ ماضی میں 1990ء میں ایکٹ کے ذریعے ٹیکس لگایا گیا جسے سپریم کورٹ نے ختم کردیا تھا۔ پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر یہ ٹیکس کیوں لگایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے ٹیکس جمع کرنے کا ہدف رکھا اور مطلوبہ ہدف کو حاصل نہیں کیا اور آئندہ حکومت نے 2810 ارب روپے کا ٹیکس جمع کرنے کا ہدف رکھا ہے۔

سید خورشید احمد شاہ نے کہا کہ میں وزیر خزانہ اسحق ڈار کا شاگرد بننا چاہتا ہوں۔ وہ مجھے شاگردی میں لے لیں تو ان کی مہربانی ہوگی۔ انہوں نے کہاکہ کچھ جماعتیں جذبات میں آکر کہتی ہیں کہ ہم نیا پاکستان بنائیں گے‘ ایسی باتوں سے گریز کرنا چاہئے۔

انہوں نے کہاکہ وزیراعظم نے کہا تھا کہ کشکول توڑ دیں گے لیکن س مرتبہ کشکول ٹوٹا نہیں بلکہ سائز بڑا ہوگیا ہے۔ صوبے صحت‘ تعلیم اور مقامی حکومتوں کے حوالے سے قرضے لے سکتے ہیں اس کی وفاقی حکومت ضمانت دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اندرونی قرضوں سے فرق نہیں پڑتا جبکہ بیرونی قرضے لینے سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے پانچ سالوں میں اتنے قرضے نہیں لئے جتنے موجودہ حکومت نے ایک سال میں لئے ہیں۔

حکومت ادلے کا بدلہ نہ کرے۔ انہوں نے کہاکہ حکومت نے جتنے قرضے لئے ہیں اس سے ملک کا بچہ بچہ 84 ہزار روپے کا مقروض ہوچکا ہے جبکہ شیخ رشید احمد نے کہا کہ 94 ہزار روپے کا مقروض ہے جس پر خورشید شاہ نے کہا کہ آپ اپنی تقریر میں حوالے دینا۔ انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں سوات آپریشن اور سیلاب جیسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اس کے باوجود ہم نے چینی اور آٹے کی قیمتیں مستحکم کیں۔ اپوزیشن لیڈر کی تقریر جاری تھی کہ نماز جمعہ کا وقت ہوگیا جس پر سپیکر نے اجلاس پیر کی سہ پہر ساڑھے چار بجے تک ملتوی کردیا۔