گوانتانامو بے جیل سے رہا ہونے والے قیدیوں میں سے 17 فیصد دوبارہ سے شدت پسند سرگرمیوں میں شامل ہو گئے، جنوری 2014 تک گوانتانامو بے سے کل 614 قیدی رہا کیے گے ان میں سے 104 کے بارے میں یہ تصدیق ہو چکی ہے کہ وہ پھر سے شدت پسند سرگرمیوں میں شامل ہو گئے ہیں،ڈائریکٹر نیشنل انٹیلی جنس

جمعرات 5 جون 2014 04:26

واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔5جون۔ 2014ء ) امریکی خفیہ ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق گوانتانامو بے جیل سے رہا ہونے والے قیدیوں میں سے 17 فیصد کے بارے میں پورے یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ دوبارہ سے شدت پسند سرگرمیوں میں شامل ہو گئے ہیں۔گوانتانامو کے قیدی دوبارہ شدت پسندی کی جانب مائلڈائریکٹر نیشنل انٹیلی جنس کی اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 12 فیصد مزید قیدیوں پر شک ہے کہ وہ رہا ہونے کے بعد پھر سے شدت پسند سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں۔

امریکہ میں کئی فوجی افسر اور رپبلکن رہنما امریکی فوجی سارجنٹ برگ ڈال کی رہائی کے عوض پانچ طالبان قیدیوں کی رہائی کے فیصلے پر سخت تنقید کر رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ رہا کیے جانے والے طالبان امریکہ کے لیے پھر سے خطرہ بن سکتے ہیں۔

(جاری ہے)

تاہم صدر اوباما نے رہائی کے فیصلے کو صحیح قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’آگے حالات جو بھی ہوں، ایک مقید امریکی فوجی کو واپس گھر لایا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’ہم ان لوگوں پر نظر رکھیں گے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ان میں سے کچھ پھر سے امریکہ کے خلاف کارروائی میں شامل ہو جائیں؟ بالکل۔‘صدر اوباما نے کہا کہ انھوں نے قومی سلامتی سمیت تمام پہلووٴں پر غور کرنے کے بعد ہی یہ فیصلہ کیا کیونکہ انھیں یقین ہے کہ اگر یہ لوگ امریکہ کے خلاف کام کرتے ہیں تو انھیں پھر سے حراست میں لیا جا سکتا ہے۔

ڈائریکٹر نیشنل انٹیلی جنس کی رپورٹ کے مطابق جنوری 2014 تک گوانتانامو بے سے کل 614 قیدی رہا کیے جا چکے ہیں اور ان میں سے 104 کے بارے میں یہ تصدیق ہو چکی ہے کہ وہ پھر سے شدت پسند سرگرمیوں میں شامل ہو گئے ہیں۔اس کے علاوہ 74 ایسے ہیں جن پر شک ہے کہ وہ دہشت گردی سے وابستہ ہیں۔رپورٹ کے مطابق: ’گذشتہ 11 برسوں کے تجزیے سے کہا جا سکتا ہے کہ اگر گوانتانامو بے جیل سے مزید قیدیوں کو غیر مشروط طور پر کیا گیا تو ان میں سے کچھ پھر سے دہشت گرد سرگرمیوں میں شامل ہو جائیں گے۔

‘رپورٹ کا کہنا ہے کہ یہ قیدی اسی ماحول میں لوٹتے ہیں جہاں حالات خراب ہیں اور شدت پسند تنظیمیں انھیں واپس اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرتی ہیں، جو ایک بڑا مسئلہ ہے۔امریکہ اب تک اس اصول پر قائم رہا ہے کہ جنھیں وہ ’دہشت گرد‘ قرار دیتا ہے ان کے ساتھ کسی طرح کی بات چیت نہیں کی جائے گی۔

کہا جاتا ہے کہ کہ سارجنٹ برگ ڈال حقانی نیٹ ورک کے قبضے میں تھے اور امریکہ اس تنظیم کو ’دہشت گرد‘ تنظیم قرار دے چکا ہیکئی سابق فوجی افسران اور رپبلکن ممبران پارلیمان نے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے ’دہشت گرد‘ تنظیموں کا حوصلہ بلند ہوگا اور ان کی سوچ ہوگی کہ امریکی فوجیوں کو یرغمال بنا کر وہ اپنے ساتھیوں کو رہا کروا سکتے ہیں۔

اوباما انتظامیہ کے فیصلے پر اس لیے بھی تنقید ہو رہی ہے کیونکہ جس امریکی فوجی کو رہا کروایا گیا ہے وہ فوج سے ناخوش تھا اور 2009 میں اپنی مرضی سے فوجی اڈے سے باہر نکل گیا تھا۔ اس کے کچھ ہی گھنٹوں بعد طالبان نے اسے یرغمال بنا لیا تھا۔کئی امریکی فوجی اسے مفرور کہہ رہے ہیں اور فوجی قانون کے تحت کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔امریکی فوج کے سپریم افسر جنرل مارٹن ڈیمپسی کا کہنا ہے کہ ایک امریکی فوجی کو رہا کروانے کا یہ ایک طرح سے آخری اور سب سے بہتر موقع تھا۔

انھوں نے کہا کہ سارجنٹ برگڈال سے بات چیت کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ وہ کن حالات میں پکڑے گئے۔ان کا کہنا تھا: ’اگر انہوں نے کچھ غلط کیا تھا تو فوج اس کی نظر انداز نہیں کرے گی، لیکن کسی بھی دوسرے امریکی کی طرح وہ اس وقت تک بے گناہ ہیں جب تک ان پر جرم ثابت نہ ہو جائے۔‘۔‘

متعلقہ عنوان :