عمران خان نے شوکت خانم ہسپتال کے مزید 8کروڑ روپے ڈبو دئیے ،صدیق الفاروق ، عمران خان وعدے کے مطابق 10دن کے اندر شوکت خانم کے اکاؤنٹ میں 38کروڑ روپے جمع کروائیں،کوئی دوسرا ملک ہوتا تو وہ اس وقت جیل میں ہوتے، چیف جسٹس شوکت خانم ٹرسٹ کوشفاف طریقے سے چلانے کیلئے انتظامی کمیٹی مقرر کریں، مالی معاملات کی تحقیق کیلئے آڈٹ کمیٹی مقرر کریں۔،عمران سیاست میں قدم رکھنے کے ساتھ ہی شوکت خانم ہسپتال کا سیاسی استعمال کر رہے ہیں،نیوز کانفرنس سے خطاب

پیر 2 جون 2014 07:43

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔2جون۔2014ء)عمران خان نے شوکت خانم میموریل ٹرسٹ کے مزید 8کروڑ روپے ڈبو دئیے ہیں۔اب عمران خان10دن کے اندر شوکت خانم میموریل ٹرسٹ کے اکاؤنٹ میں 38کروڑ روپے جمع کروائیں او ر نہ صرف خود بلکہ ان کے تمام رشتہ دار ٹرسٹ کی سربراہی اور رکنیت سے فی الفور مستعفیٰ ہوں تاکہ کینسر ہسپتال کے سیاسی استعمال کا امکان ہمیشہ کیلئے ختم ہوسکے۔

کوئی اور ملک ہوتا تو عمران خان اس وقت جیل میں ہوتے ۔ یہ مطالبہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے چیف کوآرڈی نیٹر محمدصدیق الفاروق نے اتوار کو یہاں ایک پر ہجوم نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کی کہ وہ از خود نوٹس لیتے ہوئے ہسپتال کو شفاف طریقے سے چلانے کیلئے ایک عدالتی کمیٹی مقرر کریں اور ملک کی نامور تین آڈٹ کمپنیوں پر مشتمل ایک انوسٹی گیشن کمیٹی مقرر کریں جو ٹرسٹ کے مالی معاملات کا روز اول سے آڈٹ کر کے حقائق قوم کے سامنے رکھے ۔

(جاری ہے)

مسلم لیگی رہنمانے تمام انسان دوست لوگوں سے اپیل کی کہ وہ شوکت خانم ٹرسٹ کو عطیات ، زکوٰہ، خیرات وغیرہ دینا جاری رکھیں تاکہ کینسر کے مریضوں کا علاج جاری رہے ۔ ایک سوال کے جواب میں صدیق الفارو ق نے کہا کہ ٹرسٹ کا سرمایہ عمران خان یا ان کے رشتہ داروں کا ذاتی سرمایہ نہیں ۔اس لئے ان کے خاندان کے لوگ بورڈ آف گورنرز کے ممبرز کسی بھی صورت میں نہیں بننے چاہئیں ۔

ایک اور سوال کے جواب میں مسلم لیگی رہنما نے کہا کہ ایدھی ٹرسٹ شوکت خانم ٹرسٹ سے100گنا بڑا ادارہ ہے اور میں مولانا عبدالستار ایدھی کو سلام پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے آج تک اس کا سیاسی استعمال نہیں کیا۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ شریف خاندان نے شریف میڈیکل سٹی اور دیگر خیراتی کاموں کا کسی سیاسی پلیٹ فارم سے کبھی ذکر تک نہیں کیا۔

اس سوال کے جواب میں کہ عمران خان آخر ٹرسٹ کی سربراہی سے کیوں استعفیٰ دیں؟ انہوں نے کہا کہ بلاشبہ عمران خان نے یہ ٹرسٹ قوم کے پیسوں سے نیک نیتی سے قائم کیا تھا لیکن جب سے وہ سیاست میں آئے ہیں انہوں نے اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کیلئے ٹرسٹ کا سیاسی استعمال شروع کر رکھا ہے ۔ لہذا Conflict of Interestکے اصول کے تحت ان کا استعفیٰ لازمی ہے ۔ صدیق الفاروق نے یاد دلایا کہ عمران خان نے 28جنوری 2013ء کو جیو کے نجم سیٹھی کو دئیے گئے انٹرویو میں وعدہ کیاتھا کہ اگر Off Shore(کالے دھن سے چلنے والی کمپنیوں ) میں سرمایہ کاری کی وجہ سے پہنچنے والا یہ نقصان ایک سال میں پور ا نہ ہوا تو ”میں زمان پارک کا آبائی مکان فروخت کر کے یہ نقصان پورا کر دوں گا“۔

صدیق الفاروق نے کہا آج 17مہینے گزر چکے ہیں لیکن عمران خان نے قوم سے کیا ہوا اپنا وعدہ پور ا نہیں کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ان آف شور کمپنیوں میں بھی انتہائی پراسرار طریقے سے سرمایہ کاری کی گئی تھی ۔ جب صدیق الفاروق کی توجہ عمران خان کے اس موقف کی جانب دلائی گئی کہ ”یہ سرمایہ کاری ٹھوس گارنٹی کی بنیاد پر منافع کمانے کیلئے کی گئی تھی “ تو انہوں نے کہا کہ ساری دنیا جانتی ہے کہ یہ ادارے کالے دھن سے چلتے ہیں ۔

اس لئے ان اداروں میں زکوٰہ ، صدقات ، عطیات ، فطرانہ اور قربانی کی کھالوں کا پاکیزہ سرمایہ لگانا حرام ہے ۔ ایک اور سوال کے جواب میں صدیق الفاروق نے کہا کہ آئر لینڈ سے دبئی تک شوکت خانم کے مقدس سرمایہ کا پراسرار سفر اور اس کے نتیجے میں38کروڑ کا نقصان مجھے یہ کہنے سے نہیں روک سکتا کہ شوکت خانم ٹرسٹ کے دیگر مالی معاملات بھی مبینہ طور پر مشکوک ہو سکتے ہیں۔

شوکت خانم کو زکوٰہ اور عطیات کی مدات میں وصول ہونے والی رقوم سے آف شور کمپنی میں 3ملین ڈالر کی سرمایہ کاری جو کہ پہلے ہی ڈوب چکی ہے کے علاوہ مزید 6کروڑ 78لاکھ روپے ایک مشکوک اور ڈوبتے ہوئے انوسٹمنٹ بنک میں سرمایہ کاری کرکے ڈبو دئیے گئے ۔ مالی سال 2012ء کی آڈٹ دستاویز کے نوٹ نمبر16 کے مطابق شوکت خانم ہسپتال کے 6کروڑ 78لاکھ روپے کی ٹرسٹ انوسٹمنٹ بنک میں سرمایہ کاری ڈوب چکی ہے ۔

اس کے علاوہ 1کروڑ 5لاکھ کے ڈیفنس سرٹیفکیٹ کو بھی ضائع شدہ ظاہر کیا گیا ہے ۔ یاد رہے ٹرسٹ انوسٹمنٹ بنک میں شوکت خانم نے 6 کروڑ 90لاکھ روپے کی سرمایہ کاری 2010ء میں کی تھی جبکہ یہ بنک اس وقت تقریبا " ڈوب چکا تھا۔ اس بنک کا سال 2009ء میں نقصان 715ملین روپے اور سال 2010ء میں 702ملین روپے تھا۔ گزشتہ سال کی مالی دستاویزات میں اس بات کا ذکر کیا گیاتھا کہ بنک کی بدترین مالی صورتحال کے پیش نظر ایس ای سی پی نے اس بنک پرمزید ڈیپازٹ لینے پر پابندی لگا دی ہے اور کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی نے اس کی کریڈٹ ریٹنگ بھی واپس لے لی ہے ۔

اس کے باوجود سال 2011ء کی مالی دستاویز کے نوٹ نمبر 16.1میں یہ غلط بیانی کرتے ہوئے یہ تاثر دیا گیا تھا کہ یہ سرمایہ کاری وصول ہو جائے گی ۔ اب مالی سال2012ء کی دستاویز کے نوٹ نمبر 16کے مطابق ساری صورتحال سامنے آگئی ہے کہ یہ ساری سرمایہ کاری ڈوب چکی ہے جسے مینجمنٹ نے خود تسلیم کر لیا ہے۔شوکت خانم بہرحال ایک ٹرسٹ ہے ۔ اس کو دیا جانے والا ہر روپیہ ایک مقدس امانت ہے اور اس ادارے کو چلانے کیلئے ٹرسٹ ایکٹ 1982ء کی روح کو سامنے رکھنا بہرحال ضروری ہے ۔

یہ قانون ٹرسٹ منی (Trust Money)کو صرف گورنمنٹ اور رسک فری سیکوریٹز میں انوسٹمنٹ کرنے کی اجازت دیتا ہے ۔ Breach of Trust کو سنگین فعل قرر دیتا ہے ۔ Trusteesکو یہاں تک ذمہ دار بناتا ہے کہ اگر وہ نادانستہ بھی کوئی ایسا کام کر بیٹھیں جو ٹرسٹ کے مفاد میں نہ ہو اور اس سے ٹرسٹ کو نقصان پہنچے تو اس نقصان کو پورا کرنے کی ذمہ داری بھی انہی Trusteesپر عائد ہوتی ہے ۔

تعزیرات پاکستان (Pakistan penal code)بھی Breach of Trust کو سنگین جرم قرار دیتا ہے اور اس کی سزا دو سال قید ، جرمانہ یا دونوں بیک وقت دی جا سکتی ہیں۔ انکم ٹیکس قوانین کے تحت شوکت خانم ہسپتال ایسے اداروں کو ٹیکس میں چھوٹ جن قواعد و ضوابط کے تحت دی جاتی ہے ان میں یہ شرط بھی عائد ہوتی ہے کہ ان اداروں کو مذہبی اور سیاسی پراپیگنڈے کیلئے استعمال نہیں کیا جائے گا۔اور اس ادارے کی سرپلس منی جو ایک سال میں وصول ہونے والی کل رقم کے پچیس فیصد سے زیادہ نہیں ہو گی کی سرمایہ کاری صرف محفوظ مدات اور گورنمنٹ سیکیورٹیز میں ہی ہو گی ۔

متعلقہ عنوان :