پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں سی ڈی اے میں اربوں روپے کی کرپشن کے انکشافات پر ارکان نے کانوں کو ہاتھ لگالئے،ٹوئن ٹاور کی نیلامی کا معاملہ نیب کو بھیجنے ،سینٹورس مال سے بقایا رقم سود سمیت 30روز میں وصول اور ڈپلومیٹک شٹل سروس معاہدہ کی تحقیقات ایف آئی سے کرانے کی ہدایت،سی ڈی اے مکمل ادائیگی کئے بغیر کمپلیشن سرٹیفکیٹ جاری نہ کرے اور اگر ضرورت ہو تو ان کی بجلی اور نکاسی آب بند کردی جائے،کمیٹی کی ہدایت، نیب والے صر ف شرفاء کی پگڑیاں اچھالنے میں لگے ہیں،کارکردگی کچھ نہیں،خورشید شاہ

جمعہ 30 مئی 2014 05:50

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔30مئی۔2014ء)پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں وفاقی ترقیاتی ادارہ (سی ڈی اے) میں اربوں روپے کی کرپشن کے انکشافات پر ارکان نے کانوں کو ہاتھ لگالئے،ٹوئن ٹاور کی نیلامی کا معاملہ نیب کو بھیجنے ،سینٹورس مال سے بقایا رقم سود سمیت 30روز میں وصول کرنے اور ڈپلومیٹک شٹل سروس کے معاہدہ کی تحقیقات ایف آئی سے کرانے کی ہدایت کی ہے جبکہ چیئرمین کمیٹی سید خورشیدشاہ نے سی ڈی اے حکام کو ہدایت کی کہ سی ڈی اے رجسٹریشن ڈیپارٹمنٹ کوئی رجسٹری نہ دے جبکہ تک کمپلیشن سرٹیفکیٹ جاری نہیں کیا جاتا اور اگر ضرورت ہے تو ان کی بجلی اور نکاسی آب بند کی جائے اور کہا کہ نیب والے صر ف شرفاء کی پگڑیاں اچھالنے میں لگے ہوئے ہیں جبکہ کارکردگی کچھ بھی نہیں ہے ۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس گذشتہ روز چئیرمین کمیٹی سید خورشید شاہ کی زیر صدارت ہوا جس میں سی ڈی اے کے مالی سال 2011-10کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا ، سی ڈی میں اربوں روپے کی کرپشن پر چیئرمین کمیٹی سمیت ممبران کمیٹی انگشت بدنداں رہ گئے ، اجلا س میں کمیٹی کو حکام نے ٹوئن ٹاورز(ہائی رائز)، سینٹورس، صفاگولڈ مال اور شٹل بس سروس کے حوالے سے بریفنگ دی گئی، اجلاس میں آڈٹ حکام نے انکشاف کیا کہ ٹوئن ٹاور کی نیلامی 9مارچ 2005کو ہوئی جو کہ بی این پی گروپ نے سب سے زیادہ بولی لگا کر جیتی۔

(جاری ہے)

کل زمین 13.5ایکڑتھی جس کی لیز کی قیمت4ارب 80کروڑ روپے بنتے تھے ادائیگی کا طریقہ کار اس طرح تھاکہ 15فیصد ادائیگی پہلے 45دنوں میں جب کہ 85فیصد ادائیگی 15سالوں میں کرنی تھی سالانہ قسط 276.6ملین روپے ادا کرنا تھی جبکہ ابھی تک مذکورہ کمپنی نے صرف 97کروڑ70لاکھ روپے اداکیے ہیں ، جس پر چئیرمین کمیٹی سید خورشید شاہ نے شدید اظہار برہمی کرتے ہوئے ایڈیشنل سیکرٹری کابینہ سے استفسار کیا کہ سچ سچ بتائیں کیایہ سن کر دل ہلتا ہے لیکن سب سے زیادہ تو کرپشن کا الزام سیاستدانوں پر لگایا جاتا ہے کہ سیاستدان سب سے زیادہ کرپٹ ہیں ،چور ہیں ، ظالم ہیں ، انہوں نے کہا کہ ان کی اطلاعات کے مطابق ابھی ادائیگی مکمل نہیں ہوئی جبکہ اس ٹاورز پر فلیٹ بھی بیچے جارہے ہیں جن کی قیمت 8سے 11کروڑ روپے تک ہے یہ تو کھلی کرپشن ہے کہ ادائیگی مکمل نہیں ہے اور فلیٹ بیچے جارہے ہیں یہ معلوم ہو نا چاہیے کہ معاہدہ کس نے کیاتھا، اب تک کتنے فلیٹس بیچے گئے ہیں چئیرمین کمیٹی نے سفارش کی کہ ان ٹاورز کی کنسٹرکشن بند کردی جائے ملک کی زمینوں کو بے دردی کے ساتھ لوٹا جارہا ہے۔

سید خورشید شاہ نے کہا کہ کچھ نہیں توکچھ نہیں اس زمین کی قیمت ابھی بھی30ارب روپے کے لگ بھگ ہوگیانہوں نے سفارش کی اس کیس کو نیب کے سپر د کیا جائے ۔ اصل چورتو یہ ہیں نیب ، ایف آئی اے ان پر ہاتھ ڈالے آپ ان پر ہاتھ کیوں نہیں ڈالتے ہیں جس پر نیب حکام نے مزید انکشاف کیا کہ بی این پی گروپ نے ٹوئن ٹاورز پر گورنمنٹ کے ہی پیسوں سے تعمیر شروع کی ہے کمپنی نے بنک آف پنجاب سے 2007میں ایک ارب 60کروڑ روپے کا تقریباً لون لیا اور واپس نہیں کیا جس پر بنک آف پنجاب کی شکایت پر ان کے خلاف مقدمہ درج ہوا اور اب تک صرف 1.76ملین روپے کی ہی ریکوری کی جاسکی ہے جس کے بعد کمپنی عدالت چلی گئی اور حکم امتناعی بھی لے لیااب ہم بھی اس کیس میں پارٹی ہیں۔

کمیٹی کو بتایاگیا کہ ٹاورز کی تعمیر کے لیے 13منزلوں کی منظوری دی گئی تھی جبکہ اب اس پر 23منزلیں تعمیر کر دی گئی ہیں ، جبکہ لیز کی زمین پر لون نہیں لیاجا سکتا لیکن لیز کی زمین پر لون لے کر تعمیر شروع کرکے فلیٹ کرائے پر دیے جارہے ہیں یافروخت کیے گئے جس پرچئیرمین کمیٹی نے کہا کہ ان کی کرپشن سن کر دل گردے والے بھی ہل گئے ہیں اس پر ججز کو نوٹس لیناچاہے اور میں میڈیا سے کہوں گا کہ وہ بھی اس کرپشن کو اجاگر کرے کیونکہ ابھی تک 10سے 12ارب روپے کی بکنگ کر چکا ہے جبکہ پیسے ابھی تک نہیں دیئے ہیں۔

انہوں نے سی ڈی اے سے استفسار کیا کہ یہ معاہدہ کس نے کیا تھااس کے خلاف بھی نیب میں کیس رجسٹرڈ کیا جائے جس پر سی ڈی اے حکام نے بتایا کہ اس وقت کے ڈائریکٹر اسٹیٹ رحمان گیلانی کے معاہدے پر دستخط ہیں ، جس پر چئیرمین کمیٹی نے کہا کہ رحمان گیلانی کو بھی کمیٹی میں بلایا جائے ، نیب حکام نے بتایا کہ یہ کیس بنک آف پنجاب کی طرف سے آیا تھا جبکہ سی ڈی کی طرف سے نہیںآ یا تھا،چئیرمین کمیٹی نے کہاکہ پی اے سی سفارش کررہی ہے کہ اس کیس کی تحقیقات ہونی چاہیے، ممبر کمیٹی جنید انوار چوہدری نے کہا کہ یہ عمارت گرنی چاہیے یہ سیکورٹی کے لیے بھی رسک ہے کیونکہ عمارت کے ساتھ سفارت خانے ہیں یہ عمارت سیکورٹی کے لیے خطرہ ہو سکتی ہے ۔

اجلاس میں سینٹورس کے حوالے سے بھی جائزہ لیا گیا، آڈٹ حکام نے بتایاکہ سینٹورس کے لیے کل زمین7.20ایکڑ کے لیے آکشن کی گئی، اکشن میں 6ارب 60کروڑ سے زائد رقم کی ادائیگی کرنی تھی جس میں سے 5ارب سے 70کروڑ روپے وصول ہوچکی ہے جب کہ باقی دو ارب سے زائد رقم واجب الادا ہے 25فیصد رقم کی ادائیگی پر ہی مال کی ایڈورٹائز اور سیل شروع کر دی گئی ، حکام نے بتایا کہ پہلے معاہدے کے تحت 12اقساط دینی تھیں اور ہر تین ماہ بعد 380.684ملین روپے کی رقم ادا کرنی تھی جبکہ پھر معاہدہ کو تبدیل کرکے اسکی 16اقساط کی گئیں اورقسط کی رقم 279.168ملین روپے کر دی گئی جبکہ ابھی رقم کی ادائیگی مکمل نہیں ہوئی اور بلڈنگ کو کرائے پراور اپارٹمنٹس کو لوگوں کے نام پر رجسٹرڈ کیا جارہاہے ۔

معاہدہ کے مطابق اگست 2012تک تما م اقساط مکمل ہوجانی چاہیے تھیں جو نہیں ہوئیں۔ جبکہ قواعد کے مطابق جب تک رقم کی ادائیگی مکمل نہیں ہوجاتی تب تک تکمیل سرٹیفکیٹ نہیں دیا جا سکتا ہے چئیرمین کمیٹی سید خورشید شاہ نے سی ڈی اے حکام کو ہدایت کی کہ سی ڈی اے رجسٹریشن ڈیپارٹمنٹ کوئی رجسٹری نہ دے جبکہ تک کمپلیشن سرٹیفکیٹ جاری نہیں کیا جاتا اور اگر ضرورت ہے تو ان کی بجلی اور نکاسی آب بند کی جائے۔

انہوں نے ہدایت کی بقایا رقم مارک اپ کے ساتھ30دنوں میں ریکور کی جائے ، سی ڈی اے حکام نے کہا کہ یہ غیرملکی سرمایہ کاری تھی جس سے سرمایہ آیا جس پر چئیرمین سیدخورشید شاہ نے کہاکہ یہ کیسی انوسٹمنٹ تھی کہ ڈیڑھ ارب روپے پر 50ارب روپے کا پراجیکٹ دے دیا اور اپنے ہی لوگوں کو لوٹ مار کرکے باہر چلے گئے ملک کاپیسہ باہر لے گئے واضح نظر آتا ہے کہ خلاف ورزیاں ہوئی ہیں، ایک اپارٹمنٹ 35ملین روپے میں سیل ہواہے۔

چئیرمین سید خورشید شاہ نے کہا کہ 6سات ارب روپے سے 20ارب روپے کمالیے گئے ہیں اور ابھی تک ادائیگیاں نہیں کی گئیں ،سی ڈی اے نے پیسے کیوں نہیں لیے 10منزلیں مزید بنادی گئیں آپ آسمان کو بیچ رہے ہیں ، خورشید شاہ نے کہا کہ پی سی اے ہدایت دے کہ جب تک اس طرح کے کسی پراجیکٹ کی 100فیصدادائیگی نہیں ہو جاتی تو قبضہ نہ دیا جائے۔ انہوں نے ہدایت کی مارک ا پ کے ساتھ 30یوم میں ریکوری کی جائے ۔

ممبر کمیٹی جنید انوار چوہدری نے کہاکہ اس کی بیسمنٹ میں بھی کچھ ٹیکنکل مسائل سننے کو آرہے خوف ہے کہ کہ کوئی بڑا حادثہ نہ ہوجائے، ٹیکنکل سٹاف وزٹ کرکے اس کو چیک کرے، جنید انوار چوہدری نے کہا کہ میریٹ ہوٹل، سرینہ ہوٹل اور شفا انٹرنیشنل ہسپتال کی پارکنگ کے بھی مسائل ہیں انہوں نے سرکاری جگہ پرپارکنگ کے لیے گھیر رکھا ہے جس پر سی ڈی اے حکام نے بتایا کہ ان کے پارکنگ کے ایشوز ہیں ان کی انتظامیہ کے ساتھ بات چیت چل رہی ہے کہ وہ اس مسلے کا حل نکالیں یا ادائیگی کریں ، عارف علوی نے کہاکہ سی ڈی اے کو اتنی دیمک لگ چکی ہے کہ کرپشن کی سب سے زیادہ بو اسی ادارے سے آتی ہے اربو ں روپے کھائے جارہے ہیں ، اجلاس میں شٹل بس سروس کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے سیکرٹری نے تصدیق کی کہ شٹل بس سروس کا سالانہ کا ٹھیکہ 44ہزار 400روپے میں محمد حسین نامی شخص کو دیا گیا ہرمسافر سے 200روپے کرایہ لیا جاسکتا ہے جس پر آڈٹ حکام نے بتایا کہ مسافروں سے 500روپے بھی کرایہ لیا جاتا رہاہے چئیرمین کمیٹی نے کہا کہ دیڑھ کروڑ روپے ماہانہ کمارہا ہے ، کمیٹی کو بتایا گیاکہ اس معاملہ کی انکوائری ہو رہی تھی لیکن وہ فائل ہی گم کر دی گئی ، خورشید شاہ نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ سی ڈی اے کے اندر کے لوگ اس میں شامل ہیں ، چئیرمین کمیٹی سید خورشید شاہ نے کہاکہ نیب والے صر ف شرفاء کی پگڑیاں اچھالنے میں لگے ہوئے ہیں جبکہ کارکردگی کچھ بھی نہیں ہے ، چئیرمین کمیٹی نے سفارش کی کہ معاملہ ایف آئی اے کے سپر د کیا جائے اور ایف آئی اے 15یوم کے اندر کمیٹی کو رپورٹ دے کہ شٹل سروس کا معاہدہ کس نے کیا تھا اور فائل کس نے گم کی اور اس وقت کے بورڈ ممبران کون تھے انکوائری رپورٹ پیش کی جائے ۔

کمیٹی میں ممبر شیخ رشید نے کہا کہ ڈپلومیٹک انکلیو میں ایک نائی نے سوا دولاکھ کی دکان لی ہے سی ڈی اے چوروں کے ساتھ ملا ہوا ہے ۔