نیشنل پولیس فاؤنڈیشن میں 600 ارب روپے سکینڈل کیس میں فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ ،فاؤنڈیشن کے قیام اور مقاصد جاننا ضروری ہے اور اس پر کس حد تک عمل کیا گیا ہے اس کا جائزہ لیں گے، جسٹس ناصرالملک،ایک خبر کے مطابق نیشنل پولیس فاؤنڈیشن نے سابق صدر اور آرمی چیف پرویز مشرف اور معین حیدر سمیت کئی افسران کو پلاٹ الاٹ کئے اور ڈبل الاٹمنٹ کی گئی ،فہرست بنانے میں عدالت سے جھوٹ بولا ہے اس کیخلاف کارروائی کریں گے‘ جسٹس اعجاز چوہدری، پلاٹوں کی بندربانٹ کو نظرانداز نہیں کرسکتے اگر کوئی دوسری فہرست نہیں ہے تو بھی عدالت کو بتایا جائے،سپریم کورٹ کی ہدایت

جمعہ 30 مئی 2014 05:46

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔30مئی۔2014ء) نیشنل پولیس فاؤنڈیشن میں 600 ارب روپے سکینڈل کیس میں سپریم کورٹ نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا ہے اور جسٹس ناصرالملک نے ریمارکس دئیے ہیں کہ فاؤنڈیشن کے قیام اور مقاصد جاننا ضروری ہے اور اس پر کس حد تک عمل کیا گیا ہے اس کا جائزہ لیں گے جبکہ جسٹس اعجاز چوہدری نے ریمارکس دئیے کہ ایک خبر کے مطابق نیشنل پولیس فاؤنڈیشن نے سابق صدر اور آرمی چیف پرویز مشرف اور معین حیدر سمیت کئی افسران کو پلاٹ الاٹ کئے اور ڈبل الاٹمنٹ کی گئی جنہوں نے فہرست بنانے میں عدالت سے جھوٹ بولا ہے اس کیخلاف کارروائی کریں گے‘ یہ سکیم صرف پولیس ملازمین کیلئے تھی‘عام لوگوں کواس میں سے پلاٹ نہیں دئیے جاسکتے تھے۔

پلاٹوں کی بندربانٹ کو نظرانداز نہیں کرسکتے اگر کوئی دوسری فہرست نہیں ہے تو بھی عدالت کو بتایا جائے۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ ریمارکس جمعرات کے روز دئیے۔ جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے نیشنل پولیس فاؤنڈیشن کیس کی سماعت جمعرات کے روز دوبارہ شروع کی تو پلاٹ لینے والے مختلف کیٹگریز سے تعلق رکھنے والے پولیس افسران‘ سول ودیگر افراد کی درخواستوں پر وکلاء نے دلائل دئیے۔

اس دوران مسلم لیگ (ن) کے سابق ایم این اے انجم عقیل بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ بعض وکلاء نے دلائل کا خلاصہ تحریری طور پر عدالت میں پیش کیا۔ سردار محمد غازی نے دلائل کا آغاز کیا۔ عدنان امیر منہاس نے ای الیون میں پلاٹ حاصل کیا۔ پروفیشن کے لحاظ سے یہ انجینئر ہیں۔ 6 ستمبر 2000ء میں پراپرٹی ڈیلر سے پلاٹ خریدا تھا اور اس کیلئے 80 لاکھ روپے سے زائد رقم ادا کی اور 5 جنوری 2012ء کو اس کا قبضہ حاصل کیا اور اس کے بعد عدالتی نوٹس ملا۔

مس فاطمہ شاہین ولد سکندر حیات شاہین مرحوم سابق ڈی آئی جی نے فاؤنڈیشن سے 7 جون 2007ء میں پلاٹ حاصل کیا اور مظہر الٰہی نے یہ فروخت کیا جسے انہوں نے خریدا تھا۔ 18 مارچ 2008ء کو اس کا قبضہ ملا جس پر میں نے 50 لاکھ روپے لگاکر گھر بنایا ہے۔ عدالتی فیصلے کے حوالے بھی وکیل سردار غازی نے پیش کئے۔ 1972ء کے عدالتی فیصلے‘ 2011ء کے فیصلے کا بھی حوالہ دیا۔

انہیں عدالتی فیصلہ جوکہ این پی ایف کیخلاف جاری کیا اس کے بارے میں بالکل علم نہیں تھا۔ ہر شہر کو اراضی خریدنے اور اسے فروخت کرنے کا قانونی طور پر حق حاصل ہے۔ اسی دوران مختلف درخواستوں پر وکلاء پیش ہوتے رہے اور اپنی اپنی معروضات پیش کرتے رہے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ محمد عرفان پولیس کانسٹیبل تھا اس نے پلاٹ حاصل کیا وہ اس کے حقدار تھے۔

محسن شہزاد نے بھی پلاٹ حاصل کیا۔ جسٹس امیر ہانی نے کہا کہ 2003ء کو الاٹ کیا گیا 2009ء میں اس قیمت پر آپ نے پلاٹ خرید لیا‘ کیا چھ سال میں پلاٹ کی قیمت میں کوئی ردوبدل نہیں آیا؟۔ پولیس فاؤنڈیشن کی جانب سے زاہد بخاری نے دلائل اور اضافی ڈاکومنٹس عدالت میں پیش کئے‘ بتایا گیا کہ پرائیویٹ ٹرسٹ ہونے کی وجہ سے آرٹیکل (3) 184 کے تحت ان کیخلاف درخواست دائر نہیں ہوسکتی۔

جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہاکہ اگر بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہو تو کیا تب بھی سماعت نہیں ہوگی؟ جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ یہ پرائیویٹ سوسائٹی نہیں تھی اس کیلئے حکومت پاکستان نے ایس آر او جاری کیا تھا۔ جسٹس اعجاز نے کہا کہ جب حکومت ہی سب افسران کا تقرر کررہی ہے۔ سب معاملات وہی کررہی ہے تو پھر یہ پرائیویٹ ٹرسٹ کیسے ہوسکتا ہے۔ عدالت کے کہنے پر سبزواری ایڈووکیٹ نے ایس آر او پڑھ کر سنایا جس میں این پی ایف کی تشکیل کا تذکرہ تھا۔

ایس آر او میں لکھا ہوا تھا کہ وزارت داخلہ کے تحت 2 کروڑ روپے کی رقم سے این پی ایف کا آغاز کیا جارہا ہے اور یہ چیریٹی ایبل ٹرسٹ ہوگا۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ یہ عوامی رقم تھی جوکہ ٹرسٹ کے آغاز میں فراہم کی گئی۔ وکیل نے کہا کہ این پی ایف کا سٹیٹس پرائیویٹ باڈی کا ہے۔ جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ حکومت کیا کہتی ہے یا نہیں ہم نے تو دستاویز کو دیکھ کر فیصلہ کرنا ہے۔

جسٹس اعجاز چوہدری نے کہا کہ آپ نے تو نظرثانی کی درخواست دائر نہیں کی۔ جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ آپ کے نزدیک یہ پرائیویٹ تنظیم ہے۔ وفاقی محتسب کے فیصلہ کی سپریم کورٹ پابند نہیں ہے۔ سبزواری ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ میں نے کچھ کاغذات تیار کئے ہیں عدالت ان کا جائزہ لے لے۔ عدالت نے کہا کہ ان کاغذات کو چھوڑیں۔ وکیل کا کہنا تھا کہ ابتداء میں 2 کروڑ روپے سے اراضی خریدی گئی۔

جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ اس کا کیس سے کوئی تعلق نہیں۔ حکومت نے 1975ء میں 2 کروڑ روپے دئیے کیونکہ حکومت کے تحت قائم کردہ ٹرسٹ تھا۔ وکیل کا کہنا تھا کہ یہ عام لوگوں اور پولیس کے لوگوں کیلئے ٹرسٹ تھا یہ ایک ہاؤسنگ سکیم تھی۔ جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ آپ بتادیں کہ کس قانون کے تحت یہ پراجیکٹ کام کررہا تھا۔ جسٹس امیر ہانی نے کہا کہ ہاؤسنگ سکیم کس قانون کے تحت تھی۔

وکیل نے بتایا کہ 26 فروری 1989ء میں ہاؤسنگ سکیم کا آغاز کیا گیا۔ جسٹس اعجاز نے کہا کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ آپ کی تمام باتیں ہم نے نوٹس کررکھی ہیں چار دنوں سے دو ہفتے تک ہم نے آپ کے سب دلائل سنے ہیں کیا آپ نظرثانی درخواستوں کو سپورٹ کرتے ہیں؟ سبز واری نے کہ اکہ یہ سکیم صرف پولیس کیلئے ہی نہیں تھی۔ جسٹس اعجاز چوہدری نے کہا کہ عام لوگوں کیلئے سکیم نہیں تھی یہ صرف پولیس کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ افراد کیلئے تھی۔

وکیل نے بتایا کہ ہم نے تو کہہ دیا تھا کہ انجم عقیل سے پیسے لے لیں۔ جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ لوگوں کو کیسے سکیم میں شامل کیا گیا اس کا ریکارڈ کہاں ہے؟ کیسے یہ پولیس سے عام لوگوں تک پلاٹ پہنچے؟ میں اس حوالے سے کوئی نہیں بتارہا۔ علی ظفر نے بتایا کہ سکیم کی قرارداد ان کی درخواست میں موجود ہے۔ زاہد بخاری نے کہا کہ بورڈ آف ڈائریکٹرز کے اجلاس کے منٹس کی بنیاد پر قرارداد مرتب کی گئی۔

اس اجلاس میں دو ہاؤسنگ سکیموں (راولپنڈی‘ اسلام آباد) کی منظوری دی گئی اس میں عام لوگوں کو بھی شامل کرنے کی اجازت دی گئی۔ ایک سوسائٹی بنانی تھی اس کے ڈاکومنٹس علیحدہ تھے۔ اراضی کی خریداری کا معاملہ الگ سے تھا۔ درخواست فارم میں بھی بہت کچھ تحریر تھا۔ ایک کمیٹی‘ پھر بورڈ آف ڈائریکٹرز بنایا گیا۔ اس ٹرسٹ کو چلانے والے پولیس افسران تھے کوئی خاص قواعو و ضوابط نہیں بنائے گئے تھے۔

عدالت کے بار بار پوچھنے پر علی ظفر ایڈووکیٹ نے سوسائٹی کے قواعد و ضوابط سے عدالت کو آگاہ کیا۔ جسٹس اعجاز نے کہا کہ فیصلے میں پلاٹوں کی الاٹمنٹ کی جو فہرست دی گئی تھی کیا اس کے علاوہ بھی کوئی فہرست ہے؟ یہی سوال جسٹس ناصرالملک نے بھی پوچھا کہ کیا ڈبل الاٹمنٹ کی گئی تھی؟ زاہد بخاری نے کہا کہ ایسی کوئی فہرست نہیں ہے اس حوالے سے انہیں مکمل معلومات نہیں ہیں۔

جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ پتہ کرکے دیں کہ مزید فہرست تھی یا نہیں۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ کتنی الاٹمنٹس ہوئیں۔ زاہد بخاری نے کہا کہ 1500 سے زائد الاٹمنٹس کی گئیں۔ جسٹس اعجاز چوہدری نے کہا کہ خبر آئی تھی کہ 18 نومبر 2011ء کو بتایا گیا تھا کہ سابق صدر پرویز مشرف کو بطور صدر اور آرمی چیف کے پلاٹ الاٹ ہوئے۔ معین الدین حیدر کو بھی پلاٹ الاٹ کیا گیا۔

جن سے ڈبل الاٹمنٹ کی گئی جس نے ایسا کیا ہے اس کو بھگتنا پڑے گا۔ پولیس والے تو غلط فہرستیں دیتے رہتے ہیں اب آپ نے بھی یہ کام کرنا شروع کردیا ہے۔ بہت سارے لوگوں کے نام تک نہیں دئیے گئے۔ زاہد بخاری نے کہا کہ جو فہرست آپ کے پاس ہے اس میں ڈبل الاٹمنٹ کی بات کی گئی ہے۔ متعلقہ افسران سے اس حوالے سے بھی پوچھا ہے۔ جسٹس اعجاز چوہدری نے کہا کہ آرمی کے لوگوں کو جو ڈبل الاٹمنٹ کی گئی ہے دیگر لوگوں کو بھی فائدہ دیا گیا ہے اس حوالے سے عدالت کو جواب دیا جائے۔

پولیس فاؤنڈیشن رپورٹ داخل کرے۔ زاہد بخاری نے کہا کہ یہ ہاؤسنگ سکیم کیا صرف پولیس کے لوگوں کیلئے تھی۔ حکومت نے آغاز میں کی گئی فنڈنگ کی بعد ہمیں مزید فنڈنگ نہیں کی‘ سکیم بنانے کی وجوہات کیا تھیں جو پیسے ملے انہیں انویسٹ کردیا گیا۔ جسٹس اعجاز نے کہا کہ یہ سب ہم نے لکھا ہوا ہے یہ سب فنڈ ریزنگ کیلئے کیا گیا ہے۔ زاہد بخاری نے کہا کہ ہم نے عدالتی فیصلے پر اعتراض نہیں کیا اسلئے نظرثانی کی درخواست پر اعتراض نہیں کیا اسلئے نطرثانی کی درخواست دائر نہیں کی۔

جسٹس ناصر نے کہا کہ آپ نے جو تحفظات دائر کرنے ہیں اب بھی کرسکتے ہیں۔ زائد بخاری نے کہا کہ انجم عقیل سے لی گئی اراضی کا تمامتر ریکارڈ مکمل ہوچکا ہے اس کیس میں ہمیں کوئی ہدایات نہیں دی گئیں۔ عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کروانے میں مشکلات درپیش ہیں کہ یہ پلاٹ کینسل ہیں۔ پڑتال کرنے کا اب کیا ذریعہ باقی رہ جاتا ہے سب کو نوٹس دے دئیے ہیں ہمارے پاس فوجداری یا سول کورٹ کے اختیارات نہیں ہیں۔

ہم نے آپ کے کہنے پر ان کو نوٹس دئیے تو تب ہی یہ لوگ آئے ہیں۔ عدالت اپنے فیصلے کے تحت عملدرآمد بارے حکم دے جو حکم ملے گا اس پر عمل ہوگا۔ اگر یہ آرڈر جاری رہے گا تو پھر نجانے کتنے سوٹس فائل ہوں گے اور ان پر ہمیں قانونی کارروائی کا سامنا کرنے پڑے گا۔ دو ماہ کی مدت میں ہم نے انجم عقیل کے معاملے کو حل کرنے کی کوشش کی۔ عدالت کوئی ریزرویشن دے گی تو اس کی تکمیل ہوگی۔

جسٹس امیر ہانی نے کہا کہ آپ نے زمین کی ویلیو تجویز کرنی تھی۔ زاہد بخاری نے کہا کہ ٹیکسوں کے معاملات‘ اراضی نہ ملنا‘ ریکوری‘ 164 کا ایشو تھا‘ سب معاملات حل کرنے تھے۔ جسٹس اعجاز نے کہا کہ ایک معاملجہ 126 کنال کا تھا۔ موجودہ قیمت کے مطابق رقم وصول کرنا تھی۔ زاہد بخاری نے کہا کہ ہم نے 30 کنال اراضی انجم عقیل سے زائد حاصل کی ہے۔

کرسٹل والے معاملات میں 11 کروڑ روپے کا معاملہ تھا باقی معاملات کو بھی دیکھ رہے ہیں۔ دوسری طرف 23 کروڑ روپے کا معاملہ ہے۔ 45 کنال اراضی کا الگ سے ایشو ہے۔ 4 کروڑ روپے کی رقم انجم عقیل نے چیکوں کے ذریعے ادا کی۔ 70 کنال اراضی انجم عقیل نے این پی ایف کے حوالے کی‘ معاہدہ ہوچکا ہے۔ اس کا باقاعدہ قبضہ بھی این پی ایف نے حاصل کرلیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ کل کتنی اراضی آپ کے قبضے میں آچکی ہے؟۔

زاہد بخاری نے بتایا کہ 175 میں سے 126 کنال اراضی مل چکی ہے۔ جسٹس ناصر نے کہا کہ عملدرآمد رپورٹ میں یہ حقائق موجود نہیں ہیں۔ انجم عقیل کہتے ہیں کہ وہ 126 کنال اراضی 2004ء کے نرخوں پر دینے کیلئے تیار ہیں۔ بعدازاں عدالت نے سماعت اور دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا جو کسی اور دن سنایا جائے گا۔۔