آپ آرام کریں، چھٹیوں کا ہوم ورک ہم کریں گے، نیا کاروبار سامنے آگیا، پاکستان اور بھارت میں سخت گرمی کے موسم میں طلبا و طالبات کو اسکولوں اور کالجوں سے چھٹیاں دے دی جاتی ہیں،اسکولوں میں چھٹیاں طویل ہونے کی وجہ سے اسٹوڈنٹس کو ہوم ورک بھی دیا جاتا ہے تاکہ وہ کسی نہ کسی صورت میں اپنے کتابی نصاب سے منسلک رہیں، اس کے برعکس اب بھارتی مارکیٹ میں ایسے ادارے کھل گئے ہیں، جو ’چھٹیوں میں ملنے والا ہوم ورک‘ کرنے کی خدمات کی پیشکش کرتے ہیں،رپورٹ

منگل 27 مئی 2014 08:14

نئی دہلی(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔27مئی۔2014ء)پاکستان اور بھارت میں ٹیوشن اکیڈمیوں کا کاروبار پہلے ہی عروج پر ہے۔ لیکن اب بھارت میں ایسے ادارے بھی سامنے آ گئے ہیں، جو پیسوں کے عوض گرمی کی چھٹیوں میں ملنے والا ہوم ورک کرنے کی خدمات پیش کرتے ہیں۔ہندوستان ٹائمز ڈیلی کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان اور بھارت میں سخت گرمی کے موسم میں طلبا و طالبات کو اسکولوں اور کالجوں سے چھٹیاں دے دی جاتی ہیں۔

اسکولوں میں چھٹیاں طویل ہونے کی وجہ سے اسٹوڈنٹس کو ہوم ورک بھی دیا جاتا ہے تاکہ وہ کسی نہ کسی صورت میں اپنے کتابی نصاب سے منسلک رہیں۔ اس کے برعکس اب بھارتی مارکیٹ میں ایسے ادارے کھل گئے ہیں، جو ’چھٹیوں میں ملنے والا ہوم ورک‘ کرنے کی خدمات کی پیشکش کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

ہندوستان ٹائمز ڈیلی کی ایک رپورٹ کے مطابق دارالحکومت نئی دہلی میں اسکولوں کے بچے اپنی اسائنمنٹس مکمل کرنے کے لیے ایسے ہی افراد یا اداروں کی خدمات حاصل کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنی چھٹیاں آرام اور سکون سے گزار سکیں۔

بھارتی اخبار کے مطابق اس ابھرتے ہوئے نئے رجحان سے اساتذہ تو شاید ناخوش ہوں لیکن ایسی خدمات فراہم کرنے والے ادارے یا افراد انتہائی خوش نظر آتے ہیں۔ اس اخبار نے مارکیٹ میں دیے جانے والے بہت سے اشتہارات میں سے ایک کا حوالہ بھی دیا، جس میں لکھا ہوا تھا، ” اب چھٹیوں میں ہوم ورک کرنے کی فکروں سے چھٹکارہ پائیں۔ تمام کلاسز کا ہوم ورک ماہرین سے کروائیں۔

یہ ادارے پڑھائی سے متعلق ہر قسم کی خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ یہ طالبعلموں کو ملنے والے مختلف پروجیکٹس بھی مکمل کر کے دیتے ہیں، ان کے لیے آرٹیکلز بھی لکھتے ہیں اور نظمیں بھی۔ اس کے علاوہ پاور پوائنٹ پریزنٹیشنز اور ماڈلز کے مختلف ڈیزائن بھی مناسب قیمتوں میں تیار کیے جاتے ہیں۔ابھیشیک شرما کا کہنا تھا کہ وہ سالانہ گرمیوں کی چھٹیوں میں 25 طالبعلموں تک کے ہوم ورک مکمل کر لیتے ہیں اور ان کا معیار بھی اچھا ہوتا ہے۔

شرما خود بھی ایک اسکول میں فائنل ایئر کے طالبعلم ہیں اور ایک سادہ پروجیکٹ کے لیے ایک ہزار بھارتی روپے وصول کرتے ہیں۔ اس طرح ایک مشکل پروجیک کے تقریبا تین ہزار بھارتی روپے وصول کیے جاتے ہیں۔ اس طرح کے ادارے چلانے والے چند ایک افراد کا کہنا تھا کہ اس کام میں بہت زیادہ دباوٴ ہے۔

ایک کوچنگ انسٹی ٹیوٹ چلانے والے دیپکا ورما کا کہنا تھا، ” ایک تو مقابلہ بازی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے اور دوسری طرف انہیں زیادہ تر ایسے اسٹوڈنٹس فون کرتے ہیں، جن کے والدین کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ان کے بچے اپنا ہوم ورک ہم سے کروا رہے ہیں۔

ایک اور ہوم ورک فراہم کرنے والے ماہر لہر راج کا کہنا تھا کہ اس رجحان کے قصوروار دراصل اسکول ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آج کل اسکولوں میں بچوں پر بہت بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ انہیں بہت مشکل اسائنمنٹس دی جاتی ہیں اور وہ یہ کام باہر سے کروانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ دوسری جانب دہلی کے اسپرنگ ڈیئلز اسکول کی پرنسپل امیتہ ملا واٹل کا کہنا تھا، “ ہم عموما طالب علموں کی تعطیلات کے بارے میں ایک مضمون لکھنے کا کہتے ہیں۔ جو پروجیکٹ طالبعلم نہیں کر سکتے، اس کا کہا بھی نہیں جاتا اور ہمارے اسٹوڈنٹس یہ جانتے ہیں۔