تحفظ پاکستان بل پر حکومت اپوزیشن اہم مذاکرات آج ہوں گے ،حکومت نے رابطہ کرکے اس بل پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی پیشکش کی ،ذرائع،اپوزیشن جماعتوں نے ترامیم کا مسودہ تیار کرلیا،مذاکرات میں پیش ہو گا،اپوزیشن رہنما

جمعہ 23 مئی 2014 07:50

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔23مئی۔2014ء)تحفظ پاکستان بل کی سینٹ سے منظوری کو یقینی بنانے کیلئے حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے اہم مذاکرات (آج)جمعہ کو ہوں گے جن میں حکومت کی طرف سے وفاقی وزیر زاہد حامد اور اپوزیشن کی طرف سے سینٹ میں قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن اور میاں رضاربانی نمائندگی کریں گے۔میڈیا اطلاعات کے مطابق حکومت نے اپوزیشن رہنماؤں سے رابطہ کرکے اس بل پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی پیشکش کی تھی جس کے بعد یہ مذاکرات طے کئے گئے ہیں۔

اپوزیشن جماعتوں نے ان مذاکرات کیلئے بل میں ترامیم کا مسودہ تیار کر لیا ہے جو ایک اپوزیشن رہنما کے مطابق مذاکرات میں پیش کیا جائے گا۔دوسری جانب سینٹ میں اپوزیشن جماعتوں نے جمعرات کو دوسرے روز بھی تحفظ پاکستان آرڈیننس پر غور جاری رکھا اور اس کی مختلف شقوں کا جائزہ لیا گیا۔

(جاری ہے)

دوروزہ اجلاس میں اپوزیشن ارکان نے زوردیا ہے کہ دہشتگردی کے ملزم کو 90دن کی بجائے 45دن حراست میں رکھنے کی شق رکھی جائے جبکہ ملکی اور غیر ملکی افراد کیلئے الگ الگ قانون ہونا چاہیے ، اگر کسی کو سکیورٹی فورسز گولی مار دیں تو اس کی تحقیقات کیلئے انتظامی کی بجائے عدالتی کمیشن قائم ہونا چاہیے۔

سینٹ میں اپوزیشن جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی ، عوامی نیشنل پارٹی ، مسلم لیگ (ق) اور دیگر اس بل کی مخالفت کر رہی ہیں اور مختلف شقوں پر تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں اور حکومت انہیں قائل کرنے کیلئے کوشاں ہے ۔ حکومت کا موقف ہے کہ ملک میں پائیدار بنیادوں پر امن و استحکام اور دہشت گردی پر قابو پانے کے لئے اس قسم کا قانون ناگزیر ہے۔ اس ضمن میں حکومت نے اس قانون کی مدت محدود کرنے کا بھی عندیہ دیا ہے۔

اپوزیشن جماعتوں کے ان اجلاسوں میں سینیٹر رضا ربانی ، سینیٹر کامل علی آغا ،سینیٹر کلثوم پروین ، سینیٹر حاجی عدیل ، سینیٹر افراسیاب خٹک ،سینیٹر شاہی سید اور دیگر ارکان شریک ہوئے ۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں اتفاق کیا گیا کہ دہشتگردی کے ملزم کو 90دن کی بجائے 45دن حراست میں رکھنے کا قانون ہونا چاہیے جبکہ ملکی اور غیر ملکی افراد کیلئے الگ الگ قانون ہونا چاہیے ۔

اپوزیشن ارکان کے مطابق ان کا موقف ہے کہ اگر سکیورٹی فورسز کے اہلکار کسی کو گولی مار دیں تو اس کی تحقیقات انتظامی کی بجائے عدالتی کمیشن میں ہونی چاہیے جس کا سربراہ کم از کم سیشن جج کی سطح کا شخص ہونا چاہیے ۔اپوزیشن جماعتیں دہشتگرد کی شہریت ختم کرنے اور بعض دیگر نکات پر اتفاق رائے پیدا نہیں کر سکیں۔ذرائع کے مطابق اپوزیشن نے ان مذاکرات کیلئے ترامیم کا مسودہ تیار کرلیا ہے جو مذاکرات میں سامنے لایا جائے گا۔