سپریم کورٹ ، پولیس فاؤنڈیشن کے 6 ارب روپے کا سکینڈل ، (ن) لیگ رہنماء انجم عقیل خان کی نظرثانی درخواست کی سماعت ، پولیس سے ایف آئی اے میں مقدمے کی منتقلی بارے تمام تر ریکارڈ طلب،عدالتی فیصلے میں ایسا کیا سقم ہے کہ جس کی وجہ سے انجم عقیل نے نظرثانی کی درخواست دائر کی‘ جب سپریم کورٹ نے پولیس سے مقدمہ ایف آئی اے میں منتقل کرنے کی ہدایات نہیں دی تھیں تو پھر یہ مقدمہ کیسے منتقل ہوا‘ نیب نے اب تک اس پر ریفرنس کیوں دائر نہیں کیا اور ٹرائل میں پیشرفت کیوں نہیں ہوسکی؟جسٹس ناصرالملک کے ریمارکس،سماعت 26 مئی تک ملتوی

جمعرات 22 مئی 2014 07:49

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔22مئی۔2014ء) سپریم کورٹ نے پولیس فاؤنڈیشن کے 6 ارب روپے کے سکینڈل میں مسلم لیگ (ن) کے سینئر راہنماء انجم عقیل خان کی نظرثانی درخواست کی سماعت میں پولیس سے ایف آئی اے میں مقدمے کی منتقلی بارے تمامتر ریکارڈ طلب کیا ہے اور سماعت 26 مئی تک ملتوی کردی‘ جسٹس ناصرالملک نے ریمارکس دئیے ہیں کہ عدالتی فیصلے میں ایسا کیا سقم ہے کہ جس کی وجہ سے انجم عقیل نے نظرثانی کی درخواست دائر کی‘ جب سپریم کورٹ نے پولیس سے مقدمہ ایف آئی اے میں منتقل کرنے کی ہدایات نہیں دی تھیں تو پھر یہ مقدمہ کیسے منتقل ہوا‘ نیب نے اب تک اس پر ریفرنس کیوں دائر نہیں کیا اور ٹرائل میں پیشرفت کیوں نہیں ہوسکی؟ اراضی مالکان‘ فاؤنڈیشن کیساتھ ساتھ ان درخواست گزاروں کا کیا ہوگا جن کا حق متاثر ہوا‘ جسٹس اعجاز چوہدری نے ریمارکس دئیے کہ انجم عقیل نے اراضی کی قیمت موجودہ مارکیٹ نرخوں کے مطابق نہیں بلکہ 2004ء کے نرخوں کے مطابق ادا کی‘ ایک معاہدے کے بعد دوسرے معاہدے کی کیا ضرورت تھی۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ ریمارکس بدھ کے روز دئیے۔ جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی اس دوران انجم عقیل کی جانب سے سابق اٹارنی جنرل مخدوم علی خان پیش ہوئے اور کہا کہ ظفر اقبال قریشی پولیس فاؤنڈیشن کے صدر تھے۔ جب معاملات سامنے آئے تو پولیس فاؤنڈیشن نے خود معاہدہ تبدیل کیا۔ پہلا معاہدہ اچھا تھا دوسرا معاہدہ کمیٹی نے کیا تھا تب تیسرا معاہدہ کیا گیا۔

مجھ پر شرائط لاگو کی گئیں میں نے وہ بھی تسلیم کیں۔ 27 مئی 2011ء میں پانچ ہزار کے سٹام پیپر حلف نامے پر دستخط کئے تھے۔ 2004ء میں کہا تھا کہ اراضی نہیں دے سکتا۔ 126 کنال اور 6 مرلہ اراضی سکیم کے تحت مجھے دینے کو کہا تھا میں نے کہا تھا کہ یہ اراضی نہیں دے سکتا۔ چیئرمین این پی ایف نے اراضی کے جو نرخ مقرر کئے میں نے قبول کئے۔ 2004ء میں جو قیمت بنتی تھی وہی نرخ مقرر کئے گئے۔

یہ معاہدہ عدالتی فیصلے میں بھی شامل ہے۔ جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ کونسی تبدیلی آئی تھی اور اس کے آپ پر کیا اثرات مرتب ہوئے اور کیا چیز فیصلے میں موجود نہیں ہے۔ مخدوم خان نے کہا کہ اگر مجھ پر سول ذمہ داری ڈالی جاتی ہے تو دیکھ لیا جائے کہ 2004ء میں کیا نرخ تھے۔ میرا ایک سیاسی کیریئر ہے مجھ پر فوجداری الزامات عائد کئے گئے۔ میں نے معاہدے اپنی ساکھ کو برقرار رکھنے کیلئے کئے تھے۔

میں نے تو زائد رقم ادا کی تھی اگرر میں نے غلط کام کرنے تھے تو پھر مجھے معاہدے کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ اگر میرے خلاف چیپٹر کلوز کیا جاتا ہے تو میں تمامتر رقم کی ادائیگی کیلئے مکمل طور پر تیار ہوں۔ اگر فریقین اس بات پر متفقہ ہوجاتے ہیں کہ سول مقدمہ بنتا ہے تو کیا پھر بھی معاہدوں کو دیکھا جائے گا۔ معاہدے کے بعد کسی شخص کیخلاف فوجداری کارروائی انتہائی نامناسب ہے اور کیا نیب قانون کے مطابق کام کررہا ہے۔

جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ آپ پر سول اور فوجداری دو طرح کی ذمہ داری عائد کی گئی تھی۔ مخدوم خان نے کہا کہ سول معاملہ تو میرے معاہدے کی وجہ سے ختم ہوجاتا ہے میں تو آج بھی معاہدے پر عمل کرنے کیلئے تیار ہوں۔ مجھے اس معاہدے کا کوئی فائدہ نہیں دیا گیا بلکہ پولیس فاؤنڈیشن کو فائدہ تھا۔ مجھے اگر اعتراض ہے تو دو معاہدوں کے درمیان تضاد ہے۔ 2004ء کے نرخوں کا جائزہ لیا جانا چاہئے۔

126 کنال کی قیمت دینے کو تیار ہوں بلکہ موجودہ نرخ پر بھی پیسے دے سکتا ہوں۔ جسٹس اعجاز چوہدری نے کہا کہ آپ نے اراضی بھی نہیں دی اور اب اس کے بدلے میں قیمت 2004ء کے نرخ پر کیوں دینا چاہتے ہیں۔ مخدوم خان نے کہا کہ ظفر احمد قریشی کی رپورٹ کے بعد تنازعہ پیدا ہوا تھا۔ رپورٹ کے صفحہ 143‘ 144 میں جو کہا گیا اس سے میں متاثر ہوا۔ بورڈ آف ڈائریکٹرز نے 25 فروری 1989ء میں دو علاقوں میں ہاؤسنگ سکیم شروع کی تھی۔

ان علاقوں میں کئی دیہی علاقے بھی آتے تھے۔ ایک طرف لوہی بھیر اور دوسری طرف گولڑہ کا علاقہ آتا تھا۔ 15 ہزار کنال اراضی ایکوائر کی جاتی تھی۔ 654 ایکڑ علاقہ گولڑہ میں آتا تھا اور ای الیون کی بجائے ای 12 اور ای 14 میں اراضی دی گئی کیونکہ سی ڈی اے ای الیون میں اراضی حاصل نہیں کرسکا تھا۔ 1994ء میں حکومت نے سمری منظور کی تھی اور ای الیون کی اراضی ایکوائر کرنے کا کہا گیا تھا اور اس کی منظوری صدر پاکستان نے دی تھی۔

ملٹی پروفیشنل‘ سروسز کوآپریٹو اور پاک ملٹی کوآپریٹو سمیت 5 ہاؤسنگ سکیموں کو بھی گولڑہ میں اراضی درکار تھی۔ 1325 کنال اراضی کی سکیم تھی۔ کچھ علاقہ پارکوں اور کمرشل ایریا کیلئے تھا۔ ظفر قریشی کی رپورٹ کے مطابق 1325 کنال اراضی پولیس فاؤنڈیشن کی سکیم میں آتی تھی۔ این پی ایف نے اراضی ایکوائر کی تھی۔ انجم عقیل ایکوائر ایجنٹ تھا۔ اس نے لوگوں کو رقم ادا کی جنہوں نے قبضہ جما رکھا تھا۔

سکیم کیلئے اراضی دی گئی۔ اراضی کی خریداری میں انجم عقیل خان سے تین سمجھوتے کئے گئے۔ 252 کنال اراضی انجم عقیل نے دینی تھی جو دے دی دوسرے معاہدے میں 318 کنال 12 مرلہ دینا تھا جبکہ تیسرے معاہدے میں 58 کنال اراضی 85 ہزار روپے فی کنال دی تھی۔ 356 کنال اراضی دے دی گئی‘ 126 کنال6 مرلہ اراضی رہ گئی‘ 563 کنال اراضی این پی ایف کو منتقل کی گئی۔ جسٹس ناصر نے کہا کہ تین فریقین یہاں آئے ہوئے ہیں۔

ایک درخواست گزار‘ اراضی مالکان اور تیسرا فاؤنڈیشن آئی ہوئی ہے۔ درخواست گزاروں کا کیا ہوگا۔ مخدوم خان نے کہا کہ اراضی دے دی گئی تھی۔ فاؤنڈیشن نے اراضی خریدی تھی۔ وہ لوگ جو گولڑہ کے علاقے میں موجود تھے ان سے قبضہ چھڑانا آسان نہ تھا ان کو کچھ رقم ادا کی گئی‘ کچھ لوگوں کی اراضی کے معاہدے کینسل بھی کئے گئے۔ عبدالقیوم اور محمد اشرف کی 21 کنال اراضی کا تنازعہ تھا‘ معاملہ آپ کے پاس آیا تھا اور آپ نے فیصلہ کیا تھا۔

جسٹس ناصر نے کہا کہ مالکان بھی ایک معاہدے کیساتھ فاؤنڈیشن کے پاس آئے تھے یا نہیں۔ مخدوم خان نے کہا کہ ظفر قریشی نے کہا تھا کہ 45 کنال اراضی کی کمی تھی باقی سب معاملات مکمل تھے۔ 450 کنال اراضی 1997ء میں فاؤنڈیشن نے ایکوائر کرائی تھی۔ 1325 کنال اراضی پر اب فاؤنڈیشن کا قبضہ ہے۔ منظور شدہ منصوبہ کے مطابق 1355 کنال اراضی تھی‘ 1213 کنال اراضی قبضے میں لی گئی‘ 141 کنال اراضی پر بھی بعد میں قبضہ این پی ایف کو دیا گیا۔

جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ عدالتی ہدایات کا جائزہ لیتے ہیں کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں کیا ہدایات دی تھیں‘ سول ذمہ داری کیا بنتی ہے اس کا جائزہ لے کر آگے چلیں گے۔ اس حوالے سے ظفر قریشی کی رپورٹ کے مختلف صفحات دیکھے جاسکتے ہیں۔ آپ نے مارکیٹ کے نرخوں کے مطابق نہیں بلکہ 2004ء کے تحت رقم ادا کی تھی۔ مخدوم خان نے کہاکہ میں نے تو رقم ادا کردی تھی مجھ پر سول ذمہ داری عائد نہیں ہوسکتی۔

دوسرے معاہدے کی وجہ سے ان پر فوجداری الزامات عائد کئے گئے اور شالیمار تھانہ میں مقدمہ درج کریا تھا۔ 31 کروڑ 67 لاکھ روپے کا معاملہ بنتا تھا۔ 16 فلیٹ دئیے گئے جن کی ویلیو 20 کروڑ 20 لاکھ سے زائد بنتی ہے‘ این پی ایف کو دئیے گئے۔ جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ انہیں 23 پلاٹ کیوں دئیے گئے۔ مخدوم خان نے بتایا کہ کچھ اراضی ایس بھی تھی جو انجم عقیل کی کوششوں سے ایکوائر ہوئی۔

گولڑہ اسٹیٹ میں کچھ لوگوں کو متبادل اراضی دی گئی۔ 46 فیصد اراضی گلیوں اور دیگر معاملات میں گھپ گئی تھی صرف 54 فیصد اراضی ہی کام میں آنا تھی۔ جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ پہلے معاہدے ہوتے ہوئے دوسرے معاہدے کی کیا ضرورت تھی۔ مخدوم نے کہا کہ دوسرا معاہدہ انجم عقیل کے زیادہ حق میں نہ تھا فاؤنڈیشن کو کیا فائدہ تھا۔ 30 جنوری 2011ء کو اخباری خبر پر ازخود نوٹس لیا گیا تھا اور سیکرٹری داخلہ سے رپورٹ طلب کی گئی تھی‘ کیس درج کیا گیا۔

22 فروری 2011ء میں انجم عقیل کیخلاف انکوائری کا آغاز کیا گیا۔ 6 ارب کا سکینڈل قرار دیا گیا۔ دوسرے معاہدے کا معاملہ تاحال زیر سماعت ہے ان کیخلاف ایف آئی آر درج کی گئی‘ گرفتار کیا گیا اور پھر دوسرا معاہدہ وجود میں آیا جو انجم عقیل کیلئے خوشی کا باعث نہ تھا۔ دوسرا معاہدہ میرے موکل کی مرضی کے مطابق نہ تھا۔ چونکہ ان کیخلاف فوجداری کارروائی شروع کی گئی تھی اسلئے انہوں نے معاہدہ کیا تھا‘ تین ایف آئی اے رپورٹس آئیں۔

صدیق اکبر رپورٹ‘ جوئیہ نے بھی رپورٹ دی تھی۔ ہر رپورٹ دوسری رپورٹ سے میل نہیں کھاتی۔ جوئیہ نے کہا تھا کہ اراضی پہنچ میں تھی صرف ظفر قریشی کی رپورٹ کو ہی درست قرار دیا گیا اور اس کی بنیاد پر سول اور فوجداری کارروائی شروع کی گئی۔ ظفر قریشی پر جرح نہیں کی گئی اور نہ ہی میرے موکل کے کسی دوسرے حق کو تسلیم کیا گیا۔ انکوائری رپورٹ کوئی شہادت نہیں ہے کہ جس کی بنیاد پر سول اور فوجداری کارروائی کی جاسکے۔

اس کا مقصد عدالت کی معاونت کرنا تھی۔ نیب نے اس رپورٹ کی بنیاد پر تفتیش کرنا تھا۔ میرے موکل اس وقت مشکل حالات میں ہیں۔ 2 جولائی 2011ء کو میرے موکل کیخلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ 28 اگست 2011ء کو چالان پیش کیا گیا۔ ایف آئی اے نے اس کیس میں تین پراگریس رپورٹس پیش کیں۔ 20 نومبر 2012ء کو پہلی رپورٹ پیش کی گئی۔ نیب تحقیقات کررہا ہے۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ کیا کوئی ریفرنس دائر کیا گیا ہے؟ اس پر مخدوم نے کہاکہ ایسا کوئی ریفرنس دائر نہیں کیا گیا۔

جسٹس ناصرالملک نے پوچھا کہ ان رپورٹس کا کیا نتیجہ نکلا‘ چالان جمع کرانے کے بعد ٹرائل میں کوئی پیشرفت ہوئی ہے؟ مخدوم خان نے کہا کہ چالان کے بعد کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی ویسے بھی دوسرا معاہدہ ہوچکا تھا جس میں این پی ایف نے اپنی مرضی کی تھی۔ پولیس نے مقدمہ درج کیا بعدازاں ایف آئی اے کو مقدمہ منتقل کردیا گیا۔ بعدازاں ایف آئی اے نے ایک اور ایف آئی آر درج کرائی۔

سپریم کورٹ کی ہدایات پر مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ بعدازاں عدالت نے جب وقفے کے بعد تک سماعت ملتوی کرنا چاہی تو انجم عقیل کے وکیل نے عدالت سے استدعاء کی کہ انہوں نے دوسرے بنچ سے ایک روز قبل کے ملتوی کردہ مقدمے میں دلائل دینا ہیں اسلئے اس کی سماعت کسی اور دن مقرر کی جائے اور یہی استدعاء حامد خان نے بھی کی جس پر عدالت نے سماعت 26 مئی تک ملتوی کردی۔