کراچی ، اسٹیٹ بینک کا پالیسی ریٹ 10 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ ،چند ماہ میں مہنگائی کی شرح تو کم ہوئی تھی لیکن اپریل میں دوبارہ بڑھ کر9فیصد سے تجاوز کر گئی ہے ،مہنگائی 8 فیصد کے ہدف سے بلند ہے، مہنگائی سمیت دیگر کئی اہم عوامل کے شرح سود کو برقرار رکھنے کا فیصلہ ہوا ،گورنر سٹیٹ بنک کا مانیٹری پالیسی کا اعلان

اتوار 18 مئی 2014 07:43

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔18مئی۔2014ء ) اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے پالیسی ریٹ 10 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور کہا ہے کہ گذشتہ چند ماہ میں مہنگائی کی شرح تو کم ہوئی تھی لیکن ماہ اپریل2014میں دوبارہ بڑھ کر9فیصد سے تجاوز کر گئی ہے جو سال کے 8 فیصد ہدف سے بلند ہے، مہنگائی سمیت دیگر کئی اہم عوامل کے شرح سود کو برقرار رکھنے کا فیصلہ ہوا ۔

ہفتہ کو گورنر بینک دولت پاکستان اشرف محمود وتھراکی سربراہی میں اسٹیٹ بینگ کے مرکزی بورڈ آف ڈائریکٹرز کا اجلاس کراچی میں ہوا جس میں پالیسی ریٹ کو 10 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ فیصلے میں کلیدی اظہاریوں میں بہتری کی بنا پر معیشت کے اندر اعتماد میں حالیہ اضافے کو مزید تقویت دینے کی ضرورت پر ذور دیا گیا ہے اور مثال پیش کرتے ہوئے بتایا کہ اوسط گرانی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت (CPI) مالی دال 14ء کے دوران یک ہندسی (single.digut) رہی اور اس رجحان کو برقرار رکھنے کے لئے پالیسیوں کی مدد سے اس پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

(جاری ہے)

معاشی سرگرمیاں بہتر ہوئی ہیں اور مزید اصلاحات خصوصاً شعبہ توانائی میں کی جائیں تورفتار مستحکم کرنے میں مدد ملے گی۔ اسی طرح بیرونی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے ساتھ وسط مدت میں زدمبادلہ کے ذخائر بڑھاتے رہنے کے لئے پیدا وار یت اور مسابقت میں بہتری لانا لازمی ہے۔ م س 14ء کے دوران سال بسال گرانی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت متغیر رہی۔ نومبر 2013ء تک یہ تیزی سے بڑھی، پھر چند ماہ تک کم ہوئی اور اپریل 2014ء میں دوبارہ بڑھ کر 9.2 فیصد تک پہنچ گئی۔

جولائی تا اپریل م س 14ء کی مدت کے لئے گرانی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت 8.7 فیصد ہے جو سال کے 8 فیصد ہدف سے بلند ہے۔ اس تغیر کی بنیادی وجہ غزائی نرخوں کا غیر متوقع اتار چڑھاؤ اور مقررہ قیمتوں میں تبدیلیاں ہیں۔ تاہم قوزی گرانی (core inflation) پچھلے 12 ماہ کے دوران ٰخاصی مستحکم تھی اور 8 فیصد لگ بھگ رہی اہم بات یہ ہے کہ زری پالیسی کے نقطہ نظر سے اہمیت گرانی کے امکانات کی ہوتی ہے۔

اسٹیٹ بینک کو توقع ہے کہ م س15ء کے دوران اوسط گرانی بلحاظ اشاریہ قیمت 8 فیصد ہدف سے بلند ہے۔ اس تغیر کی بنیادی وجہ غزائی نرخوں کا متوقع اتار چڑھاؤ اور قیمتوں میں تبدیلیاں ہیں۔ تاہم قوزی گرانی (core unflation) پچھلے 12ء ماہ کے دوران خاصی مستحکم تھی اور 8 فیصد کے لگ بھگ رہی۔ اہم بات یہ ہے کہ زری پالیسی کے نقطہ نظر سے اہمیت گرانی کے امکانات کی ہوتی ہے۔

اسٹیٹ بینک نے اس توقع کا اظہار بھی کیا کہ م س 15ء کے دوران اوسط گرانی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت 8 فیصد کے آس پاس رہے گی بشرطیکہ کوئی خارجی (exogenous) دھچکانہ لگے۔اس جانچ کے حق میں بنیادی عوامل یہ ہیں، معتدل مجموعی طلب، بینکاری نظام سے محدود حکومتی میزانیہ قرض گیری کی بنا پر زروسیع (broad money) کی نمو میں کمی،گرانی کے کم دباؤ کی توقعات جیسا کہ، اسٹیٹ بینک آئی بی اے اعتماد صارفین سروے سے ظاہر ہے اور اجناس کی بین الاقوامی قیمتوں میں استحکام کے امکانات۔

موجودہ معاشی سرگرمیوں کے اظہاریے بھی بہتر دکھائی دے رہے ہیں۔ حقیقی تخمینوں سے م س14ء کے لئے 4.1 فیصد کی منوظاہر ہوتی ہے۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق حوصلہ افزاامریہ ہے کہ اس نموکا بڑا سبب صنعتی شعبے کی پیداوار میں 5.8 فیصد کا اضافہ ہے۔ نجی شعبے کو قرضے کے اعداوشمار کے جائز سے بھی بہتر معاشی سرگرمیوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔ رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ کے دوران نجی شعبے کو خالص قرضے کا بہاؤ گزشتہ سال کی اسی مدت سے تقریبا 2.5 گنازیادہ تھا۔

اسی طرح اس مدت میں ماہانہ اوسط مجموعی قرضوں کی تقسیم، جو قرضے اور پیداوار کے تعلق کا بہتر پیمانہ سمجھی جاسکتی ہے، اس سال لگ بھگ 150 ارب روپے زیادہ تھی۔ ان رحجانات سے پتہ چلتا ہے کہ معاشی سرگرمیوں پر شرح سود کا اثر صرف ایک عامل ہے۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق نجی شعبے کی حوصلہ افزائی کرنے میں احساسات میں بہتری، توانائی کی قدررے بہتر دستیابی اور بینکاری نظام سے حکومتی قرض میں کمی کا کردار ہے۔

تاہم ان رجحانات کو قائم رکھنے کے لئے ضروری اصلاحات پر علمدارآمد کے ذریعے منوکی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کے سلسلے میں مسلسل کوششیں درکار ہیں۔خاص طور پر شعبہ توانائی میں اصلاحات پیداواریت بڑھانے، مالیاتی بوجھ کم کرنے اور درآمدی بل گھٹانے میں بے حد ممدومعاون ثابت ہوسکتی ہیں۔ درآمد اور برآمد میں فرق کی بنا پر جولائی تامارچ م س 14 کے دوران تجارتی خسارہ 12.2 ارب ڈالر کی بلندی سطح پر ہے۔

نیز م س 14 کی تیسری سہ ماہی میں حقیقی مئوثر شرح مبادلہ 8.0(REER) فیصد بڑھ گئی ہے اور آئندہ تجارتی توازن پر اس کے ممکنہ اثرات کا بغور جائزہ لینا ہوگا۔ تاہم بیرونی جاری کھاتے کا خسارہ، جو 2.3 ارب ڈالر ہے، فی الوقت قابو میں معلوم ہوتا ہے جس کی وجہ کارکنوں کی ترسیلات زرمیں بھر پور اضافہ ہے۔ وجہ یہ ہے کہ سرمایہ ومالی کھاتے کا خالص بہاؤ بہتر ہوکر 2.2 ارب ڈالر ہوگیا ہے جس سے توازن ادائیگی کی صوتت حال پر دباؤ خاصا کم ہو ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک آخری مارچ 2014 کے لئے خالص بین الاقوامی ذخائر (NIR) کا آئی ایم ایف کا ہدف آسانی سے پورا کرسکا۔ یورو بانڈ کے اجرا کے نتیجے میں 2 ارب ڈالر کی تخمینے سے بہتر رقم کی آمد اور اپر واوائل مئی 2014 میں کثیر فریقی ذرائع سے دیگر رقوم کو شامل کرنے کے بعد اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر جو آخر مارچ 2014 میں 5.4 ارب ڈالر تھے، 9 مئی 2014 تک بڑھ کر 8.0 ارب ڈالر ہوگئے۔

ذخائر میں یہ نمایا ں اضافہ اور نتیجے کو طور پر بازارمبادلہ کا استحکام معیشت کے اندر اور اس کے بارے میں بہتر احساسات کا اہم اظہاریہ ہے۔ پھر یہ احساسات مزید رقوم کی آمدکا باعث بن سکتے ہیں اور ذخائر میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ اسٹیٹ بینک وسط مدت میں ذخائر کو بہ کفایت سطح پر لے جانے لئے ان میں اضافے کے سلسلے میں اپنا کردار کرنے کا عزم رکھتا ہے۔

مانیٹری پالیسی رپورٹ کے مطابق بجٹ ہدف کے مقابلے میں ٹیکس وصولی میں کمی کے باوجود حکومت جولائی تا مارچ م س 14 کے دوران مالیاتی خسارے کو 3.1فیصد تک روکے رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔ چناچہ یکم جولائی سے 2 مئی م س 14ء کے دوران مالیاتی خسارے کو3.1 فیصدتک روکے رکھنے میں کامیاب رہی ہے، چنانچہ یکم جولائی سے 2 مئی 2014 ء کے دوران بینکاری نظام سے اعانت میزانیہ کے لیے حکومتی قرض گیری کم ہوکر 276 ارب روپے ہوگئی ہے، جبکہ گزشتہ سال کی اسی مدت میں1021 ارب روپے تھی، با الخصوص اسٹیٹ بینک سے حکومتی قرض گیری میں 287 روپے کی خالص واپسی دکھائی دیتی ہے، جبکہ پچھلے سال 393 ارب کا اضافہ ہوا تھا، مزید یہ کہ حکومت آخر مارچ 2014 ء کے لیے اسٹیٹ بینک سے اپنا قرض آئی ایم ایف کے ہدف سے نیچے رکھنے میں کامیاب رہی، ان پہلووٴں کے متوازن جائزے کے پیش نظر اسٹیٹ بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹر نے پالیسی ریٹ میں کوئی تبدیلی نہ کرنے اور 10 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

متعلقہ عنوان :