بھارت کے متوقع وزیراعظم مودی 1950میں گجرات میں پیداہوئے،ریلوے سٹیشن پر چائے بیچتے رہے،والد بھی چائے بیچتے تھے،والدہ لوگوں کے گھروں میں کا م کاج کرتی تھیں،17 سال کی عمر میں شادی ہوئی لیکن میاں بیوی کبھی ساتھ نہیں رہے،سیاسی تربیت آر ایس ایس میں ہوئی ، 2001 میں پہلی مرتبہ گجرات کے وزیر اعلیٰ بنے،مشکل وقت میں ساتھ دینے والے ایڈوانی کے وزیراعظم بننے کے عندیہ پر علیحدگی حاصل کرلی،دنیاکے طویل ترین جمہوری انتخابات میں جماعتی بنیادوں کی بجائے مودی کے نام پر الیکشن لڑاگیا،مسلم کش فسادات کے بعد متنازعہ ہوگئے،ہندوجماعتوں میں بھی دشمن پال رکھے ہیں

ہفتہ 17 مئی 2014 07:46

نئی دہلی(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔17مئی۔2014ء)بھارت کے نئے متوقع وزیراعظم نریندر دامودر داس مودی متنازع شخصیت کے مالک ہیں اور ان کے چاہنے والے اور انھیں ناپسند کرنے والے دونوں ہی اپنی محبت اور نفرت میں حد سے گزر جاتے ہیں،17 سال کی عمر میں شادی ہوئی لیکن دونوں کبھی ساتھ نہیں رہے،مودی کے مخالفین انھیں تفرقہ پیدا کرنے والی شخصیت گردانتے ہیں، جبکہ چاہنے والوں کے لیے ان کے کئی اوتار ہیں، کہیں وہ ہندوتوا کے پوسٹر بوائے ہیں، تو کہیں تبدیلی اور اقتصادی ترقی کی علامت، یا پھر ایک ایسے مضبوط رہنما جو ملک کی تقدیر بدل دیں گے،بھارتی میڈیاکی رپورٹ کے مطابق مودی کی سیاسی زندگی جتنی سرخیوں میں رہی ہے.

ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں لوگ اتنا ہی کم جانتے ہیں وہ شادی شدہ ہیں لیکن ہمیشہ اکیلے رہے ہیں ان کے تین بھائی بھی ہیں اور والدہ بھی حیات سے ہیں، لیکن وہ اپنے خاندان سے زیادہ واسطہ نہیں رکھتے،مودی کا جنم 17 ستمبر 1950 کو گجرات کے مہسانہ ضلع میں ایک غریب خاندان میں ہوا تھا، ان کے والد دامودر داس ریلوے سٹیشن پر چائے بیچتے تھے اور والدہ ہیرا بین گزر بسر میں مدد کے لیے لوگوں کے گھروں میں کام کرتی تھیں،بچپن میں خود نریندر مودی اپنے والد کے ساتھ ٹرینوں میں چائے بیچا کرتے تھے اس الیکشن میں انھوں نے اپنے ’غریب بیک گراوٴنڈ‘ کا بھرپور فائدہ اٹھایا، یعنی ایک چائے بیچنے والا جو ایک ’شہزادے‘ (راہول گاندھی) کو چیلنج کر رہا ہے،ان کے سوانح نگار کے مطابق بچپن میں ان کے ذہن میں سنیاسی بننے کا بھی خیال آیا تھا اور وہ کچھ دن راماکرشن مشن میں بھی جا کر رہے 17 سال کی عمر میں جشودا بین سے ان کی شادی ہوئی لیکن دونوں کبھی ساتھ نہیں رہے.

انھوں نے جوانی میں ہی ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس میں شمولیت اختیار کر لی تھی اور 70 کی دہائی سے پرچارک یا تنظیم کے مبلغ کے طور پر کام کر نا شروع کر دیا۔

(جاری ہے)

ان کی سیاسی تربیت آر ایس ایس میں ہی ہوئی لیکن اب ان کے کاروبار نواز اقتصادی نظریے اور آر ایس ایس کے ’سودیشی‘ کے تصور میں براہِ راست تضاد ہے۔ وہ کئی بڑے صنعتی گھرانوں کے قریب مانے جاتے ہیں اور اس الیکشن میں کارپوریٹ انڈیا نے ان کی زبردست حمایت کی ہے،مودی کو شروع سے ہی بی جے پی کے لیڈر لال کرشن اڈوانی کی سرپرستی حاصل رہی اور انھی کی مدد سے وہ 2001 میں پہلی مرتبہ گجرات کے وزیر اعلیٰ بنے،1991 میں جب رام مندر کی تعمیر کے لیے اڈوانی نے ملک گیر رتھ یاترا نکالی تھی تو اس کا انتظام نریندر مودی نے ہی سنبھال رکھا تھا،لیکن مودی کے وزیر اعلی کے چند ہی مہینوں بعد فروری 2002 میں گجرات میں ہندو مسلم فسادات ہوئے جو آج تک ان کے گلے کی ہڈی بنے ہوئے ہیں.

فسادات میں سینکڑوں مسلمانوں کو شہید کیاگیااور مودی پر الزام ہے کہ انھوں نے خونریزی روکنے کے لیے کوئی کارروائی نہیں کی،خیال کیا جاتا ہے کہ فسادات روکنے میں ناکامی کی وجہ سے اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی چاہتے تھے کہ مودی استعفی دے دیں لیکن ایل کے اڈوانی نے ان کی کرسی بچائی،لیکن جب سے مودی نے وزیر اعظم کی کرسی کے لیے اپنے عزائم کا عندیہ دیا، تو اڈوانی سے ان کے تعلقات بگڑنا شروع ہوگئے انھوں نے ایک مرتبہ پھر اپنی آمرانہ شخصیت کی جھلک پیش کرتے ہوئے اڈوانی، سشما سوراج اور مرلی منوہر جوشی جیسے سینیئر رہنماوٴں کو کنارے کر دیا۔