جی تھری اور جی فور کے کامیاب بولی دہندگان کمپنی کاود ہولڈنگ ٹیکس نہ جمع کرانے پر 22مئی کے بعد لائسنس منسوخ کر دیا جائیگا ، چیئرمین پی ٹی اے ،31 جولائی کے بعد ملک بھر میں موبائل سم بائیو میٹر ک سسٹم کے بغیر نہیں ملے گی، افغان سمز کو بند کرنے کا اختیار وفاقی حکومت کا ہے،غیر قانونی کالز سے بارہ ملین ڈالر ماہانہ نقصان ہو رہا ہے،اسماعیل شاہ کا اجلاس میں انکشاف

جمعہ 16 مئی 2014 07:30

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔16مئی۔2014ء )سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کابینہ سیکریٹریٹ کے اجلاس میں چیئر پرسن کمیٹی سینیٹر کلثوم پروین نے یو ایس ایف کے حکام کی مسلسل غیر حاضری پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق کمپنیوں کے جمع کروائے گئے فنڈز کو صرف کمیونیکیشن ڈویلپمنٹ کی مد میں استعمال کیا جا سکتا ہے اور دوسرے مقاصد کیلئے استعمال پر پابندی ہے ۔

یو ایس ایف کے حکام آئندہ اجلاس میں نہ آئے تو کمیٹی کی جانب سے ایوان میں تحریک استحقاق لائیں گے۔عدم شرکت سے ثابت ہو گیا ہے کہ دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ ساری دال ہی کالی ہے جبکہ چیئرمین پی ٹی اے اسماعیل شاہ نے کمیٹی کو آگاہ کیاکہ جی تھری اور جی فور کی کامیاب بولی دہندگان کے 120ملین ڈالر کے دس فیصد ود ہولڈنگ جمع نہ کرانے والی کمپنی کا 22مئی کی آخری تاریخ پر لائسنس منسوخ کر دیا جائیگا ،زونگ نے سو فیصد ادائیگی میں دلچسپی ظاہر کی ہے یوفون اور ٹیلی نار پچاس فیصد ادائیگی کرنا چاہتی ہیں دونوں کمپنیاں بقایا رقم پانچ سال میں سود کیساتھ جمع کرائیں گی 31 جولائی کے بعد ملک بھر میں کوئی بھی موبائل سم بائیو میٹر ک سسٹم کے بغیر نہیں ملے گی.

افغان سمز کو بند کرنے کا اختیار وفاقی حکومت کا ہے اور انکشاف کیا کہ غیر قانونی کالز سے بارہ ملین ڈالر ماہانہ نقصان ہو رہا ہے ۔

(جاری ہے)

جمعرات کے روز کمیٹی کا اجلاس چیئرپرسن کمیٹی سینٹر کلثوم پروین کی سربراہی میں پارلیمنٹ ہاوٴس میں ہوا۔ اجلاس میں سینیٹرز ڈاکٹرسعیدہ اقبال روبینہ خالد ، صغریٰ امام ، کامل علی آغا ، مشاہد اللہ خان ، یوسف بادینی ، سیف اللہ بنگش ، باز محمد خان کے علاوہ پی ٹی اے کے چیئر مین اسماعیل شاہ ، ممبرفنانس پی ٹی اے نے بھی شرکت کی ۔اس موقع پر چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی( پی ٹی اے)اسماعیل شاہ نے کمیٹی کو بتایا کہ 2013میں پی ٹی اے ریگولیٹری اتھارٹی بنائی گئی بورڈ نہ مکمل ہونے سپریم کورٹ کے نوٹس پر اتھارٹی مکمل کی گئی میں خود اور دو عارضی ممبران تھے وزیر اعظم نے اب وزیر خزانہ اسخاق ڈار کو تعیناتیوں کو اختیار دے دیا گیا ہے اور وزیر خزانہ بورڈ ممبران کیلئے انٹرویو کر رہے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے بھی بورڈ مکمل کرنے کی اجازت دے دی ہے ۔

چیئر مین پی ٹی اے اسماعیل شاہ نے کہا کہ حکومت نے ملازمتوں پر پابندی لگائی ہوئی ہے جسکی وجہ سے کیبنٹ ڈویژن کے ذریعے وزیر اعظم سے پی ٹی اے کے ذریعے پابندی اٹھانے کا خط لکھا ہے ۔تاکہ پی ٹی اے کو مکمل طور پر فنکشنل کیا جا سکے اور آگاہ کیا دباوٴ تھا کہ 20سال کا لائسنس دیا جائے لیکن پی ٹی اے نے اجازت نہیں دی سر بمہر لفافوں میں بولی دہندگان کو نیلامی میں شمولیت کی اجازت تھی اور سپیکٹرم کے کچھ حصے کمپنیوں کو خریدنے کا موقع دیا گیا اور کیس بھی فرم اور کمپنی پورا سپیکٹرم فروخت نہیں کیا۔

مقابلے کی فضاء کی وجہ سے نیلامی مکمل شفاف تھی ۔کامیاب بولی دہندگان کے 120ملین ڈالر کے دس فیصد ود ہولڈنگ جمع نہ کرانے والی کمپنی کا 22مئی کی آخری تاریخ پر لائسنس منسوخ کر دیا جائیگا اور بتایا کہ تھری جی فور جی کی نیلامی ون پوائنٹ ون ٹو بلین ڈالر میں ہوئی زونگ نے سو فیصد ادائیگی میں دلچسپی ظاہر کی ہے یوفون اور ٹیلی نار پچاس فیصد ادائیگی کرنا چاہتی ہیں دونوں کمپنیاں بقایا رقم پانچ سال میں سود کیساتھ جمع کرائیں گی 31 جولائی کے بعد ملک بھر میں کوئی بھی موبائل سم بائیو میٹر ک سسٹم کے بغیر نہیں ملے گی کراچی اور بلوچستان میں بائیو میٹرک نظام نافذ کر دیا گیا ہے ۔

افغان سمز کو بند کرنے کا اختیار وفاقی حکومت کا ہے اور انکشاف کیا کہ غیر قانونی کالز سے بارہ ملین ڈالر ماہانہ نقصان ہو رہا ہے ۔ تھری جی فور جی سے نو لاکھ افراد کو روزگار فراہم ہو گا تیس میگا ہاٹز میں سے جی فور کے لئے دس میگا ہاٹس خریدنے کی پابندی تھی ۔ سینیٹر سیف اللہ بنگش نے کہا کہ دو بلین کے سپیکٹرم کم لاگت پر پاکستان میں موجود کمپنیوں میں تقسیم کر دیا گیا ایک بین الاقوامی کمپنی نے بولی میں حصہ نہیں لیا جس سے شک و شہبات نے جنم لیا اور سوال کیا کہ دس فیصد بر وقت ادائیگی نہ کرنے والی کمپنی عدالتوں سے حکم امتناہی بھی لے سکتی ہے ۔

سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ موبائل فون کارڈ ز سے پچیس فیصد کٹوتی کے بارے میں تیس سال سے میرے سوال کا جواب نہیں دیا جار ہا، روزانہ اربوں روپے کے کارڈ فروخت کرنے والی کمپنیوں کو حاصل ہونے والی رقم کہاں جا رہی ہے ایف بی آر جواب نہیں دے رہا اور پی ٹی اے خاموش ہے ۔پی ٹی اے کے چیئر مین اسماعیل شاہ نے جواب دیا کہ ٹیکس کا بنیادی میکنزم ایف بی آر کے پاس ہے اور ممبر فنانس پی ٹی اے نے کہا کہ 2001کے انکم ٹیکس ایکٹ کے تحت کمپنیاں انکم ٹیکس ایف بی آر کو جمع کرانے کی پابند ہیں ۔

چیئر پرسن سینیٹرکلثوم پروین نے کہا کہ سینیٹر کامل علی آغا کے سوال کے جواب میں چیئر مین ایف بی آر نے آگاہ کیا تھا کہ سنتالیس ارب روپے کمپنیوں کی طرف بقایا ہیں جو اب سو ارب سے زائد ہو چکے ہونگے کھربوں ڈالر کمانے والی کمپنیاں ادائیگیوں سے انکار ی ہیں ۔ سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ پی ٹی اے ریگولیٹری اتھارٹی ہے قوم سے ٹیکس لیا جا رہا ہے ایف بی آر کمپنیوں سے وصولیاں نہیں کر رہا اور پی ٹی اے مجبور نہیں کر رہا ۔

ممبر فنانس پی ٹی اے نے کہا کہ پی ٹی اے ایکٹ سے ٹیکس کا کوئی تعلق نہیں انکم ٹیکس قوانین کے تحت ٹیکسسز ایف بی آر وصول کرتا ہے سینیٹر روبینہ خالد ، سینیٹر ہمایون مندوخیل ، سینیٹر سعیدہ اقبال نے کہا کہ دونوں ادارے حکومتی ہیں جو کمپنی سروس فروخت کرتی ہے قانون و قواعد کے تحت سیلز ٹیکس جمع کرانے کی پابند ہے ۔

موبائل کارڈ فروخت کرنے والی کمپنیوں سے ایف بی آر وصولیاں بمعہ سود کرے ۔

چیئر پرسن سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ ایف بی آر لازماً کٹوتی کرے اور اگر پی ٹی اے کو قانون سازی کے ذریعے بااختیار بنانے کی ضرورت ہے تو ممبران پارلیمنٹ مدد کرنے کیلئے تیار ہیں ۔ سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ ایف بی آر کی سابقہ کارکردگی قابل ذکرنہیں، کھربوں کی چوری ہو رہی ہے روزانہ اور ماہانہ کارڈ کی فروخت کا اندازہ لگا کر کمپنیوں سے وصولیاں کی جائیں ۔

سینیٹر ہمایوں مندوخیل اور سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ پچھلے اجلاس میں پی ٹی اے نے معاہدہ پڑ کر سنایا تھا کہ کمپنیاں ایف بی آر کو ٹیکس ادا کرنے کی پابند ہیں ۔معاہدوں کی خلاف ورزی پر کارروائی کی جائے مجرمانہ غفلت کی وجہ سے وصولیاں نہیں ہو رہیں ۔ سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ بہت بڑا خزانے کا گھپلا کیا جا رہا ہے اب ریگولیشن کہاں ہو رہی ہے اور سوال اٹھا یا کہ کیا موبائل کارڈ ز کی فروخت کا ریکارڈ پی ٹی اے کے کمپیوٹر سرور میں نہیں آتا جس میں پی ٹی اے کے چیئر مین نے کہا کہ کارڈ فروخت کا ریکارڈ ہمارے سسٹم میں نہیں آتا ۔

سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ ایسا نظام واضح کیا جائے کہ موبائل کارڈز کی فروخت پی ٹی اے کے ذریعے ہو تاکہ ایف بی آر کو وصولیاں ہو سکیں جس پر چیئر پرسن سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ ایف بی آر نے پی ٹی اے کی طرف سے 47ارب روپے کی وصولی سے انکار کر دیا ہے جو وصولی ہو چکی ایف بی آر سے وصولی بمع سود لی جائے ۔سینیٹر سعیدہ اقبال نے کہا کہ میڈیا رپورٹ کے مطابق سپیکٹرم کی نیلامی شفاف نہ تھی پی ٹی اے کی طر ف سے تردید نہ کرنے کا مطب سچائی لیا جا رہا ہے۔

سینیٹر ہمایوں مندوخیل نے کہا کہ کمپنیاں نمبر ملنے سے قبل چارچنگ شروع کر دیتی ہیں اور گھنٹی شروع ہونے کیساتھ ہی ٹیکس کی کٹوتی شرو ع ہو جاتی ہے حالانکہ گفتگو شروع ہونے پر ٹیکس اور کٹوتی کی جانی چاہیے ۔پی ٹی اے کے چیئرمین اسماعیل شاہ نے کہا کہ یہ شکایت عام ہیں جلد تدارک کریں گے ۔چیئر پرسن سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ وفاقی وزیر داخلہ نے جعلی سموں کو ایٹم بم قرار دیا ہے ۔

لاکھوں جعلی سمز موجود ہیں گرے ٹریفک کے ذریعے ملک کو اربوں کا نقصان پہنچایا جا رہا ہے جس پر حکومتی رکن سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ کراچی میں منعقد ہونیوالے اجلاس جس میں وزیر اعظم چیف آف آرمی سٹاف ڈی جی آئی ایس آئی موجود تھے ۔ ایڈیشنل آئی جی سندھ نے کہا کہ اگر جعلی موبائل سمز بند ہو جائیں تو کراچی میں پچاس فیصد جرائم میں کمی آ سکتی ہے ۔

پی ٹی اے کے چیئر مین اسماعیل شاہ نے کہا کہ 2013ء کی انتخابی فہرستوں میں خواتین کے شناختی کارڈ اور ناموں سے جعلی موبائل سمیں جاری کروائی گئیں اور بتایا کہ ایک جعلی ٹیلی فون پر ایف آئی اے کیساتھ چھاپا مارا تو عدالت سے حکم امتناعی حاصل کر لیا گیا ۔ سپریم کورٹ نے میری سربراہی میں ٹاکس فورس بنانے کا حکم کر دیا ہے اب ایک موبائل فون پر پانچ سمز سے زائد استعمال نہیں ہو سکتا اور موبائل فون کے ای ایم ای آئی کے ذریعے فون اور سم دونون کی نشاندہی کی جا سکتی ہے ۔

پی ٹی اے نے سمز باکس ڈیٹیکشن سسٹم بنا لیا ہے روزانہ ایک ہزار جعلی نمبروں کی نشاندہی کی جا سکتی ہے ۔سینیٹر صغری ٰ امام نے گرے ٹریفک کے ذریعے اربوں کے نقصانا ت پرتحفظات کا اظہار کیا اور پی ٹی اے کی طر ف سے سخت اقدامات تجویز کیے ۔ اراکین کمیٹی نے متفقہ طور پر آئندہ اجلاس میں ایف بی آر، یو ایس ایف اور موبائل کمپنیوں کے سی اوز کو بھی طلب کرنے کا متفقہ فیصلہ کیا۔