سپریم کورٹ میں مالاکنڈ سے لاپتہ 35افراد کے کیس کی سماعت 26 مئی تک ملتوی ، بتایا جائے ڈپٹی کمشنر کس بنیاد پر آرمی حکام کی مقدمے کی منتقلی کی درخواست کا فیصلہ کرسکتا ہے؟ اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل کے پی سے جواب طلب، شہریوں کی آزادی کا تحفظ صوبائی حکومت کی بھی ذمہ داری ہے،جسٹس جواد ایس خواجہ، حاضر سروس اہلکاروں کیخلاف مقدمے کے اندراج میں کوئی شک نہیں فیصلہ یہ کرنا ہے کہ ٹرائل عام عدالت کرے گی یا فوجی عدالت ؟ریمارکس،آئین اور آرمی ریگولیشن کے مطابق فوجی اہلکاروں کیخلاف ایف آئی آر درج ہوسکتی ہے، اٹارنی جنرل

جمعہ 16 مئی 2014 07:24

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔16مئی۔2014ء) سپریم کورٹ نے مالاکنڈ سے لاپتہ 35افراد کے کیس کی سماعت 26 مئی تک ملتوی کرتے ہوئے فوجی ا ہلکاروں کیخلاف مقدمے بارے عام اور فوجی عدالت کے اختیارات بارے اہم آئینی اور قانونی سوالات سے اٹارنی جنرل پاکستان اور اے جی کے پی کے سے جوابات مانگ لئے ہیں اور کہا ہے کہ بتایا جائے ڈپٹی کمشنر کس بنیاد پر آرمی حکام کی جانب سے مقدمے کی منتقلی کی درخواست کا فیصلہ کرسکتا ہے؟ کیا عام عدالت فوجی حکام کی جانب سے مقدمے کی منتقلی بارے درخواست منظور کرسکتی ہے؟ کیا عام عدالت کو فوجداری کیس فوجی عدالت میں منتقل کرنے کا اختیار حاصل ہے؟ان سوالات کے جوابات جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے جمعرات کو دوران سماعت طلب کئے ہیں جبکہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ شہریوں کی آزادی کا تحفظ وفاق کے ساتھ صوبائی حکومت کی بھی ذمہ داری ہے، حاضر سروس فوجی اہلکاروں کیخلاف مقدمے کے اندراج میں کوئی شک و شبہ نہیں فیصلہ یہ کرنا ہے کہ ان کا ٹرائل عام عدالت کرے گی یا اس کا مقدمہ فوجی عدالت میں چلے گا ۔

(جاری ہے)

فوجی اہلکار کو فوجی حکام کے حوالے سے متعلق بھی قواعد ہونے چاہئیں، مجسٹریٹ خود کو کمانڈنٹ افسر کا ماتحت نہ سمجھے اور اسے فوجی اہلکاروں کی حوالگی سے متعلق وجوہات بیان کرنا ہوں گی ۔ مجسٹریٹ کو بھی اپنا ذہن استعمال کرنا ہوگا ۔ انہوں نے یہ ریمارکس گزشتہ روز دیئے ہیں ۔35لاپتہ افراد کیس کی سماعت کے دوران سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج اور مقدمہ کیس عدالت میں چلائے جانے بارے اٹارنی جنرل سلیمان اسلم بٹ نے اپنا جواب اور قانونی نکات پر مشتمل فارمولیشن عدالت میں پیش کردی ہے اور کہا ہے کہ ملک کے آئین اور پاکستان آرمی ریگولیشن کے مطابق مسلح افواج کے اہلکاروں کیخلاف ایف آئی آر کا اندراج ہوسکتا ہے اس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں کہ حاضر سروس فوجی اہلکاروں کیخلاف مقدمہ تو درج ہوسکتا ہے مگر یہ سوال جواب طلب ہے کہ حاضر سروس اہلکاروں کا ٹرائل فوجی عدالت میں ہو یا سول عدالت میں؟ ، فوجی اہلکار کو فوجی حکام کے حوالے سے متعلق بھی قواعد ہونے چاہئیں ، مجسٹریٹ خودکو کمانڈنٹ افسر کے ماتحت نہ سمجھے اسے فوجی اہلکاروں کی حوالگی سے متعلق وجوہات بیان کرنا ہوں گی اور اپنا ذہن استعمال کرنا ہوگا یہ تو نہیں ہوسکتا کہ اس کے پاس آرمی کی جانب سے کوئی درخواست آئے اور وہ اس پر اپنا ذہن استعمال کئے بغیر کیسے اس درخواست کو منظور یا مسترد کیا جاسکتا ہے، یہاں تو ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے اعلیٰ حکام کو مجسٹریٹ کا عہدہ اتنا بڑا نہیں لگتا جبکہ اے جی کے پی کے لطیف یوسفزئی نے بھی اپنی فارمولیشن میں بتایا ہے کہ آرمی سے متعلقہ حاضر سروس اہلکاروں کیخلاف مقدمہ درج ہوسکتا ہے تاہم ٹرائل بارے دیکھنا پڑے گا کہ کون سی عدالت میں ہوگا؟ جسٹس جواد نے کہا کہ ہم آپ کی فارمولیشن میں کچھ تبدیلی کرنا چاہتے ہیں اور یہ سب ہم وقفے کے دوران غور کے بعد ہی کرینگے کیس کی سماعت ہم کسی اور تاریخ کی بھی مقرر کرسکتے ہیں جس میں ہم اس معاملے کی تفصیل سے سماعت کرینگے ۔

بعد ازاں دوبارہ سے سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کمیشن نے رپورٹ دے دی ہے جس میں بہت کچھ واضح ہوچکا ہے۔ایک لاپتہ شخص کے بھائی محبت شاہ سے جسٹس جواد نے پوچھا کہ کسی نے آپ سے رابطہ کیا ہے تو محبت شاہ نے بتایا کہ یاسین شاہ کے حوالے سے ایک بار رابطہ ہوا تھا،جسٹس جواد نے کہا کہ دو مہینوں میں درج باتیں ہی درج ہوں گی کہ سرکار کا ذمہ ہے کہ وہ کچھ تو اصول وضع کرے ۔

ڈی پی او مالاکنڈ آیا ہے یا نہیں،صوبائی حکومت اس کا جائزہ لے ، صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی آزادی کا تحفظ کرے صوبائی حکومت اپنا حق ادا کرے کسی کے کہنے پر تو محض سن کر خالی کارروائی نہ کرے ۔ اس حوالے سے کوئی پیش رفت رپورٹ آئی ہے عدالت نے اپنے حکم نامے میں لکھوایا کہ ایف آئی آر نمبر درج ہے 25مارچ 2013ء کو جنرل آفسر کمانڈنگ ہیڈکوارٹر آپریشنل کی جانب سے ایک درخواست مجسٹریٹ کو ارسال کی گئی تھی جس میں فوجداری کیس کو منجمد کرنے کو کہا گیا تھا اور مقدمے کو فوجی عدالت منتقل کرنے کی استدعا کی تھی عدالت نے پوچھا کہ نائب صوبیدار امان اللہ کس کی تحویل میں تھا؟ تو اس پر اے جی کے پی کے نے بتایا کہ ابھی بھی اس کی حوالگی نہیں ہوئی تھی کہ اس دوران آرمی حکام کی درخواست آئی تھی 27 مارچ 2013ء کو ڈپٹی کمشنر جو کہ کمانڈنٹ لیویز بھی تھے، نے آرمی حکام کی درخواست وصول کی اور اس پر عملدرآمد کیا۔

جس کے نتیجے میں مقدمہ مالاکنڈ میں زیر سماعت ہے جبکہ ضروری دستاویزات فوجی حکام کو منتقل کر دی گئی ہیں،یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ آرمی حکام کی درخواست پر فوجداری مقدمے کی ان کی طرف منتقلی سے بڑی تعداد میں آئینی پرویژنز جن میں سیکشن 94 آرمی ایکٹ ،549 سیکشن فوجداری قوانین اور آرمی ریگولیشنز کی تشریح ضروری ہے سیکشن 95،96 آرمی ایکٹ اور ریگولیشن 374 بھی تشریح چاہتی ہے،بادی النظر میں آرمی حکام کی مقدمے کی حوالگی کی درخواست ڈپٹی کمشنر کیلئے منظور کرنے پر پابندی نہیں تھی ۔

اس کیس کو عام عدالت میں فوجداری قوانین کے تحت ٹرائل کرے گی یا فوجی عدالت میں یہ مقدمہ چلے گا اس بارے اٹارنی جنرل اور اے جی کے پی کے سے فارمولیشن مانگی گئی تھی ڈپٹی کمشنر مالاکنڈ بھی مقدمے کو کلوز کرنے بارے تفصیل سے بتائے کہ آخر اس سے مقدمہ کیوں منتقل کیا ہے؟ 25مارچ 2003ء کے خط میں شہادت موجود ہے کہ بھجوائی گئی درخواست پر ڈپٹی کمشنر نے کیا ردعمل ظاہر کیا ہے ان حالات میں آئینی اور قانونی طور پر چند سوالات اٹھتے ہیں جن کی فارمولیشن کی گئی ہے ۔

نمبر1 جب ایک شخص فوجداری قوانین کے تحت ملزم قرار پاتا ہے تو وہ پاکستان آرمی میں کام کررہا ہے کیا عام فوجداری عدالت جو ضابطہ فوجداری کے تحت قائم ہوتا ہے وہ اس کا ٹرائل کرسکتی ہے یا اس کی سماعت آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالت میں ہوگی ۔ نمبر2 کیا عام فوجداری عدالت مالاکنڈ آرمی حکام کی جانب سے بھجوائی جانے والی درخواست منظور کرنے کی پابند ہے اور کیا اس کے پاس صوابدیدی اختیارات ہیں کہ وہ اس معاملے پر آرمی حکام کی استدعا کا فیصلہ کرتے ہوئے مقدمہ آرمی عدالت میں منتقل کرسکے۔

نمبر 3 اگر یہ عام فوجداری عدالت ہے جو اپنی صوابدیدی اختیار استعمال کررہی ہے آرمی حکام کی درخواست کو قبول کرتی ہے وہ کس طرح سے اور کس قانون کے تحت یہ مقدمہ منتقل کرسکتی ہے۔ نمبر 4 کیا اس میں کوئی ایشو اٹھتا ہے اور اس کے آرمی حکام پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟ عدالت نے حکمنامے میں مزید کہا ہے کہ اٹارنی جنرل اور اے جی کے پی کے ان سوالات اور آئینی و قانونی نکات پر عدالت کی معاونت کریں اس کیس کی مزید سماعت دو ہفتوں بعد کی جائے گی جسٹس جواد نے کہا کہ عابدہ ملک کیس میں اس حوالے سے کافی حد تک دلائل ہوچکے تھے منیر اے ملک جو سابق اٹارنی جنرل تھے نے بھی دلائل مکمل کرلئے تھے آرمی حکام نے سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کی تھی اس کیس میں انعام الرحیم اور فیصل صدیقی نے دلائل تیار کئے تھے آرمی حکام نے اپنا عذر بتایا تھا کہ انہیں آرمی حکام کیخلاف مقدمہ درج کرانے بارے کیا تحفظات ہیں عدالت نے سماعت چھبیس مئی تک ملتوی کردی ۔

متعلقہ عنوان :