وزارت خزانہ نے تیل کمپنیوں اور آئی پی پیز کو جو براہ راست ادائیگی کی ہے جو غیر آئینی‘ غیر قانونی ہے، وزارت خزانہ کسی بھی صورت میں براہ راست سٹیٹ بینک کو ادائیگی کرنے کیلئے نہیں کہہ سکتی،آڈیٹر جنرل اختر بلند رانا کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بریفنگ،حکومتی جماعت کے ارکان بپھرگئے ، شدید ردعمل کا اظہار، چیئرمین خورشید شاہ نے کسی قسم کے الفاظ حذف کرنے کا ان کامطالبہ مسترد کر دیا

جمعرات 15 مئی 2014 07:23

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔15مئی۔2014ء)آڈیٹر جنرل اختر بلند رانا نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بتایا ہے کہ وزارت خزانہ نے تیل کمپنیوں اور آئی پی پیز کو جو براہ راست ادائیگی کی ہے جو غیر آئینی‘ غیر قانونی ہے، وزارت خزانہ کسی بھی صورت میں براہ راست سٹیٹ بینک کو ادائیگی کرنے کیلئے نہیں کہہ سکتی۔اس پر حکومتی جماعت کے ارکان بپھرگئے اور شدید ردعمل کا اظہار کیا تاہم چیئرمین خورشید شاہ نے کسی قسم کے الفاظ حذف کرنے کا ان کامطالبہ مسترد کر دیا۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس بدھ کو چیئرمین سید خورشید شاہ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ اجلاس میں وزارت پانی و بجلی کے مالی سال 2011-12 ء کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔ آڈٹ حکام نے بتایا کہ رینی کنال منصوبے میں ساڑھے تین کروڑ روپے کے کام پر 85 کروڑ روپے خرچ کئے گئے اس حوالے سے انکوائری کرکے رپورٹ پیش کی جانا تھی’ سیکرٹری پانی و بجلی نے کہا کہ ہمیں تحریری ہدایات تاخیر سے ملیں اس لئے ہم نے کمیٹی بنا دی ہے اور ایک ماہ میں رپورٹ دے دی جائیگی۔

(جاری ہے)

کمیٹی کو بتایا گیا کہ خان خواڑ کا دس ارب کے منصوبے پر ایک کام کیلئے ٹھیکیدار نے تین ارب روپے کا دعویٰ کیا تاہم انتظامیہ نے اس سے بات کرکے 1.1ارب روپے پر کام طے کرلیا۔ آڈٹ نے بتایا ہے کہ انجینئر کی تخمینہ رپورٹ شامل نہیں ہے کس بنیاد پر ٹھیکیدار کے ساتھ معاملات طے کیے گئے۔ سیکرٹری نے کہا کہ آڈٹ اعتراض تھا کہ اس ادائیگی میں انجینئر کی تخمینہ رپورٹ شامل نہیں ہے وہ ہم نے آڈٹ کو دے دی ہے ہمیں پی اے سی کی جانب سے انکوائری کرنے کے کوئی تحریری احکامات نہیں ملے ہیں ۔

رکن کمیٹی عذرا مغل نے کہا کہ کمیٹی کے منٹس وزارتوں کے ساتھ شیئر کیے جائیں’ واپڈا حکام نے بتایا کہ اپریل 2010 ء میں جب یہ منصوبہ مکمل ہورہا تھا اس وقت کلیم انجینئر کے پاس موجود تھا یہ منصوبہ 2003 ء میں شروع ہوا ۔ ٹھیکیدا نے کہا کہ کام مکمل ہورہا ہے میں نے ادائیگیاں کرنی ہیں اس لیے مجھے پیسے دیئے جائیں جس پر واپڈا نے کمیٹی بنائی۔ کمیٹی کے استفسار پر بتایا گیا کہ اس منصوبے کی بنیادی لاگت پانچ ارب روپے تھی جو مکمل ہونے تک دس ارب روپے ہوگئی۔

کمیٹی نے اس معاملے پر آئندہ اجلاس میں مزید تفصیلات طلب کرلی ہیں۔چیئرمین کمیٹی سید خورشید شاہ نے کہا کہ ممبران براہ راست بات کرنے کی بجائے چیئر کے ذریعے بات کریں۔ واپڈا حکام نے بتایا کہ زلزلے کی وجہ سے منصوبے کا نقشہ بھی تبدیل ہوا ہے کمیٹی کو بتایا گیا کہ آلائی کھواڑ منصوبے پر سڑک کی اپ گریڈیشن کے منصوبے پر 9 کروڑ 93 لاکھ کا ٹھیکہ دیا مگر ٹھیکیدار کام مکمل نہیں کر سکا۔

صرف چار کروڑ 22 لاکھ کا کام کیا۔ باقی ماندہ کام پانچ کروڑ 21 لاکھ روپے کے ٹھیکے پر دیا گیا۔ پرانے کنٹریکٹر سے باقی ماندہ رقم ریکور نہیں کی گئی۔ سیکرٹری پانی و بجلی نے کہا کہ ہم آئندہ ہفتے انکوائری مکمل کرکے رپورٹ دے دیں گے۔ آڈٹ حکام نے بتایا کہ نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن کمپنی نے ایک ہی وقت دو ٹھیکے دیئے جو ایک جیسی تار خریدنے کیلئے تھے مگر دونوں کے ریٹ مختلف تھے اور ایک کمپنی سے سستا اور ایک کمپنی سے مہنگا ٹھیکہ کیا گیا کمیٹی نے کہاکہ ایسی کیا وجہ تھی کہ ایک وقت میں ایک ہی چیز کی خریداری کے لیے کیوں ٹھیکے دیئے گئے۔

سیکرٹری پانی و بجلی نے کہا کہ واپڈا کو فوری ضرورت کیلئے سامان رکھنا پڑتا ہے جیسے منگل کو گوجرہ میں مین گرڈ میں آگ لگ گئی اور 18 فیڈرز کو نقصان پہنچا۔ کمیٹی نے دو علیحدہ علیحدہ ٹھیکے دینے کے معاملے پر انکوائری رپورٹ طلب کرلی۔ آڈیٹر جنرل اختر بلند رانا نے کہاکہ وزارت خزانہ نے تیل کمپنیوں اور آئی پی پیز کو جو براہ راست ادائیگی کی ہے جو غیر آئینی‘ غیر قانونی ہے۔

وزارت خزانہ کسی بھی صورت میں براہ راست سٹیٹ بینک کو ادائیگی کرنے کیلئے نہیں کہہ سکتی۔ آڈٹ حکام نے بتایا کہ 2003 ء میں وزارت خزانہ نے تیل کی مد میں براہ راست پی ایس او کو 80 کروڑ بیس لاکھ روپے کی ادائیگی کی ۔ اس حوالے سے جب وزارت قانون سے رائے مانگی تو انہوں نے کہا کہ س وقت ہم کوئی رائے نہیں دے سکتے۔ سید نوید قمر نے کہا کہ وزارت قانون اگر ہمیں یہاں رائے نہیں دے سکتی تو ان کا کیا فائدہ ہے۔

آڈیٹر جنرل نے کہا کہ آئی پی پیز اور گردشی قرضوں کی مد میں ادائیگیاں غیر آئینی و غیر قانونی ہیں قومی خزانے سے آڈیٹر جنرل کی اجازت کے بغیر رقم نکالی نہیں جاسکتی جس پر حکومتی اراکین بپھر گئے اور کہا کہ آڈیٹر جنرل اجلاس میں کوئی آئی پی پیز کی بات کرتے ہیں ان کے الفاط کو حذف کیا جائے تاہم مسلم لیگ ن کے اراکین کے مطالبے کے باوجود چیئرمین کمیٹی نے آڈیٹر جنرل کے الفاظ کو حذف نہیں کیا۔

آڈٹ حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ 33 کروڑ روپے کا سامان خرید کر سٹورمیں رکھا گیا اس سامان کی ضرورت نہیں تھی، کمیٹی کے استفسار پر وزارت پانی و بجلی کے حکام نے بتایا کہ اس کے بعد بھی خریداریاں کی گئی ہیں کمیٹی نے خریداریوں کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے کہا کہ بتایا جائے کہ کہیں وہی چیزیں دوبارہ تو نہیں خریدی گئیں جو پہلے سے سٹور میں موجود تھیں۔

متعلقہ عنوان :