تیل و گیس کی رائلٹی اور رقم عوامی مفاد میں استعمال بارے حکم پر عملدرآمد پر وفاق اور صوبوں سے جواب طلب،عدالت کیا حکم جاری کر سکتی ہے؟ اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹس جنرل سے معاونت طلب،پیسہ جیب میں پڑا ہے اور ہم کشکول بدست جگہ جگہ پھر رہے ہیں کبھی یورپ‘ کبھی امریکہ اور کبھی برطانیہ جاتے ہیں کہ ہماری مدد کی جائے،جسٹس جواد ایس خواجہ، فنڈز کے باوجود لوگوں کو پانی‘ اجناس اور دیگر سہولیات نہ ملنا ان کیساتھ ظالمانہ مذاق ہے، یہ کیسی جمہوریت ہے کہ لوگوں کو کوئی فائدہ ہی نہیں مل رہا، حکومت چین کی بانسری بجارہی ہے اور لوگوں کو بنیادی ضروریات تک دستیاب نہیں،جسٹس گلزار

جمعرات 15 مئی 2014 07:21

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔15مئی۔2014ء) سپریم کورٹ آف پاکستان نے قدرتی وسائل گیس اور تیل کے کنوؤں سے مالا مال اضلاع کو رائلٹی دینے اور رائلٹی کی رقم کے عوامی مفاد میں استعمال بارے عدالتی حکم پر عملدرآمد کے حوالہ سے وفاق اور صوبوں سے جواب مانگ لیا ہے اور اٹارنی جنرل آف پاکستان اور چاروں صوبائی لاء افسران کو ہدایت کی ہے کہ وہ عدالت کی معاونت کریں کہ اگر وفاق اور صوبائی حکومتیں عدالتی احکامات پر عمل نہیں کرتیں تو آئین و قانون کے مطابق اس کے کیا نتائج نکل سکتے ہیں اور عدالت کس طرح کا حکم جاری کرسکتی ہے۔

یہ حکم عدالت نے بدھ کے روز ضلع سانگھڑ میں 39 گیس اور تیل کے کنوؤں کی 600 ارب روپے کی رائلٹی نہ ملنے کے حوالے سے عبدالحکیم کھوسو سمیت مختلف درخواست گزاروں کی درخواستوں کی سماعت کے دوران جاری کیا جبکہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے تین رکنی بنچ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ میں سماعت کے دوران ریمارکس دئیے کہ پیسہ جیب میں پڑا ہے اور ہم کشکول بدست جگہ جگہ پھر رہے ہیں کبھی یورپ‘ کبھی امریکہ اور کبھی برطانیہ جاتے ہیں کہ ہماری مدد کی جائے۔

(جاری ہے)

فنڈز کے باوجود لوگوں کو پانی‘ اجناس اور دیگر سہولیات نہ ملنا ان کیساتھ ظالمانہ مذاق ہے۔ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ لوگوں کو کوئی فائدہ ہی نہیں مل رہا۔ وفاق اور صوبائی حکومتوں کو اللہ کا واسطہ لوگوں کے مسائل حل کریں۔ ایک ضلع کے 600 ارب روپے کی رائلٹی بنتی ہے اور دوسری طرف تھرپارکر میں شروع ہونے والا بھوک و افلاس کا سلسلہ چولستان تک دراز ہوچکا ہے۔

لوگوں کیلئے پینے کا صاف پانی موجود نہیں‘ غلہ‘ اناج تک میسر نہیں‘ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں‘ حکومتیں اپنا کام کریں تو عدالتیں کوئی دوسرا کام کریں‘ اس طرح کے معاملات میں مداخلت کرنا عدالت کا کام نہیں مگر ہم چاہتے ہیں عوام کا پیسہ عوام پر خرچ کیا جائے۔ کسی کو کوئی احساس تک نہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان کی عدم حاضری پر سخت ردعمل کا اظہار کیا اور ایک موقع پر تو وہ مذکورہ بالا لاء افسران کو شوکاز نوٹس جاری کرنے لگے تھے مگر عدالت نے بعدازاں ان کو ذاتی طور پر پیش ہونے کا حکم دیا۔

دوران سماعت جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دئیے ہیں کہ حکومت چین کی بانسری بجارہی ہے اور لوگوں کو بنیادی ضروریات تک دستیاب نہیں۔ درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ ضلع سانگھڑ میں 39 گیس اور تیل کے کنوؤں پر چار کمپنیاں کام کررہی ہیں اور پورے ضلع کا 98 فیصد علاقہ پیداوار پر مشتمل ہے۔ ضلع کو 600 ارب روپے کی رائلٹی نہیں دی جارہی تھی مگر عدالتی حکم پر دے دی گئی ہے۔

اس پر عدالت نے کہا کہ ہم نے تو وفاق اور صوبوں سے اس حوالے سے جواب مانگا تھا وہ ابھی تک کیوں نہیں دیا گیا۔ اس دوران افتخار گیلانی نے عدالت کی توجہ کرک کے ایک ہسپتال کی جانب مرکوز کی کہ وہاں اب گدھے بندھے ہوتے ہیں اس پر جسٹس گلزار نے کہا کہ لگتا ہے کہ جب اہرام مصر بنائے جارہے تھے اس وقت یہ ہسپتال بنایا گیا تھا۔ عدالت نے اے جی کے پی کے سے اس حوالے سے جواب طلب کیا۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت 19 مئی تک ملتوی کرتے ہوئے عدالتی احکامات جوکہ 27 دسمبر 2013ء کو جاری کئے گئے‘ پر عملدرآمد بارے وفاق اور صوبوں سے جواب طلب کیا ہے اور حاضر نہ ہونے والے ایڈووکیٹس جنرل سے جواب طلب کیا ہے۔ مزید سماعت 19 مئی کو ہوگی۔