اسلام آباد‘ پاکستان کو بنے 67 سال گزر گئے‘ ہندو اور سکھوں کے شادی کے قوانین نہ بنائے جاسکے ،ہندو نکاح نامے کی رجسٹریشن نہ ہونے سے سٹامپ لکھنے پر مجبور

منگل 13 مئی 2014 07:07

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔13مئی۔2014ء) پاکستان کو بنے 67 سال گزر گئے ہندو اور سکھ شادی کے قوانین نہ بنائے جاسکے۔ ہندو نکاح نامے کی رجسٹریشن نہ ہونے کی وجہ سے سٹامپ لکھنے پر مجبور ہیں۔ نکاح کی رجسٹریشن نہ ہونے سے ہندو کمیونٹی کے ارکان شادی رچا کر بناء کسی قانونی چارہ جوئی و خوف کے بیویاں چھوڑ دیتے ہیں ان کے خلاف عدالت سے بھی رجوع نہیں کیا جاسکتا ہے دلچسپ امر یہ ہے کہ سکھوں کے دعوے کے مطابق بھارت میں بھی سکھوں کی شادی کے قوانین موجود نہیں ہیں۔

ہندو ‘ سکھ اور مسیحی برادری نے اس سلسلے میں قانون سازی کیلئے سفارشات مرتب کرنا شروع کردی ہیں ذرائع کا کہنا ہے کہ ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے والدین اکثر اوقات اپنی بیٹیوں کی شادیاں 15 سال کی عمر میں کردیتے ہیں جس سے مزید مسائل جنم لے رہے ہیں بعض اوقات لڑکی کو پہلی رات ہی طلاق مل جاتی ہے سفارشات میں اب شادی کی عمر پندرہ کی بجائے اٹھارہ سال کی جارہی ہے ۔

(جاری ہے)

نکاح کی رجسٹریشن نہ ہونے کی وجہ سے ہندو لڑکی اپنے خاوند سے نان نفقہ بھی نہیں مانگ سکتی اسی وجہ سے سٹامپ پیپر کا استعمال کیا جارہا ہے یہ بھی سفارشات کی جارہی ہیں کہ چرچ کے پادری کی طرح ہندوؤں کے پنڈت کو بھی شادی کا اندراج کرنے کا اختیار دیا جائے۔ جبکہ سکھ برادری میں نکاح نامے کا شادی میں کوئی تصور نہیں ہے اور جو سڑٹیفکیٹ گوردوارہ دیتا ہے اسے نادرا تسلیم ہی نہیں کرتا اسی وجہ سے جو بھی سکھ جوڑے شادی کے بندھن میں بندھتے ہیں ان کی وراثت کا مسئلہ اور شادی کا اندراج نہ ہونے کی وجہ سے دوسری شادی کرنے کے بھی مسائل پیدا ہوجاتے ہیں ذرائع کا کہنا ہے کہ اقلیتی ایم این اے ڈاکٹر رمیش اور رینا کماری نے قومی اسمبلی میں باقاعدہ بل پیش کیا ہے تاہم اس میں کیا ہوا ہے اس بارے میں معلومات دستیاب نہیں ہوسکیں۔

متعلقہ عنوان :