الیکشن 2013ء ہائی جیک ہوئے، عدالتی کمیشن بنا کر ہائی جیکروں کیخلاف آئین توڑنے کا مقدمہ چلایا جائے: چودھری پرویزالٰہی ،چیف الیکشن کمشنر کی بجائے الیکشن کرانے کا کام سابق چیف جسٹس اور نتائج کا اعلان نواز اور شہباز شریف نے ٹیک اوور کر لیا تھا ،دھاندلی کا بڑا نشانہ پنجاب اور ہماری جماعت تھی، ہماری 44 سیٹیں چھین لی گئیں، الیکشن سے پہلے اور بعد میں دھاندلی پر سب سے پہلے آواز اٹھائی: پریس کانفرنس ،پاکستان مسلم لیگ دھاندلی کیخلاف عمران خان کے احتجاج اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے مشن کی حمایت کرتی ہے: چودھری شجاعت حسین کی زیرصدارت پارٹی اجلاس کے بعد اعلان

ہفتہ 10 مئی 2014 07:22

لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔10مئی۔2014ء پاکستان مسلم لیگ کے سینئر مرکزی رہنما و سابق نائب وزیراعظم چودھری پرویزالٰہی نے کہا ہے کہ الیکشن-2013 ہائی جیک کیے گئے تھے، عدالتی کمیشن بنا کر ہائی جیکروں کیخلاف آئین توڑنے کا مقدمہ چلا کر قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ آئندہ کسی کو عوام کا مینڈیٹ پامال کرنے کی جرأت نہ ہو۔ وہ یہاں مسلم لیگ ہاؤس میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔

کامل علی آغا، طارق بشیر چیمہ، محمد بشارت راجہ، چودھری ظہیر الدین، حافظ عمار یاسر، احمد یار ہراج، ڈاکٹر عظیم الدین زاہد لکھوی، چودھری الطاف حسین، قمر حیات کاٹھیا، محمد خان لغاری، سیمل کامران، ماجدہ زیدی ،کنول نسیم اور دیگر رہنما بھی ان کے ہمراہ تھے۔ چودھری پرویزالٰہی نے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر کی بجائے الیکشن کرانے کا کام سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور نتائج کا اعلان نواز شریف اور شہباز شریف نے ٹیک اوور کر لیا تھا، انتخابی عملے اور ریٹرننگ افسروں کو اپریل سے ہی جی او آر لاہور میں تشریف فرما ایک پردہ نشین سمیت کچھ لوگ کنٹرول کر رہے تھے اور فخر الدین جی ابراہیم صرف نام کے چیف الیکشن کمشنر تھے، انتخابی دھاندلی کا سب سے بڑا نشانہ پنجاب اور ہماری جماعت تھی، ہمارے ووٹ مسترد کر کے ہماری 44 سیٹیں چھین لی گئیں، 4 دسمبر 2012ء کو ہونے والے آخری ضمنی انتخابات اور پھر 2013ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کے خلاف ہماری جماعت نے سب سے پہلے آواز اٹھائی۔

(جاری ہے)

قبل ازیں پاکستان مسلم لیگ کے صدر و سابق وزیراعظم سینیٹر چودھری شجاعت حسین کی زیرصدارت یہاں ان کی رہائش گاہ پر پاکستان مسلم لیگ کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی، سینیٹرز، رہنماؤں اور قانونی ماہرین کا اجلاس ہوا۔ اجلاس میں 11 مئی کے حوالے سے متفقہ فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان مسلم لیگ تحریک انصاف کے احتجاج اور ڈاکٹر طاہر القادری کے مشن کی بھرپور اخلاقی سپورٹ کرتی ہے، ہماری پارٹی کے وفود ان کی ریلیوں/ احتجاج میں شرکت بھی کریں گے۔

چودھری پرویزالٰہی نے کہا کہ سابق چیف جسٹس نے جوڈیشری کو انتخابی عمل میں شامل کر کے 2009ء میں اپنے دستخطوں سے جاری کردہ جوڈیشل پالیسی کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی کہ آئندہ عدلیہ الیکشن کے عمل میں شامل نہیں ہو گی یہی نہیں بلکہ چیف الیکشن کمشنر کی بجائے چیف جسٹس ریٹرننگ افسروں کو زبانی اور تحریری ہدایات جاری کرتے رہے۔ 28 مارچ 2013ء کو چیف الیکشن کمشنر نے تمام سیاسی جماعتوں کے وفود سے ملاقات کے بعد اعلان کیا کہ تمام ادارے الیکشن میں مداخلت سے باز رہیں لیکن سابق چیف جسٹس نے ڈسٹرکٹ سے لے کر اسسٹنٹ ریٹرننگ افسروں تک کو خصوصی خط جاری کر کے آئینی طور پر انتخابات کرانے کے ذمہ دار چیف الیکشن کمیشن کی ہدایت کے برعکس الیکشن میں مداخلت شروع کر دی، کراچی، حیدر آباد، لاہور، پشاور، کوئٹہ میں جا کر ریٹرننگ افسروں سے بند کمروں میں ملاقاتیں اور خطاب کیا جس پر پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار سمیت وکلاء تنظیموں نے شدید احتجاج کیا جبکہ الیکشن کے بعد سابق چیف جسٹس کی جانب سے تفویض کردہ ”خصوصی فرائض“ کی کامیابی سے انجام دہی پر ریٹرننگ افسروں کو تعریفی اسناد اور شیلڈز دی گئیں۔

انہوں نے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر کی بجائے چیف جسٹس کے الیکشن کرانے کے بعد الیکشن رزلٹ کے اعلان کا کام نواز اور شہباز شریف نے سنبھال لیا اور ابھی پندرہ سے بیس فیصد پولنگ اسٹیشنوں پر گنتی مکمل ہو سکی تھی کہ انہوں نے ساڑھے گیارہ بجے ہی اعلان کر دیا کہ ”ہم جیت گئے ہیں، ن لیگ کے سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرنے کی کنفرمیشن ہے اور صبح تک مزید بہتر نتائج آ جائیں گے کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ ہمیں حکومت سنبھالنے کیلئے کسی کا سہارا نہ لینا پڑے“۔

چودھری پرویزالٰہی نے مزید کہا کہ باریک کام ریٹرننگ افسروں کے کمروں میں ہو رہا تھا اور وہاں امیدواروں کا داخلہ ممنوع تھا، میں 1985ء سے الیکشن لڑ رہا ہوں لیکن کبھی داخلہ بند نہیں کیا گیا، انتخابی تاریخ میں اس بار ریکارڈ تعداد میں ووٹ مسترد کیے گئے اور اس کارروائی کے ذریعہ صرف ہماری جماعت پاکستان مسلم لیگ کو 15 قومی اور 29 صوبائی نشستوں سے محروم کر دیا گیا جبکہ فافن نے بھی اپنی رپورٹ میں ہمارے موقف کی مکمل حمایت کرتے ہوئے کہا کہ آخری دنوں پولنگ سٹیشن بغیر اطلاع تبدیل کرنے سے قومی اسمبلی کے 93حلقوں کے نتائج متاثر ہوئے جبکہ پولنگ کے وقت میں یکطرفہ اضافہ کیا گیا، ن لیگ والوں کے جعلی ووٹ بھی شمار کر لیے گئے اور سرگودھا میں نواز شریف کے ایک پولنگ اسٹیشن کے 8 ہزار ووٹ شمار کیے گئے جہاں کل ووٹ صرف 1530 تھے۔

انہوں نے کہا کہ اتنی بڑی دھاندلی سے دلبرداشتہ چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم نے اپنے عہدہ کی میعاد مکمل ہونے سے 3 سال قبل ہی استعفیٰ دیدیا۔ انہوں نے کہا کہ سابق چیف جسٹس اور شریف برادران میں گٹھ جوڑ کا ایک بڑا ثبوت یہ بھی ہے کہ انہوں نے شہباز شریف کے خلاف نااہلی کے مقدمہ کی لیو گرانٹ کے باوجود سماعت نہیں ہونے دی۔ انہوں نے کہا کہ ووٹوں کے تھیلے اس لیے نہیں کھول رہے کہ کوئی بھی تھیلا کھولنے سے ان کی دھاندلی کھل کر سامنے آ جائے گی۔

انتخابی دھاندلی میں نجم سیٹھی کے ملوث ہونے کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا کہ الیکشن میں نگران وزیراعلیٰ کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔ انہوں نے مہنگائی، بیروزگاری، بجلی، گیس کی لوڈشیڈنگ، جرائم اور دیگر عوامی مسائل میں اضافہ پر کہا کہ دھاندلی کی پیداوار حکومت عوام کے مسائل کبھی بھی حل نہیں کر سکتی۔