عوامی نمائندوں کی عزت ہم پر واجب ہے،ان کی توہین کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا،سیکرٹری خارجہ،سینٹ کی استحقاق کمیٹی میں ترجمان دفتر خارجہ اور سعودی عرب میں پاکستانی قونصل جنرل کیخلاف تحاریک استحقاق پر غور،خیبر پختونخواہ میں شام کی جنگ میں مارے جانیوالے پاکستانیوں کی لاشیں آرہی ہیں اور غائبانہ جنازے پڑھائے جا رہے ہیں اگر یہ پاکستانی مزدور تھے تو جنگ میں کیوں مارے گئے،ارکان کا سوال، مجھے جان کا خطرہ ہے دھمکیاں دی جا رہی ہیں ،سینیٹر سحر کامران،کمیٹی کی سیکورٹی فراہم کرنیکی ہدایت

جمعہ 9 مئی 2014 07:25

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔9مئی۔2014ء) سیکریٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قواعد و ضوابط و استحقاق کو آگاہ کیا ہے کہ عوامی نمائندوں کی عزت ہم پر واجب ہے،ان کی توہین کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ کسی سرکاری ملازم کوپارلیمنٹ کو جوابدہ ہونے میں استثنیٰ حاصل نہیں غلط فہمی پیدا کرنے والے الفاظ کو ریکارڈ سے نکال دیا گیا ہے دل آزاری پر عوامی نمائندوں سے دلی معذرت کرتا ہوں ۔

یہ بات انہوں نے قائمہ کمیٹی میں ترجمان وزارت خارجہ کے الفاظ پر رضا ربانی اور دیگر 30سینیٹرز کی تحریک استحقاق کے جائزہ کے دوران کہی۔اجلاس میں سینیٹر سحر کامران کی طرف سے سعودی سفیر قونصل جنرل جدہ اور پریس کونسلر کی طر ف سے دھمکیوں ، سکول کے نام کو تبدیل کرنے اور سکول کے 90ہزار ریال کو غیر قانونی استعمال کرنے کے علاوہ سینیٹر زاہد خان کی لوئر دیر میں گیس فراہمی منصوبے پر عمل میں محکمانہ اور وزارتی سطح پر تاخیر کے خلاف تحاریک استحقاق پر بھی غور کیا۔

(جاری ہے)

سیکریٹری خارجہ نے آگاہ کیا کہ کوئی سرکار ی ملازم ممبر پارلیمنٹ کے بارے میں ایک لفظ غلط استعمال کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ پارلیمنٹ بالا دست ہے اورعوامی نمائندگان قابل احترام ہیں، ترجمان وزارت خارجہ کے بیان کو ایک رپورٹر نے جو خود بریفنگ میں موجود نہ تھا کے بارے میں ترجمان وزارت خارجہ نے وضاحتی ، جوابی الفاظ استعمال کئے ۔ کیونکہ رپورٹر نے پاکستان کی خارجہ پالیسی برائے فروخت کی خبر شائع اور بعض ٹی دی چینلز کے ٹاک شوز میں بحث ہوئی اور اخبارات میں کالم بھی لکھے گئے تھے۔

کمیٹی کا اجلاس پارلیمنٹ میں چیئر مین کرنل (ر) طاہر حسین مشہدی کی صدارت میں ہوا۔ جس میں سینیٹرز مشاہد حسین سید ، اسلام الدین شیخ ، رضا ربانی ، اعتزاز احسن ، حاجی محمد عدیل ، افراسیاب خٹک عبدالروف ، ہدایت اللہ ، سحر کامران ، ساجد میر زاہد خان کے علاوہ سیکریٹری وزات خارجہ اعزاز چوہدری اور ترجمان وزارت خارجہ تسنیم اسلم نے شرکت کی ۔چیئر مین قائمہ کمیٹی سینیٹر کرنل ر طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ پارلیمنٹ کے اختیارات کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا ۔

ممبران سینیٹ نے شام کی صورت حال اور فوجی مداخلت کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا اورحکومت کو شام کے حوالے سے خارجہ پالیسی سے آگاہ کرنے کو کہا تھا۔ تمام وزارتیں پارلیمنٹ اور کمیٹیوں کو جوابدہ ہیں آئین کا احترام ہر سرکاری ملازم کا فرض ہے، قواعد پر مکمل عمل درآمدگی کی حکومت اور بیوروکریسی آئینی طور پر پابند ہے اورکوئی سرکاری ملازم حکومت کی پالیسی پر اظہار خیال نہیں کر سکتا صرف وضاحت کی جا سکتی ہے ۔

پارلیمانی کمیٹی الزامات کو سننے اور جوابات کی تحریری و زبانی وصولی اور حقائق تک پہنچتے سے قبل کوئی فیصلہ نہیں دیتی تمام فریقوں کو بھر پور موقع فراہم کیا جاتا ہے ۔ سیکریٹری خارجہ نے آگاہ کیا کہ ترجمان نے نقطہ نظر پیش کیا تھا نمائندوں کی عزت ہم پر واجب ہے عوامی نمائندگان کی توہین کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ کسی سرکاری ملازم کو استثنیٰ حاصل نہیں ایک خاص تنا ظر میں مخصوص ذہنیت کو جواب دیا گیا۔

صرف الزامات کا جواب دیا گیا تھا سامعین میں ایک بھی منتخب نمائندہ موجود نہ تھا۔ غلط فہمی پیدا کرنے والے الفاظ کو ریکارڈ سے نکال دیا گیا ہے دل آزاری پر عوامی نمائندوں سے دلی معذرت کرتا ہوں ۔ سینیٹرز اعتزاز احسن اورسینیٹر مشاہد حسین سید نے معاملہ ختم کرنے کی تجویز دی ۔سینیٹر زاہدخان نے کہا کہ ایوان بالا میں خارجہ پالیسی کے حوالے سے بحث کی گئی اور میڈیا رپورٹس کے مطابق شام سے پاکستانیوں کی لاشوں کی آمدکی وجہ سے ممبران نے سوالات اٹھائے تھے۔

بدقسمتی سے ایوان بالا میں نہ تو سیکریٹری خارجہ اور نہ ہی وزیر اعظم کے سلامتی مشیر موجود ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وزارت خارجہ کو وضاحتیں کرنی پڑی ہیں ۔ افغانستا ن کے جہاد اور کشمیر کے جہاد میں شہید ہونیوالوں کے غائبانہ جناز ے پڑھائے جاتے تھے اور اب بھی خیبر پختونخواہ میں شام کی جنگ میں مارے جانیوالے پاکستانیوں کی لاشیں آرہی ہیں اور غائبانہ جنازے پڑھائے جا رہے ہیں اگر یہ پاکستانی مزدور تھے تو جنگ میں کیوں مارے گئے ۔

انٹیلی جنس ایجنسیاں وزارت داخلہ اور خارجہ کوکیوں آگاہ نہیں کرتیں ۔ سینیٹر افراسیاب خٹک نے کہا کہ ہماری سیاسی تاریخ میں پارلیمنٹ کا خارجہ پالیسی میں کوئی کردار نہیں ہے۔اگر کوئی بات نہیں تھی یا سعودی عرب کے شہزادہ کے دورے سے شام کے بارے میں کوئی معاملات تھے تو حکومت کو وضاحت کر دینی چاہیے تھی،حکومت سرکاری ادارے اپنی اپنی حدود قیود میں رہیں تو مسائل نہیں بڑھیں گے ۔

سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ خارجہ پالیسی بنانے والی حکومت سے پوچھ گچھ کی جائے نہ کہ عمل کرنے والے مظلوموں سے اور کہا کہ موجودہ حالات میں وزات خارجہ کو خودمختاراور زیادہ مضبوط بنانے کی ضرورت ہے ۔چیئر مین کمیٹی نے کہا کہ جن معاملات پر فوراً وضاحت کی ضرورت ہو اور کاروائی بھی مطلوب ہو فوراً عمل کر کے فوراً حقیقت سے قوم کو آگاہ کرنا چاہیے۔

سینیٹر عبدالروٴف نے کہا کہ 66سالوں سے خارجہ پالیسی خفیہ ہاتھ بناتے ہیں عوامی نمائندگان کا کوئی کردار نہیں ہے ۔ شام ،ہندوستان ، ایران اور افغانستان کے حوالے سے وزارت خارجہ کے بارے میں مسائل بڑھ رہے ہیں۔جس پر چیئر مین کمیٹی نے کہا کہ شام کے حالات کے بارے میں خارجہ پالیسی کے بارے میں ایوان بالا میں بحث کی گئی تھی لیکن حکومت نے وضاحت نہیں کی سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا شام کی پالیسی کی تبدیلی کے حوالے سے میڈیا میں پیسے کا ذکر کیا گیا تھا۔

ترجمان وزارت خارجہ نے وضاحت کی کہ تحریری طور پر آگاہ کر دیا تھا کہ صرف اخبار میں غلط رپورٹنگ اور آرٹیکل کے حوالے سے الفاظ استعمال کیے گئے ۔جس پر چیئر مین قائمہ کمیٹی نے سوال کیا کہ متعلقہ رپورٹر کے خلاف کیا کاروائی کی گئی اور کہا کہ ترجمان نے وہ الفاظ کیوں استعمال کئے جس کی وجہ سے ممبران سینیٹ میں اشتعال بڑا۔سیکریٹری وزارت خارجہ نے کہا کہ نا دانستہ غلطی کو کمیٹی تسلیم کر کے معاف کر دے ۔

سینیٹر سحر کامران کی سعودی عرب میں پاکستانی سفیر قونصل جنرل اور پریس قونصلر کے خلاف تحریک استحقاق کے جواب کیلئے تینوں متعلقہ افسران کی غیر موجودگی پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے چیئر مین قائمہ کمیٹی نے کہا کہ حکومتی خزانے سے رقوم خرچ ہوتی ہیں 11ممبران ملک کے تمام حصوں سے اجلاس میں شریک ہیں اور متعلقہ افراد نے شرکت نہ کر کے پارلیمانی کمیٹی کی توہین کی ہے جو ناقابل قبول ہے ۔

جس پر سینیٹر حاجی عدیل نے متعلقہ سفیر اور دو افسران کے خلاف کاروائی کی تجویز دی سینیٹر اعتزاز احسن اور دوسرے سینیٹر ز نے کہا کہ سفیر کو اگلے اجلاس میں شرکت کا موقع دیا جائے۔ سینیٹر سحر کامران نے کہا کہ مجھے جان کا خطرہ ہے دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور میرے سابقہ سکول سے 90ہزار ریال غیر قانونی نکال لئے گئے ہیں اور قونصل جنرل و پریس قونصلر میرے خلاف سوشل میڈیاء اور پرنٹ میڈیا پر خبریں چلا رہے ہیں اور ملازمین کو میرے خلا ف بیانات کی دھمکیاں دی جار ہی ہیں۔

سفارتخانہ سے میرا ویزہ اوراقامہ منسوخ کرنے کا کہا جا رہا ہے جس سے میرا استحقاق مجروح ہوا ہے۔ میرے دورہ سعودی عرب کے موقع پر قونصل جنرل دفتر میں موجود ہونے کے باوجود نہیں ملے،سفارتخانہ کے افسران نے اختیارات سے تجاوزکیاہے سہیل خان نامی افسر میرے خلاف تمام کاروئی میں ملوث ہے اور کہا کہ کمیٹی میری جان کی حفاظت کی یقین دہانی کرائے ورنہ میں پولیس میں رپورٹ درج کراوٴں گی ۔

چیئر مین قائمہ کمیٹی نے کہا کہ نمائندگان عوام کو حکومت پارلیمنٹ اور آئین کا اختیار اور تحفظ حاصل ہے وزارت اور سفیر بھی پارلیمنٹ کے ماتحت ہیں اگلے اجلاس میں متعلقہ افسران کی حاضری یقینی بنائیں گے اور وضاحت کرنے کے بعد آئینی اختیارات استعمال کرینگے ۔ سینیٹر افراسیاب خٹک نے کہا کہ کمیٹی کو پیغام نہ دینے والے اور آگاہ نہ کرنیوالوں کے خلاف کاروائی کی جائے ۔

حاجی عدیل نے تجویز کیا کہ سفیر کو خارجہ کمیٹی کے اجلاس کے دن طلب کیا جائے تاکہ حکومتی خزانے کی بچت ہو سکے ۔ چیئر مین کمیٹی نے کہا کہ پاکستا ن میں سفارتی عملہ کی موجودگی کے باوجود عدم شرکت افسوسناک ہے کمیٹی آئین کے تحت کاروائی کریگی۔چیئر مین کمیٹی نے کہا کہ دھمکیاں نا قابل قبول ہیں وزارت خارجہ حرکت میں آئے جس پر سیکریٹری خارجہ نے کہا کہ کمیٹی کے ایک ایک لفظ کا احترام کرتے ہیں اور یقین دلایاکہ معاملے کے حقائق سے خود آگاہی حاصل کر کے کمیٹی کو رپورٹ پیش کرینگے ۔

سینیٹر زاہد خان نے دیر میں سوئی گیس کی فراہمی کے حوالے سے کہا کہ جب وزیر اعظم سینیٹ کو اہمیت نہیں دینگے تو بیوروکریسی بھی تعاون نہیں کریگی ۔منصوبے کی فائل وزیر اعظم کے پاس موجود ہے میرے فنڈز کے کروڑوں خرچ ہو چکے ہیں وزیر مملکت اور سرکاری اہلکار اور سیکریٹری وزارت موجود نہیں ہیں فنڈز کے استعمال نہ ہونے سے فنڈز حکومت کو واپس ہوجائینگے اور لوگ عوامی سہولت سے محروم رہ جائینگے ۔

سینیٹر زاہد نے کہا کہ اگر حکومت پارلیمنٹ کو عزت نہ دے تو پارلیمنٹری کمیٹیوں کی سفارشات اور احکامات پر کون عمل کریگا۔ سینیٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ سخت رویہ اختیار نہ کیا جائے ۔ وزیر اعظم کی اسمبلی میں موجودگی کا جواز مناسب ہے وقفہ سوالات ہے سیکریٹری وزیر اعظم کے ساتھ ہیں اور تحریری آگاہ کر دیا گیا ہے کہ جب کمیٹی بلوائے گی حاضر ہو جائیں گے ۔

جس پر سینیٹر زاہد خان نے کہا کہ کمیٹی کے چیئر مین وزارت پیٹرولیم کو منصوبے کے بقیہ کام پر آغاز کا حکم دیں ۔ سینیٹر حاجی عدیل نے کہا کہ اگر قواعد و ضوابط و استحقاق کمیٹی کی سفارشات اور احکامات پر بھی عمل نہیں کیا جا رہا تو اسے ختم کر دینا چاہیے اور کہا کہ قائمہ کمیٹی کے فیصلے کے خلاف وزارت دفاع میرے خلاف عدالت میں چلی گئی ہے اور حکم امتناعی بھی حاصل کر لیا ہے ۔

جس پر چیئر مین کمیٹی نے کہا کہ کسی بھی قائمہ کمیٹی کے خلاف کسی بھی عدالت سے حکم امتناعی حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ چیئر مین قائمہ کمیٹی اور حاجی عدیل کے درمیان دلچسپ جملوں کا بھی تبادلہ ہوا۔ چیئر مین قائمہ کمیٹی نے کہا کہ سینیٹر حاجی عدیل افواج پاکستان بڑے اداروں حتی کہ چیف جسٹس سے بھی لڑتے رہے ہیں ۔ حاجی عدیل نے برجستہ جواب دیا کہ کبھی بھی اپنے سے چھوٹے سے نہیں لڑنا چاہیے ۔

سینیٹر افراسیا ب خٹک نے حاجی عدیل اور اپنے ایک غیر ملکی دورے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایک جزیرے میں پہنچے تو کچھ لوگ آئے جن سے حاجی عدیل نے پوچھا کیا یہاں کوئی حکومت ہے ؟ جواب دیا گیا ہاں حکومت ہے جس پر سینیٹر حاجی عدیل نے فوراً کہا کہ میں حکومت کے خلاف ہوں جس سے ثابت ہو تا ہے کہ حاجی عدیل حکومتوں کے ہمیشہ خلاف ہوتے ہیں ۔