ابھی حقیقی مذاکرات شروع نہیں ہوئے، اس میں تعطل آرہاہے ،پروفیسر ابراہیم ، امید ہے کہ چند دنوں کے اندر دونوں طرف سے جنگ بندی میں توسیع ہوگی، مولانا سمیع الحق ، مذاکرات میں ڈیڈلاک جلد ختم ہوگا، مذاکرتی عمل سے ایک سو فیصد مطمئن ہیں،مولانا یوسف شاہ

پیر 28 اپریل 2014 08:38

پشاور (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔28اپریل۔ 2014ء)جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے امیر اور طالبان مذاکراتی کمیٹی کے رکن پروفیسرمحمد ابراہیم خان نے کہا ہے کہ مذاکرات کا عمل جاری ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ابھی حقیقی مذاکرات شروع نہیں ہوئے اور اس میں تعطل آرہاہے ،دونوں جانب سے مشکلات ہیں، ” 9/11کے بعد مشرف نے ایسا راستہ اختیار کیا کہ جس کے نتیجے میں ملک میں خانہ جنگی شروع ہوئی اور ہم دس بارہ سال سے خانہ جنگی کا شکار ہیں۔

ان حالات سے نکلنے کے لئے جماعت اسلامی پاکستان نے شروع دن سے اعلان کیا تھا کہ فوج اور قوم آپس میں ایک دوسرے سے لڑے یہ نہ قوم کے حق میں ہے اور نہ ہی فوج کے حق میں ۔ کسی اور کے لئے فوج کو اپنے لوگوں پر حملہ آور نہیں ہونا چاہئے ۔ لیکن بدقسمتی سے یہ جنگ جاری رہی،مشرف کو اگر ملک سے نکالاگیا تواس کی تمام تر ذمہ داری وفاقی حکومت پر عائد ہوگی ۔

(جاری ہے)

اتوار کے روز المرکز اسلامی میں جماعت اسلامی ضلع پشاور کے زیر اہتمام دو روزہ تربیتی اجتماع کے اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر ابراہیم نے کہا کہ پرویز مشرف پرائی جنگ کو اس ملک کے اندر لے آئے اور اس ملک کے اند ر خانہ جنگی صورت اختیار کی اور پھر ملک میں عوام کا خون بہا اور خانہ جنگی سے ہم دو چار رہے۔ ان حالات سے نکلنے کا راستہ مذاکرات اس وقت ہمارا ہی نہیں مطالبہ نہیں تھا بلکہ بہت ساری سیاسی جماعتوں نے بھی مطالبہ کیاتھا ۔

اکتوبر 2008ء میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ایک قرارداد پاس ہوئی کہ سب سے پہلے مذاکارتی عمل ہونا چاہئے اور پھر مئی 2010ء میں اُس قرارداد کی توثیق کرتے ہوئے دوسری قرارداد میں پھر اس بات کو دہرایا گیا اور ستمبر 2013ء میں تمام سیاسی جماعتوں نے وزیر اعظم کے طلب کردہ کُل جماعتی کانفرنس میں وزیر اعظم کو مذاکرات کا اختیار دیا۔ مذاکرات کاوہ عمل شروع نہیں ہوسکا ۔

عمل شروع ہونے والا تھا کہ ڈرون حملہ ہوگیا اور اس حملے کے نتیجے میں مذاکرات کا عمل سبوتاژ ہوا۔ وزیر داخلہ نے پارلیمنٹ کے اندر یہ بات کہی کہ یہ ڈرون حملہ حکیم اللہ محسود پر نہیں ہوا ۔ یہ ڈورن حملہ مذاکرات کے عمل پر ہوا ۔ بہت مشکل سے 29/جنوری 2014ء کو وزیراعظم نے پارلیمنٹ میں اپنی کمیٹی کا اعلان کیا اور یکم فروری کو طالبان نے اپنی کمیٹی کا اعلان کیا۔

مذاکرات کا وہ عمل جاری ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ابھی حقیقی مذاکرات شروع نہیں ہوئے اور تعطل اس آرہاہے ۔ دونوں جانب سے مشکلات ہیں۔ یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ کن لوگوں سے مذاکرات کرنے چلے ہیں ؟ جو لوگ آئین سے انکاری ہیں ان کے ساتھ مذاکرات کرتے ہو ؟ ہم کہتے ہیں کہ کس نے آئین کو مانا ہے؟ آئین کو سب سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو نے نہیں مانا تھااور اس نے اس آئین کے تحت فوری انتخابات نہیں کرائے اور اس آئین کے اندر ایسی ترامیم کی گئیں کہ عدلیہ کے اختیار کو بالکل ختم کردیا گیااور اس اسمبلی نے جو پوری نہیں تھی آئین کے اندر سات ترامیم کرڈالیں اور اس کے بعد 1977ء میں ایسا انتخاب ہوا کہ اس کو کسی نے تسلیم نہیں کیا۔

بھٹو اقتدار چھوڑنے کے لئے تیار نہیں تھا اور پھر اس ملک میں مارشل لاء لگا اور آئین کو بڑی مشکل سے بحال کروایا گیا۔ لیکن اس آئین کے اندر جو اسلام موجود ہے کسی حکمران نے اس اسلام کو نافذکرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اس اسلام کے راستے میں رکاوٴٹ بھی بنتے رہے۔ اگر آئین میں درج اسلام کو بھی یہ حکمران نافذ کردیں تو مجھے یقین ہے کہ طالبان اسی آئین کو بھی تسلیم کرنے لے لئے تیار ہوں گے۔

لیکن آئین کو کیا پرویز مشرف نے بھی تسلیم کیا ؟ پرویز مشرف نے اس آئین کے ساتھ جو کچھ کیا ہے کیا وہ اس کا حقدار نہیں ہے کہ عدالت کے اندر اسے قرارواقعی سزا ملے ؟ اور وہ شخص جو کبھی اپنی بیماری کا بہانہ بناتا ہے ۔ کبھی اپنی والدہ محترمہ کی بیماری کا بہانہ بنالیتا ہے اور کبھی کراچی میں اپنے ڈاکٹروں سے علاج کے لئے وہاں جاتا ہے ۔ ہم یہ بات واضح کردینا چاہتے ہیں کہ پرویز مشرف کو اگر اس ملک سے نکالاگیا تواس کی تمام تر ذمہ داری پاکستان کی وفاقی حکومت پر عائد ہوگی اور ہمارا ہاتھ وزیر اعظم کے گریبان پر پڑے گااور اگر وہ پرویز مشرف کو قانون اور عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کے لئے آگے بڑھے گا تو ہم اس کے ساتھ ہوں گے اور اس کی پشتیبانی کریں گے۔

فوج کے بارے میں بھی ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اداروں کا وقار مجرموں کی پشت پناہی سے کبھی بھی قائم نہیں ہوسکتا ۔ انہوں نے کہا کہ جنرل راحیل شریف اگر اپنے ادارے کا وقار بحال کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ مجرم کی پشت پناہی نہ کریں۔ عدالت کو موقع دیں کہ مجرم عدالت کے سامنے پیش ہو اور اسے صفائی کا پوراپورا موقع دیا جائے اور پھر اس کے جرم کے مطابق اس کو قرار وقاعی سزا ملے ۔

انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ مجرم چاہے اپنا ہو یا پرایا اس کو قرار واقعی سزا ملنی چاہئے۔ قانون کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ قانون اندھا ہے۔ اگر قانون میں بینائی ہو اور اپنے پرائے کی پہچان ہو تو پھر انصاف نہیں ہوسکتا ۔ اس وقت ہماری عدالتوں میں کیس چل رہے ہیں ۔ آئی ایس آئی پر بے وجہ انگلیاں نہیں اٹھ رہیں ۔ لاپتہ افراد کے بارے میں پشاور ہائی کورٹ، سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ میں بات ہوچکی ہے کہ لاپتہ افراد فوج کی انٹیلی جنس کی تحویل میں ہیں۔

بلوچستان کا کیس سپریم کورٹ کے اندر چل رہاہے ۔ ہمارے حراستی مراکز میں سالہاسال سے لوگ پڑے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ہزاروں افراد وہ ہیں جو بے گناہ ہیں ۔ ان کو نکالانہیں جارہا ۔انہوں نے کہا کہ آصف علی زرداری نے ایک کام کیا۔ اس قانون ” ایکشن ان ایڈ آف سول پاور 2011ء “ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ جی ایچ کیو میں تیار ہوا ہے لیکن اس کی تمام تر ذمہ داری آصف علی زرادری پر عائد ہوتی ہے۔

اس قانون کوایک نوٹی فیکیشن کے ذریعے موٴثر بماضی قرار دے کر یکم فروری 2008ء سے موٴثر قرار دیا گیااور جن لوگوں کو مارا گیا ہے ، جو حراستی مراکز میں پڑے ہیں ۔ وہ کسی کے خلاف کوئی کاروائی عدالت میں نہیں کرسکتے ۔ اس لئے کہ ان کو اس قانون کے تحت تحفظ دیا گیا ہے ۔ یہ قانون FCR سے بڑھ کر غلط قانون ہے ۔ہم اپنے انٹیلی جنس اداروں کی خدمت میں بھی عرض کرنا چاہتے ہیں ۔

جنرل راحیل شریف اس کے ذمہ دار ہیں کہ آپ انٹیلی جنس اداروں کو عدل و انصاف کرنا ہوگا ۔یہ اس لئے نہیں بنایا گیا کہ ملک کے شہریوں کو اٹھا کر سالہا سال تک انٹر منٹ سنٹرز میں بند رکھیں گے ۔یہ ادارے اس لئے ہیں کہ ہمارے دشمنوں کی نگرانی کریں ۔دشمنوں پر نظر رکھیں اور دشمن اگر اس ملک کوئی کاروائی کرین تو اس کے لئے موٴثر ہوں ۔ فوج اور قوم کو آپس میں لڑانا امریکی پالیسی ہے ۔

ہم طالبان کو بھی یہ بات کہنا چاہتے ہیں کہ آپ پولیس اور فوجی اداروں پر حملے کریں گے تو اس کا فائدہ آپ یا فوج کو نہیں بلکہ امریکہ اور ہندوستان کو اس کا فائدہ ہوگا۔ فوج اور فوج کے جرنیلوں سے بھی ہم یہ کہتے ہیں کہ آج تمھارے اندر امریکہ سے جو خوف ہے ،یہ خوف نکال کے اللہ کا خوف دل میں بٹھا دیجئے۔سلالہ چیک پوسٹ پر ہمارے اٹھائیس جوانوں کو امریکی جہازوں نے دو گھنٹوں تک بمباری کرتے ہوئے شہید کرڈالا۔

ہماری ائیر فورس ،فوج اور بمبار طیارے اس وقت کہاں تھے؟ جیٹ طیارے کیا اس لئے ہیں کہ وہ اورکزئی پر ہی بم برساتے رہیں ؟ وہ سرجیکل سٹرائیکس میر علی اور میرانشاہ میں کرتے رہیں اور اپنے جوانوں کو بچانے کے لئے ان پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی ؟ سلالہ چیک پوسٹ کے واقعے میں اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف اور چیف آف ائیر سٹاف کی گردنوں پر وہی خون ہے جو امریکیوں کی گردن پر ہے۔

انہوں نے اپنے جوانوں کو نہیں بچایا ۔ امریکی خوف جنرل پرویز مشرف کے ذہن پر بھی سوار تھا اور آج بھی ہمارے جرنیل اس سے نہیں نکلے ۔ ایک طرف ہم طالبان سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ جنگ بندی میں توسیع کریں اور وہ فوجی اداروں پر بھی کوئی حملہ نہ کریں ۔ دوسری طرف ہم اپنی فوج سے بھی یہ کہنا چاہتے ہیں کہ تمھارے جیٹ طیارے قبائلی عوام کے خلاف استعمال نہیں ہونے چاہئیں ۔

خیبر ، تیراہ ، میر علی اور میرانشاہ کے عوام کے خلاف استعمال نہیں ہونے چاہئیں ۔ مغربی سرحد کی ذمہ داری کا قائد اعظم محمد علی جناح1948ء میں اعلان کیا تھا کہ قبائل ہمارے بازوئے شمشیر زن ہیں ۔ اس سرحد کی حفاظت کی ذمہ داری ان کی ذمہ داری ہے۔ قبائل نے ہر جنگ میں سرحد کی حفاظت کی ہے۔ پاکستانی فوج آج سرحد کی حفاظت پر مامور نہیں بلکہ اپنے عوام کے خلاف آپریشن میں مصروف ہے۔

اس آپریش کو ترک کیا جانا چاہئے ۔ مذاکرات کے اس عمل کو اخلاص کے ساتھ آگے بڑھانا چاہئے ۔ ہم طالبان سے بھی اپیل کرتے ہیں اور انہوں نے ہمیں یہ یقین دہائی کرائی ہے کہ وہ سنجیدگی سے یہ مذاکرات چاہتے ہیں۔ لیکن فوج سے بھی ہم کہنا چاہتے ہیں کہ آپ کی نیت بھی ہمارے سامنے ہونی چاہئے ۔ میں یہ بات واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ طالبان کمیٹی کی حیثیت سے ہم نے یہ مطالبہ پہلے اجلا س میں کیا تھا کہ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے ساتھ ہماری کمیٹی کی ملاقات ہونی چاہئے ۔

لیکن ہمیں بعد میں پتہ چلا کہ یہ ملاقات تو گزشتہ حکومتی کمیٹی کی بھی نہیں ہوسکی تھی اور شائد اس وقت بھی سرکاری کمیٹی کی ملاقات ان سے نہیں ہوتی بلکہ وزیر داخلہ کے توسط سے بات ہوتی ہے ۔ میں یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ دونوں کمیٹیوں کی ملاقات ڈی جی آئی ایس آئی اور آرمی چیف سے بھی ہونی چاہئے اور فوج کا نقطہٴ نظر واضح طور پر ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ مذاکرات کے بارے میں وہ کیا چاہتے ہیں فوج کو بھی اخلاص کے ساتھ مذاکرات کے اس عمل کا حصہ بن جانا چاہئے ۔

فوج کی طرف سے ہمارے علم کے مطابق ابھی تک کسی قیدی کی رہائی عمل میں نہیں لائی گئی ۔ 19قیدی جن کے بارے میں وزیر داخلہ کہتے ہیں کہ وہ رہا ہوئے ہیں ان کے نام بھی ہمیں معلوم نہیں اور انہوں نے خود کہا ہے کہ ان میں طالبان کے مطلوبہ افراد نہیں ہیں۔ اس کے بعد مزید 13افراد کی فہرست کے حوالے سے ہم سے وعدہ کیا گیا ہے کہ ہمارے حوالے کی جائے گی اور حکومت نے ہمیں یقین دہانی کرائی ہے کہ فوج نے وہ قیدی حکومت کے حوالے کئے ہیں اور مناسب موقع پر وہ رہا ہوں گے۔

یہ قیدی ابھی رہا نہیں ہوئے تھے کہ فوج کی طرف سے ان تحفظات کا اظہار کیا جانے لگا کہ عسکری قیدیوں کو رہا کیا گیا ہے اور اس پر ہمیں تحفظات ہیں۔ میں یہ کہوں گا کہ یا تو فوج کو مذاکرات کے عمل کا براہ راست حصہ بن جانا چاہئے اور مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر اپنے تحفظات کے اظہار کا ان کو حق ہوگااور اگر وہ مذاکراتی عمل میں نہیں آنا چاہتے تو تو پھر ان کو حکومت پر مکمل اعتماد کرنا ہوگا۔

اسی تحفظ کا اظہار بالخصوص میڈیا میں کرنے کا فوج کا کوئی حق نہیں بنتا۔ اگر ان کے تحفظات ہیں تو اندرون خانہ وزیرداخلہ اور وزیر اعظم اور وزیر اعظم سے اپنے تحفظات کا اظہار کرسکتے ہیں ۔ لیکن برملا تحفظات کے اظہار کا پھر ان کو حق نہیں پہنچتا ۔ مذاکرات کے اس عمل کے بارے میں ، میں آپ کی وساطت سے پوری قوم سے یہ درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے لئے دعا گو ہوں۔

اللہ سے توبہ و استغفار بھی کریں اور اللہ سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مذاکرات کو کامیاب بنائے۔ اس وقت اس ملک کی ترقی کا انحصار سب سے پہلے امن پر ہے۔ امن کے لئے مذاکرات بالکل بنیاد ہیں اور مذاکرات کے ذریعے سے ہی یہ عمل آگے بڑھ سکتا ہے اور اس لئے مذاکراتی عمل میں فوج ، حکومت ، طالبان سب کو اخلاص کے ساتھ شریک ہونا چاہئے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان مذاکرات کو کامیاب بنائے اور اس وقت یہ جو تھوڑی بہت جنگ بندی ہے اور امن قائم ہے اللہ تعالیٰ اس کو مستقل امن میں تبدیل کرے ۔

ہم اس وقت دوہری مشکل میں گرفتار ہیں۔ مجھے ، مولانا سمیع الحق اور مولانا یوسف شاہ کو ایک طرف سے لوگ ملتے ہیں کہ ایجنسیوں نے ہمارے لوگوں کو اٹھایا ہے ۔ کل صبح سویرے میرے ساتھ لاہور کے ساتھی فجر کی نماز میں ملے اور انہوں نے کہا کہ 22/ اپریل ان کے گھر کے نوجوان، سندھ میڈیکل کالج کراچی کے طالب علم ساجد کو منصورہ کے سامنے سے ایجنسیوں کے لوگوں نے اٹھایا۔

ایک طرف یہ شکایات ہیں تو دوسری طرف وہ لوگ بھی آتے ہیں جن کے لوگ طالبان کی قید میں ہیں ، شونگڑئی مہمند ایجنسی سے جن ایف سی اہلکاروں کو اٹھایا گیا تھا ان کے لواحقین دو تین بار میرے پاس آئے ہیں۔ حکومت نے ان کو ریٹائر کردیا ہے۔ 17/ فروری کو تو مذاکرات سے اس بنیاد پر انکار تھا کہ طالبان نے اعلان کردیا کہ انہوں نے ایف سی اہلکاروں کو قتل کردیا ہے اور ایف سی نے اس لئے ان کو ریٹائر کردیا کہ وہ فوج اور حکومت کا درد سر ہی نہ رہے۔

یہ ان کی اپنے لوگوں کے بارے میں سنجیدگی ہے ۔ اسی طرح ہنگو کی شیعہ برادری کے افراد آئے تھے اور کہا کہ درہ آدم خیل میں ہمارے لوگوں کو اٹھایا گیا ہے ۔ ہم سے پیسے بھی لئے گئے تھے لیکن ہمارے آدمی نہیں چھوڑے گئے ۔ کوئٹہ سے اطلاع آئی کہ ارباب ظاہر کو اٹھایا گیا ہے اور وزیرستان پہنچادیا گیا ہے۔ ہم اس دوہری مشکل میں ہیں ۔ طالبان کے پاس قیدی ہوتے ہیں ان کے لواحقین بھی ہمارے پاس آتے ہیں اور فوج کے پاس جو پہلے قیدی ہیں اور جو اب اٹھائے جاتے ہیں ان کے لواحقین بھی ہمارے ہی پاس آرہے ہیں۔

ایک تو ایجنسیز سے ہم یہ درخواست کریں گے کہ خدارا اس سلسلے کو بند کردیجئے۔ اس ملک میں آئین اور قانون ہے ۔ اس نظام کو اس آئین اور قانون کے مطابق چلنے دیجئے ۔ آپ کا جو کام ہے اس طرح ہے جیسے باڑھ کھیت کو کھانے لگے۔ اس لئے ہم دونوں طرف سے یہ درخواست کرتے ہیں اور آپ سے بھی یہ اپیل کرتے ہیں کہ ہمارے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں یہ توفیق دے کہ دونوں طرف سے قیدیوں کی رہائی کا سلسلہ ہم شروع کریں اور یہ مذاکرات کے عمل میں بہت بڑی کامیابی ہوگی ۔

ہم سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ کتنے پُرامید ہیں ؟ آپ کو کتنا یقین ہے کہ یہ مذاکرات کامیاب ہوں گے؟ میں کہتا ہوں کہ ہم مایوس نہیں ہیں ۔ ہمیں امید ہے کہ انشاء اللہ مذاکرات کامیاب ہوں گے۔ لیکن اگر ہمیں امید نہ بھی ہو تب بھی ہمارے لئے راستہ صرف اور صرف مذاکرات کا ہے۔ مذاکرات کے علاوہ اور کوئی راستہ ہے ہی نہیں ۔ یہ مذاکرات ناکام ہوں گے تو ہم دوبارہ مذاکرات کریں گے۔

وہ ناکام ہون گے تو ہم پھر مذاکرات کریں گے۔ وہ ناکام ہوں تو پھر کریں گے۔ جب تک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوں گے تب تک ہم مذاکرات کا سلسلہ ترک نہیں کریں گے۔ ہمیں اپنے دشمن کو پہچاننا چاہئے ۔ اصل دشمن تو شیطان ہے ۔ ہمارا مقابلہ شیطان کے ساتھ ہے اور شیطان کے چیلے چانٹے شیاطین جن اور شیاطین انس سے ہمارا مقابلہ ہے۔ اس وقت یہود و ہنود اور نصاریٰ امت مسلمہ کے خلاف اکھٹے ہوئے ہیں اور ان کا مقابلہ کرنے کے لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم فوج اور قوم کو بھی ایک کردیں ۔

فوج اور طالبان کو بھی ایک کردیں ۔ ہمیں کہا جاتا ہے کہ سید منور حسن نے طالبان کو اپنا بھائی کہا۔ میں کہتا ہوں کہ میں تو فوجی کو بھی اپنا بھائی کہتا ہوں اور طالبان کو بھی اپنا بھائی کہتا ہوں ۔ یہ دونوں بھائی جو آپس میں لڑ رہے ہیں ان کے درمیان صلح کے لئے آگے بڑھا ہوں ۔ ان بھائیوں کے درمیان صلح ہونی چاہئے۔ مسلمان کا خون مسلمان کے ہاتھوں بہے یہ مجھے ہرگز قبول اور تسلیم نہیں ہے۔

میرا جتنا بس چلے میں اس خون کو روکنے کی اپنی بھر پور کوشش کروں گا۔اللہ تعالیٰ سے میری دعا ہے کہ وہ اس کی ہمیں توفیق عطا فرمائے ۔ اللہ تعالیٰ اس ملک کو امن کا گہوارہ بنادے۔ اللہ ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنی دنیا کی زندگی کو دین سے آراستہ اور پیراستہ کریں اور آخرت میں اللہ ہمیں اپنی رضا اور جنت میں داخلے سے نوازے۔ “ اس موقع پر نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ محمد ادریس، صوبائی سیکرٹری جنرل شبیر احمد خان ، صوبائی نائب امیر ڈاکٹر اقبال خلیل ،صوبائی سیکرٹری اطلاعات اسرار اللہ ایڈوکیٹ ، جماعت اسلامی ضلع پشاور کے امیر بحر اللہ خان ، ضلعی سیکرٹری جنرل حمداللہ جان بڈھنی اور ضلعی نائب امیر صابر حسین اعوان بھی موجود تھے۔

ادھرجے یو آئی (س) کے سربراہ اور طالبان کمیٹی کے رکن مولانا سمیع الحق نے کہا ہے کہ مذاکراتی عمل کو ہر صورت کامیاب بنائینگے ، کسی بھی فوجی آپریشن کا فائدہ دشمنوں کو ہوگا ، دشمن چاہتے ہیں کہ افواج پاکستان اپنے لوگوں پر حملہ کرے ۔نوشہرہ میں اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اصل مسئلہ امن وامان قائم کرنا ہے ہزاروں رکاوٹوں کے باوجود مایوس نہیں ہیں دو ماہ میں امن وامان کی صورتحال میں بہتری آئی ہے مذاکراتی عمل میں جلد پیش رفت ہوگی ۔

انہوں نے کہا کہ بیرونی طاقتیں پاکستان میں امن نہیں چاہتی مذاکرات آگے بڑھتے ہیں تو کوئی نہ کوئی بحران پیدا ہوجاتا ہے کبھی اداروں میں ٹکراؤ کبھی مصنوعی بحران پیدا کردیا جاتا ہے مغرب نہیں چاہتا کہ پاکستان میں امن قائم ہو مذاکراتی عمل کو ہر صورت کامیاب بنائینگے انہوں نے کہا کہ ملکی سرحدوں کی حفاظت کے لیے فوج کے ساتھ ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ وزارت کے حوالے سے سب ایک پیج پر ہیں جنگ بندی کے معاملے پر کوئی تناؤ نہیں ہے مایوس نہیں ہیں بات اور دو روز میں شروع ہوجائے گی ۔

جمعیت علماء اسلام (س) کے مرکزی امیر و طالبان مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے کہا ہے کہ حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی کامیابی سے ملک کے طول و عرض میں امن و امان آجائیگا ملک دشمن عناصر نہیں چاہتے کہ ملک میں امن و امان کا قیام ہو ہم پر امید ہے کہ چند دنوں کے اندر دونوں طرف سے جنگ بندی میں توسیع ہوگی تمام تر رکاوٹوں کے باوجود مذاکرات کی کامیابی کیلئے بھرپور کوششیں کررہے ہیں ہمارا ذاتی کوئی مفاد نہیں بلکہ ملک کے کروڑوں عوام کی جان و مال کے تحفظ کیلئے اپنی صلاحیتیں صرف کررہے ہیں ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعیت علماء اسلام (س) کے بلوچستان کے رہنماء و مرکزی کونسل کے رکن مولانا عبدالحلیم حاجی عبدالقیوم میر زئی اور مولانا محمد سلیم بارک سے اکوڑہ خٹک میں ملاقات کے دوران بات چیت کرتے ہوئے مولانا عبدالحلیم نے بلوچستان میں جمعیت (س) کے حوالے سے آگاہ کیا اور کہاکہ جماعتی پروگرام آگے بڑھ رہا ہے اور عوام جوق در جوق جمعیت (س) میں شامل ہورہے ہیں مولانا سمیع الحق نے صوبائی جماعت کے رہنماء پارٹی کیلئے کوششوں کو خراج تحسین پیش کیا اور کہاکہ ملک کی دینی اور مذہبی جماعتیں عوام کی خدمت میں مصروف عمل ہیں دینی مدارس اسلام کے قلعے ہیں دینی مدارس کیخلاف کسی بھی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دینگے دورہ بلوچستان کی دعوت قبول کرتے ہوئے کہاکہ مصروفیات ختم ہوتے ہی انشاء اللہ عنقریب بلوچستان کا دورہ کرونگا۔

طالبان کمیٹی کے کوآرڈینٹر مولانا یوسف شاہ نے کہاہے کہ مذاکرات میں طالبان قیدیوں کے حوالے سے دی جانے والی فہرست میں سب سے زیادہ تعداد سوات کے طالبان قیدیوں کی ہے جن کی تعداد 350کے قریب ہیں سوات کے قیدیوں کے رہائی کے حوالے سے سنجیدہ ہیں اور سوات کا ایک نمائندہ ہمارے ساتھ باقاعدہ مذاکراتی عمل شریک ہیں ہماری کوشش ہے کہ سوات کے قیدیو ں کے حوالے سے جتنے بھی مسائل ہو وہ ترجیحی بنیادوں پر حل کریں اور درپیش مسائل کے حل کے ساتھ ساتھ اس کا ازالہ کریں ان خیالات کا اظہار اُنہو ں نے سوات میں میڈیاسے گفتگوکرتے ہوئے کیا اُنہو ں نے کہاکہ مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے اور اب فیصلہ سازی کاوقت آیا ہے فریقین سے کہاہے کہ وہ دونوں طرف سے اپنے اپنے مطالبات کے فہرستوں کو حتمی شکل دیں اور وہ سنجیدگی کا مظاہرہ کریں تاکہ ان مسائل اور مطالبات پر مستقل طورپر بحت شروع کی جاسکیں اور اس کو آنجام تک پہنچادیں اُنہوں نے کہاکہ پاکستان میں جاری یہ جنگ آج کل کی نہیں ہے بلکہ یہ 12سالہ طویل ترین جنگ ہے جس کو کافی عرصہ ہوا ہے مذاکرات کے عمل کو شرو ع کرنا اور دونوں فریقین کو ایک دوسرے کے آمنے سامنے بٹھانا ایک بڑی کامیابی ہے فائر بندی بھی ایک بڑی کامیابی ہے مذاکرات میں ڈیڈلاک جلد ختم ہوگا جلد دونوں فریقین کے مابین مذاکرت شروع اور گلے شکوے دور ہونگے مذاکرتی عمل سے ایک سو فیصد مطمئن ہیں دونوں طرف کے کمیٹیاں مخلص ہیں اور سب سے زیادہ خو ش آئند بات یہ ہے کہ مذاکرات کو فوج ،حکومت اور طالبان کی حمایت حاصل ہیں ۔

مزید متعلقہ خبریں پڑھئیے‎ :