سپریم کورٹ نے چیئرمین نیب کیخلاف عمران خان کی درخواست خارج کردی،چیئرمین نیب کی تقرری کیخلاف درخواست کاکوئی قانونی جوازنہیں عمران خان تبدیلی چاہتے ہیں تو قانون سازی کروائیں، اعتزاز احسن ، صدر ربڑ اسٹمپ نہیں، آصف علی زرداری کا معاملہ مختلف ہے وہ تو وزیراعظم سے بھی زیادہ بااختیار تھے ،جسٹس سرمد جلال عثمانی کے ریمارکس،عمران خان کا نیب کے موجودہ سربراہ کی تقرری کے خلاف درخواست پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر افسوس کا اظہار ، عدالت عظمیٰ کا مکمل احترام کرتے ہیں تاہم چیئرمین نیب تقرری کے حوالے سے موقف کا اعادہ کرتے ہیں،ملک میں جمہوریت بدعنوانی  اقرباء پروری اور مک مکا کے گہرے سائے میں رینگ رہی ہے ،چیئرمین تحریک انصاف

ہفتہ 19 اپریل 2014 07:32

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔19اپریل۔ 2014ء ) سپریم کورٹ نے چیئرمین نیب قمر زمان چودھری کی تقرری کیخلاف عمران خان کی درخواست خارج کر دی ہے۔چیرمین نیب قمرزمان کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے کی۔ سماعت کے دوران عدالتی معاون خواجہ حارث نے بتایا کہ نیب ایکٹ کے تحت قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف میں مشاورت ضروری ہے جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ اپوزیشن لیڈر کیسے تعینات ہوتا ہے؟ کیا وہ دوسری بڑی سیاسی جماعت سے ہوتا ہے یا جسے سب سے زیادہ ارکان کی حمایت حاصل ہو۔

اس موقع پر سید خورشید شاہ کے وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر وہ ہوتا ہے جس کو سب سے زیادہ اپوزیشن ارکان کی حمایت حاصل ہو۔جسٹس سرمد جلال عثمانی نے ریمارکس دیئے کہ صدر ربڑ اسٹمپ نہیں، آصف علی زرداری کا معاملہ مختلف ہے وہ تو وزیراعظم سے بھی زیادہ بااختیار تھے جس پر اعتزاز احسن نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد صدر وزیراعظم کی سفارش ماننے کا پابند ہے۔

(جاری ہے)

چیئرمین نیب کے وکیل قمر افضل ایڈووکیٹ نے دلائل میں موقف اختیار کیا ہے کہ قمر الزامان کے حوالے سے وزارت کامرس ، ایف آئی اے اور نیب نے تحقیقات کے بعد ان کو معصوم قرار دیا ان کی ذات پر کیچڑ اچھالا جارہا ہے 42سال کی سروس میں ان پر کوئی دھبہ نہیں ہے ۔ ضیاء الحق کے حوالے سے کتاب میں جس شخص کا تذکرہ ہے وہ میں نہیں ہوں خورشید شاہ کے وکیل اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ صدر صوابدیدی اختیارات کے باوجود وزیراعظم کی ایڈوائس کے پابند ہیں یہاں تک کہ وہ ذاتی سالگرہ بھی وزیراعظم کی ایڈوائس کے بغیر نہیں منا سکتے عمران خان کے وکیل حامد خان نے کہا ہے کہ صدر مملکت سے چیئرمین نیب کے معاملے پر مشاورت نہیں کی گئی آرٹیکل 48 کے باوجود آرٹیکل 101 میں ترمیم کرکے واضح کردیا گیا کہ صدر مملکت سے مشاوت اور ایڈوائس دو مختلف چیزیں ہیں وفاق کے وکیل خواجہ حارث نے کہا ہے کہ چیئرمین نیب کی تقرری کے لئے صدر مملکت سے مشاورت بہرحال لازمی ہے مگر جیسے ہی وزیراعظم کی ایڈوائس آئی یہ مشاورت ہی قرار دی گئی ہے صدر چاہے تو اس کو واپس کرسکتا تھا مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا ۔

اس سے قبل چیئرمین نیب قمر الزمان کی تقرری کے حوالے سے کیس کی سماعت کے دوران بیرسٹر چوہدری اعتزاز احسن پیش ہوئے عدالت نے کہا کہ آپ کو گیارہ بجے تک دلائل مکمل کرنا ہیں کیونکہ اس کے بعد لارجر بینچ نے مقدمے کی سماعت کرنا ہے اعتزاز احسن نے کہا کہ میں نے بہت ہی اہم فیصلوں کا حوالہ دینا ہے وزیراعظم کے اختیارات بارے بات کرنا ہے صدر مملکت نے وزیراعظم کی ایڈوائس پر کام کرنا ہوتا ہے اس بات کو 1997ء میں الجہاد کیس میں ڈسکس کیا گیا ہے یہ صدارتی ریفرنس پر ہونے والے سماعت پر دیا گیا فیصلہ بھی ہے صرف چند معاملات پر صدر مملکت کو صوابدیدی اختیارات حاصل ہیں صدر مملکت کا عہدہ بلاشبہ ایک اہم عہدہ ہے قومی معاملات میں وہ وفاق کے اتحاد کا مظہر ہے مگر جہاں تک اختیارات بارے بات ہے تو وزیراعظم کو زیادہ اختیارات حاصل ہیں آرٹیکل 224 میں وہی بات کی گئی ہے جو نیب آرڈیننس کی سیکش چھ میں کہی گئی ہے اسمبلی کی یہ برخواستگی یا وقت مکمل ہونے پر صدر مملکت نگران حکومت کا قیام کے لئے وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف سے مشاورت کرینگے اور مشاورت سے نگران وزیراعظم کا تقرر کیا جائے گا ۔

صوبوں میں گورنرز کی یہی صورتحال ہے پانچ رکنی لارجر بینچ نے 2013ء میں فیصلہ دیا ہے جس میں ججز کی تقرری کے معاملات پر بحث کی گئی ہے بیسویں ترمیم کے تحت صدر وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف پر نگران حکومت کے حوالے سے مشاورت کرے گا یہ آرٹیکل 224اے میں واضح کیا گیا ہے کہ صدر مملکت کو وزیراعظم کی ایڈوائس پر کام کرنا ہوتا ہے ۔ اب صدر مملکت صرف تقرر کرتا ہے جو باقی سب ذمہ داری اسمبلی کے وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف نے کرنا ہوتا ہے صدر مملکت کے پاس وزیراعظم کے احکامات پر عمل کرنے کے اور کوئی چوائس نہیں ہے جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ حامد خان کا کہنا تھا کہ صدر مملکت کو اتنا ہی مشاورت میں اختیار دیا گیا ہے جتنا وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کو حاصل ہے اعتزاز احسن نے کہا کہ صدر مملکت اگر اپنی سالگرہ بھی مناتا ہے تو بھی وزیراعظم کی ایڈوائس پر ہی منا سکتے ہیں ۔

سپریم کورٹ نے 2010ء میں افتخار احمد بنام سی ای سی کیس کا حوالہ دیا ہے جمشید دستی کے حوالے سے بہت مضبوط دلائل اختیار کئے گئے تھے ڈگری جعلی ہے لیکن ہوا یہ کہ ریزرویشن مضبوط ہونے کے باوجود جمشید دستی نے استعفیٰ دے دیا عدالت نے درخواست غیر موثر قرار دے دی گئی ۔ ممبر صوبائی اسمبلی اجمل نے بھی عدالت میں پیش ہوئے بغیر استعفیٰ دے دیا ۔ دونوں درجہ بالا افراد نے دوبارہ ضمنی انتخاب میں حصہ لیا تو مخالف امیدواروں نے کروٹ ریزرویشن پر درخواستیں دیں جس پر عدالت نے فیصلہ دیا اور آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت فیصلہ میں کوئی اپیل ہی نہیں ہوتی آپ اپیل لے لیتے ہیں اس کو روکنے کی ضرورت ہے جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ ہم اس پر انحصار کرتے ہیں یا آئین ہمیں اجازت دیتا ہے اعتزاز احسن نے کہا کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے کہا تھا کہ 184(3) کے تحت ہونے والے فیصلے کیخلاف اپیل کا حق یا انٹرا کورٹ اپیل کا حق دینے کے لئے سپریم کروٹ رولز میں ترمیم ہونی چاہیے ۔

ارسلان افتخار کیس کا بھی حوالہ دیا ریزرویشن ٹھوس ہونے کے باوجود اس کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی ٹرائل اور ٹھوس شوائد کے بغیر کسی کو گناہ گار قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ ٹرائل کورٹ ہی ٹرائل کرسکتی ہے ہم نے تو صرف حقائق کا پتہ چلانا تھا ۔ ارسلان افتخار ،ملک ریاض سمیت تمام لوگوں کو شفاف ٹرائل کا حق حاصل ہے اس لئے سپریم کورٹ نے کوئی کارروائی نہیں کی جسٹس ناصر الملک نے کہا ک 184(3) کے تحت کوئی بھی شخص آسکتا ہے انفرادی طور پر درخواست درج کرنے کی اجازت دی گئی مگر سیاسی جماعت کی جانب سے درخواست دینے کی اجازت نہیں دی گئی ۔

اعتزاز احسن کے دلائل مکمل ہونے پر وفاق کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل کا آغاز کیا اور کہا کہ وہ مشاورت کے حوالے سے دلائل دینا چاہیں گے صدر مملکت نے چیئرمین نیب کا تقرر کرنا ہے اور وہ بھی قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے ہی کرنا ہے صدر مملکت سے مشاورت کا مطلب وہ نہیں ہے جس کے حوالے سے حامد خان نے بات کی ہے جیسے ہی تینوں مشاورتی افراد کو کسی شخص کا بتایا جاتا ہے کہ فلاں شخص کو فلاں عہدے کے لئے تعینات کیا جاتا ہے تو اس پر مشاورت کا عمل مکمل ہوجاتا ہے ہر مشاورت شخص کو کسی بھی شخص کا نام دینے کا اختیار ہے تینوں افراد کو اپنی مرضی کے شخص پر مشورہ دینے کا حق ہے مشاورت کا مقصد یہ ہے کہ تمام لوگوں میں اتفاق رائے پیدا کیا جاسکتے پہلے قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کی آپس میں مشاورت ضروری ہے بعد میں صدر مملکت سے بھی مشاورت ہوگی آرٹیکل 61کے تحت وزیراعظم صدر مملکت کو منظوری کیلئے کہنا ہے آرٹیکل 48بھی صدر مملکت کے لیے وزیراعظم کی ایڈوائس پرعمل کرنا پابند بناتا ہے جب صدر مملکت کے پاس سمری جاتی ہے اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ وہ وزیراعظم سے مشاورت کرلے اور منظوری دے دی ۔

صدر مملکت کے پاس آرٹیکل 61کے تحت کسی بھی سمری پر عدم اتفاق ہونے پر واپس بھجوا سکتی ہے مگر دوسری بار آنے والی سمری وہ مسترد نہیں کرسکتے قانون یہ نہیں کہتا کہ کون مشاورت کرائے گا مگر مشاورت ہوگی عدالت کو دیکھنا ہوتا ہے کہ منظوری دینے وقت کسی قانون کی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی ۔ چوہدری نثار علی خان کیس میں عدالت نے فیصلے دے رکھا ہے چیئرمین نیب کے معاملے پر حکومت نے مشاورت کے تمام قواعد و ضوابط پورے کئے ہیں سب سے پہلے مشاورتی افراد کے درمیان اتفاق رائے ہونا ضروری ہے جمہوری نظام یہاں کام کررہا ہے اس کے اپنے خامیاں ہوتی ہیں مگر اپوزیشن لیڈر تمام اپوزیشن کی جماعتوں کی نمائندگی کرتا ہے جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ جس جماعت کی زیادہ نشستیں ہوں گی تو کیا اس میں سے قائد حزب اختلاف کا انتخاب ہوگا ۔

خواجہ حارث نے کہا کہ قومی اسمبلی رولز کے مطابق سپیکر اکثریتی جماعت تو کو قائد حزب اختلاف کے لئے دعوت دیتا ہے جسٹس ناصر الملک نے قائد ایوان اور وزیراعظم دو مختلف دفاتر ہیں تو قائد ایوان ان کے تحت انہیں کسی طرح الگ کیاجائے گا دونوں عہدے ہوتے وزیراعظم کے پاس ہوتے ہیں ایک طرف ایک ہی شخص چیئرمین نیب کے نام پر مشاورت کررہا ہوتا ہے اور دوسری طرف وہی شخص بطور وزیراعظم کے ایڈوائس بھی بھجواتا ہے کیا وہ اس سارے پراسس پر اثرانداز نہیں ہوتا ؟ قائد ایوان کوئی اور ہو تو کیا مشاورت وزیراعظم کرے گا یا قائد ایوان کرے گا خواجہ حارث نے کہا کہ دونوں عہدے ایک ہی شخص کے پاس ہوتے ہیں وہی مشاورت اور ایڈوائس بھجواتا ہے اپوزیشن لیڈر ہی پوری اپوزیشن کی نمائندگی کرتا ہے اس لئے سب جماعتوں سے مشاورت کی ضرورت نہیں رہتی آئینی مینڈیٹ تو یہ ہے کہ صدر مملکت نے تمام معاملات وزیراعظم کی ایڈوائس پر کام کرتے ہیں مگر بعض معاملات میں انہیں صوابدیدی اختیارات حاصل ہیں ۔

شاہد اورکزئی کیس میں وزیراعظم نے قائد حزب اختلاف سے مشاورت کئے بغیر چیئرمین نیب کی تقرری کی تھی اسی وجہ سے تقرری کالعدم قرار دی گئی مشاورت کا اصل مقصد صدر مملکت سے نہیں بلکہ وزیراعظم نے قائد حزب اختلاف سے اتفاق رائے پیدا کرنا ہے کیونکہ اگر کوئی شاکی ہوسکتا ہے تو وہ قائد حزب اختلاف ہی ہوتا ہے این آئی سی ایل کیس میں قمر الزمان کی نظر ثانی کی درخواست زیر سماعت ہے مگر کیس میں نظریہ تقرری پر بات نہیں کی گئی ہے اس لئے موجودہ مقدمے میں اس کو مدنظر رکھ کر فیصلہ نہیں کیا جاسکتا توہین عدالت کا معاملہ ہے مگر یہ معاملہ براہ راست نہیں ہے ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ہی تقرری کی گئی ہے ایف آئی اے وزارت کامرس نے بھی ان کے حوالے سے تحقیقات کی تھیں اور قمر الزامان کو کلیئر قرار دیا تھا ۔

چیئرمین نیب کو آرٹیکل 209 کے علاوہ فارغ نہیں کیا جاسکتا جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ دو چیئرمین تو نوکری سے فارغ کئے گئے خواجہ حارث نے کہا کہ ان کی تقرری ہی غلط ثابت ہوئی تھی اس وجہ سے وہ فارغ ہوئے جون 2011ء کو شوکاز نوٹس قمر الزمان کو جاری کیا گیا ان پر الزام تھا کہ انہوں نے تفتیشی تبدیل کیا تھا اس کیس میں سپریم کورٹ میں مزید پیش رفت نہیں ہوئی تھی دو سال قبل یہ کیس شروع ہوا تھا مگر جب ان کی تقرری کی گئی تھی اس وقت اس کی سماعت نہیں ہورہی تھی جب تک عدالت ان کو گناہ گار قرار نہیں دے دیتی چیئرمین نیب کو عہدے سے الگ نہیں کیا جاسکتا توہین عدالت کیس میں ان پر فرد جرم عائد کی جانا ہے جسٹس سرمد نے کہا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جب تک الزامات ثابت نہ ہوجائیں کسی کے کنڈکٹ پر فیصلہ نہیں دیا جاسکتا اور اس کی بنیاد پر نااہل قرار نہیں دیا جاسکتا خواجہ حارث نے کہا کہ کسی امیدوار کی فٹنس کے حوالے سے عدالت فیصلہ نہیں دے سکتی یہ انتظامی معاملہ ہے آئین کے تحت اس کا جائزہ لینے کا اختیار صرف صدر ، وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کو حاصل ہے ۔

جسٹس سرمد نے کہا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کہہ دیتی ہے کہ فلاں شخص کا ماضی صحیح نہیں ہے اس لئے اس کو چیئرمین مقرر نہ کیا جائے تو پھر کیا ہوگا دیدار شاہ اور فصیح بخاری کی تقرری کو غلط قرار دیا گیا تھا خواجہ حارث نے کہا کہ حکومت اس کا جائزہ ضرور لے گی مگر یہ رکاوٹ نہیں بن سکتا کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے کہنے پر تقرری نہ کی جائے 1975ء سپریم کورٹ فیصلے کا حوالہ دیا ایف آئی آر درج ہوجائے شوکاز نوٹس جاری ہوجائے جب تک کیس ثابت نہیں ہوگا وہ مجرم قرار نہیں دیا جاسکتا قمر الزامان کے وکیل قمر افضل نے کہا ک مجھے پارلیمنٹ نے تعینات کیا ہے بیالیس سالہ میری خدمات پر دھبہ لگنے کا احتمال ہے اس لئے کورٹ آیا ہوں میڈیا میں میرے بارے بہت کچھ غلط لکھا جارہا ہے میری ذاتیات پر حملے کئے گئے جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ ہم نے محمود اختر نقوی کو اس موضوع پر بات کرنے سے روک دیا تھا قمر افضل نے کہا کہ کتاب میں جس شخص کا حوالہ دیا گیا ہے وہ شخص میں نہیں ہوں جس شخص کے بارے میں بات کی گئی ہے وہ کوئی اور ہے این آئی سی ایل کیس اور توہین عدالت کیس کا سامنا کررہا ہوں ۔

میرے خلاف عدالت نے این آئی سی ایل کیس میں سخت ریمارکس دیئے ہیں جس نے اس کا جواب دے دیا تھا میرے بارے میں آچکا ہے کہ میرا اس ایاز نیازی معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے 18مئی 2011ء کو یہ حقائق سامنے آئے تھے میرے تمام ریکارڈ کا جائزہ لے کر مجھے کلیئر قرار دیا گیا میرے خلاف کوئی ریکارڈ اور شہادت موجود نہیں ہے پھر مجھے اس طرح سے تنقید کا نشانہ کیوں بنایا جارہا ہے میرے خلاف ابھی تک کوئی فرد جرم عائد نہیں کی گئی تین اداروں وزارت کامرس ، ایف آئی اے اور نیب نے میرے بارے میں تمام تر تحقیقات کیس اور ایاز نیازی معاملے میں مجھے بے گناہ قرار دیا ہے میرے پورے کیریئر میں صرف یہی توہین عدالت کا معاملہ ہے جس کا میں سامنا کررہا ہوں قریشی کو میں نے تحقیقات سے الگ نہیں کیا جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ آپ کیخلاف آپ کی تقرری کے بعد عدالت نے دوسرا آرڈر جاری کیا تھا ایک 2011ء کے معاملہ ہے دوسرا آپ کی تقرری کے بعد کا ہے آپ پہلے معاملے کی وضاحت کررہے ہیں یہ سماعت تو تاحال جاری ہے قمر افضل نے کہا کہ ظفر قریشی کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے جنہوں نے کہا ہے کہ واحد قمر الزمان ہی وہ بیورو کریٹ ہیں کہ جنہوں نے آئی سی ایل کیس میں میری معاونت اور حمایت کی ہے میں نے دو سی ایم ایز داخل کررکھی ہیں ایک میں یہاں حلفی اور جامع جواب داخل کیا ہے اس کا جائزہ لیا جاسکتا ہے صدر مملکت کو مشاورت کے حوالے سے بہت ہی کم حق حاصل ہے میں نے وہ فیصلہ بھی ساتھ لگایا ہے کہ کس طرح سے اگر ایک شخص ملازمت میں ہو اور ریٹائرمنٹ کے لئے کسی شخص کو چیئرمین نیب مقرر کیا جاسکتا ہے چار ماہ سے کام کررہا ہوں 42مقدمات میں ریفرنس بھجوائے ہیں ایک وزیراعلیٰ کے بھائی کو گرفتار کیا ہے درخواست گزار کے وکیل حامد خان نے جواب الجواب پیش کیا ۔

مجھے درخواست دائر کرنے کا حق حاصل ہے یہ حق بے نظیر بھٹو کو بھی دیا جاسکتا ہے سیاسی جماعتیں درخواستیں دائر کرتی رہی ہیں اور عدالت ان کی سماعت کرتی رہی ہیں قاضی حسین احمد کی درخواست کی سماعت بھی عدالت کرچکی ہے اپوزیشن جماعتوں میں تحریک انصاف دوسرے نمبر پر ہے لیڈر آف دی ہاؤس وزیراعظم نہیں ہوسکتا آئین بنانے والوں نے وزیراعظم کی بجائے قائد ایوان سے مشاورت کا کہا ہے عدالت نے ریزرویشن نہیں فائنڈگ دی ہے جن پر عمل کرنا ضروری ہے معاملہ توہین عدالت کا اس لئے اہم ہے کیونکہ سپریم کورٹ نے یہ حکم دیا ہے کہ وزیراعظم کی جانب سے صدر مملکت کو بھجوائی گئی سفارش ایڈوائس مشاورت نہیں ہے سترہویں ترمیم میں آرٹیکل 101میں ترمیم کی گئی تھی اور گورنرز کی تقرری کے لئے صدر مملکت کا وزیراعظم سے مشاورت کرنا ضروری تھا جبکہ آئین میں تو آرٹیکل 48موجود تھا اس کے باوجود یہ ترمیم آنے کا مقصد یہ ہے کہ صدر مملکت کے ا ختیارات کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کے وکیل اعتزاز احسن نے درخواست پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے چیرمین نیب کی تقرری کی حمایت کی، چیرمین نیب کی تقرری کے خلاف درخواست قابل سماعت نہیں ہے، چیرمین نیب کی تقرری کے خلاف درخواست سے متعلق کوئی قانونی جواز نہیں بنتا اگر عمران خان تبدیلی چاہتے ہیں تو پارلیمنٹ میں قانون سازی کے لیے کہہ سکتے ہیں۔

عدالت نے وکلا کے دلائل سننے کے بعد کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے عمران خان کی درخواست مسترد کر دی۔ادھرچیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے قومی احتساب بیورو کے موجودہ سربراہ کی تقرری کے خلاف دائر کردہ درخواست پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر انتہائی افسوس کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ وہ اور ان کی جماعت عدالت عظمیٰ کا مکمل احترام کرتے ہیں تاہم چیئرمین نیب تقرری کے حوالے سے وہ اپنے موقف کا اعادہ کرتے ہیں اور قمر زمان چوہدری کی بطور چیئرمین نیب تقرری کو حکومت اور پیپلز پارٹی کے درمیان مک مکا کا نتیجہ سمجھتے ہیں چنانچہ یہی وجہ ہے کہ عدالت میں پیپلز پارٹی کے وکیل ہونے کے باوجود اعتزاز احسن نے حکومت کی طرفداری اور وکالت کی۔

اسلام آباد سے جاری بیان میں انتہائی تاسف کا اظہار کرتے ہوئے چیئرمین تحریک انصاف نے کہا ہے کہ ملک میں جمہوریت بدعنوانی  اقرباء پروری اور مک مکا کے گہرے سائے میں رینگ رہی ہے جس میں احتساب اور مخلص قیادت کے لئے آہ و بقاء کرنے والے عوام کو تبدیلی کی جھلک تک میسر نہ آئے گی۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اس معاملے میں مک مکا کا رستہ اختیار کرنا مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کی مجبوری تھی کیونکہ دونوں جماعتوں کی قیادت کے دامن بدعنوانی کے سنگین مقدمات سے آلودہ ہیں اور وہ ان تمام مقدمات سے پیچھا چھڑانے کے لئے پوری تگ و دو میں مصروف ہیں اور اب ان مقدمات کے خاتمے کی ذمہ داری مل جل کر نیب کے موجودہ سربراہ کو سونپی گئی ہے۔

اپنے بیان میں چیئرمین تحریک انصاف نے دونوں جماعتوں کے مابین مک مکا کو بے نقاب کرتے ہوئے حقائق پیش کئے جن کی روشنی میں چیئرمین نیب کی اس عہدے پر قابلیت کی حقیقت بھی آشکار ہوئی ہے۔ چیئرمین تحریک انصاف کے مطابق آصف علی زرداری کے مقدمات کی پیروی کرنے والے پراسیکیوٹرز گزشتہ انتظامیہ کی جانب سے مقرر کئے گئے تھے جنہیں اپنے عہدوں پر برقرار رکھا گیا ہے۔

اور جو ان مقدمات میں بااثر شریک ملزمان کے لئے ہمنواؤں کا کردار ادا کر رہے ہیں کیونکہ ان کی جانب سے 2011 ء میں ان مقدمات کے شریک ملزمان کو انتہائی متنازعہ انداز میں بری کیا گیا۔ میڈیا میں آنے کے بعد چیف جسٹس نے اس کا نوٹس لیا اور اسے لاہور ہائی کورٹ کے حوالے کرنے کے احکامات دئیے۔ لاہور ہائی کورٹ نے فراہم کردہ معلومات کی جانچ پڑتال کے بعد تحقیقات کا حکم دیا جو کہ متعلقہ احتساب ججوں کے خلاف تاحال جاری ہیں چنانچہ چوہدری ریاض نامی پراسیکیوٹر نے یہ اہم ترین حقائق راولپنڈی احتساب عدالت سے پوشیدہ رکھے اور جان بوجھ کر عدالت کو آگاہ نہیں کیا۔

، نیب کے سربراہ کے تقرر کے ساتھ ہی راولپنڈی کی احتساب عدالت جسے شریک ملزمان کی متنازعہ بریت کے بارے میں نیب کی جانب سے آگاہ نہیں کیا گیا  زرداری کے خلاف ایس جی ایس کوٹیکنا ریفرنس کی سماعت ممکنہ طور پر چند ہفتوں میں مکمل کر لے گی، ایس جی ایس کوٹیکنا کیس میں شریک بااثر ملزمان کو فائدہ پہنچانے کے لئے نیب کا مذکورہ پراسیکیوٹر اے آر وائی گولڈ ریفرنس کے اشتہاری جاوید طلعت کو بطور گواہ پیش کر رہا ہے۔

چیئرمین تحریک انصاف نے کہا کہ مک مکا کی اس سیاست کے پیش نظر شریف برادران خصوصاً شہباز شریف انتخابات سے قبل زرداری کی جانب سے قوم کی لوٹی گئی دولت کی وطن واپسی کے حوالے سے کئے گئے وعدے فراموش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکمرانوں کی جانب سے عوام کے ساتھ روا رکھے جانے والی یہ نا انصافی اور ظلم انتہائی شرمناک ہے۔