مذاکرات کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کی راہ میں مشکلات بہت زیادہ ہیں،پروفیسر ا براہیم، یہ آسان کام نہیں لیکن بات چلے گی تو بات بنے گی، امیدہے مذاکرات کامیاب ہونگے، حکومت نے جن قیدیوں کو چھوڑا ہے ان کی فہرست ہمیں نہیں دی گئی، ملکی و غیر ملکی ریڈیو و ٹیلی وژن چینلز کو انٹرویوز

پیر 14 اپریل 2014 06:47

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔14اپریل۔2014ء)جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے امیر اور طالبان کمیٹی کے رکن پروفیسر محمدا براہیم خان نے کہا ہے کہ حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کی راہ میں مشکلات بہت زیادہ ہے ۔ یہ آسان کام نہیں لیکن بات چلے گی تو بات بنے گی۔ حکومت اور طالبان دونوں فریق مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کے حل میں سنجید ہے اور مخلص نظر آتے ہیں جس کی بنا پر ہمیں اُمید ہے کہ مذاکرات انشاء اللہ تعالی کامیاب ہونگے۔

حکومت نے جن قیدیوں کو چھوڑا ہے ان کی فہرست ہمیں نہیں دی گئی ۔ اگر ہمیں یہ بتادیا جائے کہ طالبان نے جن قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا تھا اُن میں سے کچھ لوگوں کو رہا کیا گیا ہے تو ہم طالبان پر دباؤ ڈالیں گے کہ وہ بھی پروفیسر اجمل خان ، سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور سابق گورنر پنجاب کے بیٹے سمیت دیگر غیر عسکر ی قیدیوں کو رہا کریں۔

(جاری ہے)

ان خیا لات کااظہار انہوں نے اتوار کے روز المرکز اسلامی پشاور میں بعض ملکی و غیر ملکی ریڈیو و ٹیلی وژن چینلوں کو الگ الگ انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔ پروفیسر محمد ابراہیم خان نے کہا کہ حکومت طالبان مذاکرات کو ناکام بنانے کے لئے بہت ہاتھ سرگرم عمل ہیں لیکن اُمید ہے کہ ہم تمام تر مشکلات پر قابو پالیں گے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اُن کے خیال میں حکومت طالبان مذاکرات کی راہ میں سے بڑی رکاوٹ اعتماد کا فقدا ن ہے۔

جوں جوں اعتماد بڑھے گا ، کامیابی کی راہیں کھلتی جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کا شروع ہونا بڑی کامیابی ہے اور اس سے اعتماد سازی میں مدد ملی۔ انہوں نے کہا کہ کور کمانڈر کانفرنس میں حکومت طالبان مذاکرات کی حمایت کا اعلان کیا گیا تھا اور یہ فیصلہ ہوا تھا کہ فوج براہ راست مذاکرات میں شریک نہیں ہوگی اور حکومت جو فیصلہ کریگی اس کی حمایت کریگی ۔

اس وجہ سے ہمارا یہ خیال تھا کہ مذاکرات کے حوالے سے حکومت اور فوج ایک ہی صفحے پر ہے۔ تاہم بعد ازاں فوج نے حکومت اور طالبان مذاکرات کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا جس کی وجہ سے مذاکرات کا آئندہ دور شروع کرنے میں تاخیر ہو گئی او رمذاکرات تعطل کا شکا ر ہو گئے ۔ تاہم انہوں نے کہا کہ فوج حکومت کا ہی ایک ادارہ ہے اور یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ ان معاملات کو دیکھے اور اگر فوج کو کچھ تحفظات ہیں تو بھی حکومت اور فوج کا معاملہ ہے اور حکومت ہی اسے بہتر حل کر سکتی ہے۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایک طرف فوج کی طرف سے حکومت طالبان مذاکرات پر تحفظات اور دوسری طرف حکومت پرویز مشرف کے مسئلے میں اُلجھی رہے اس وجہ سے بھی مذاکرات کو جاری رکھنے میں کچھ تاخیر ہو گئی ہے لیکن اُمید ہے کہ آئندہ دو تین روز میں مذاکراتی عمل دوبارہ شروع ہو جائے گا۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ افغانستان اور پاکستان کا امن ایک دوسرے سے جڑا ہو اہے ۔

انہوں نے اس تاثر کو رد کر دیا کہ پاکستان میں حکومت طالبان مذاکرات کی کامیابی کا افغانستان کے امن پر منفی اثر پڑیگا اور اس سے افغانستان میں شورش میں اضافہ ہوگا ۔ انہوں نے کہاکہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان اور پاکستان دونوں میں افہام و تفہیم اور مذاکرات کے ذریعے مسائل کیے جائیں اور اچھی بات یہ ہوگی کہ مزید تباہی و بربادی سے پہلے ہی مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کیے جائیں کیونکہ بلاآخر مسائل کے حل کا راستہ مذاکرات ہی ہیں۔

اس لئے اچھا ہوگا کہ مزید تباہی کے بعد مذاکرات کی بجائے اب ہی یہ مذاکرات ہوں ۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ درست ہے کہ دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ طالبان کے بعض گروپوں کے درمیان جھرپوں کی وجہ سے بھی مذاکرات میں تعطل پڑا ۔ تاہم انہوں نے کہا کہ طالبان نے شاید اپنی اندرونی مشکلات پر قابو لیا ہے اور اب توقع ہے کہ مذاکرات کی ریل دوبارہ پٹری پر چڑھ جائیگی ۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف کو شش کر رہے ہیں کہ پرویزمشرف اور آصف زرداری کی تباہ کن پالیسیوں کو تبدیل کرکے ملک میں امن کی طرف سفر کو تیز کیا جائے لیکن یہ بہت محنت طلب کام ہے اور اس راہ میں مشکلات اور رکاوٹیں ہیں تاہم انہوں نے کہاکہ پوری قوم مذاکراتی عمل کی حامی اور اسکی پشت پر کھڑی ہے۔امیر جماعت اسلامی صوبہ خیبر پختونخوا اور طالبان رابطہ کار کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم خان نے کہا ہے کہ طالبان اور حکومت کی کمیٹیوں کے مابین مذاکراتی عمل جلد شروع ہو جائے گا۔

ہم مذاکرات کی کامیابی سے مایوس نہیں مطمئن ہیں ۔ ان خیالات کااظہار انہوں نے اتوار کے روز جامعہ احیاء العلوم منصبدار ضلع صوابی میں جماعت اسلامی ضلع صوابی کے ذمہ داران کے دو روزہ ورکشاپ کے اختتامی تقریب سے خطاب کے دوران کیا۔ جس سے صوبائی جنرل سیکرٹری شبیر احمد خان ، نائب امیر مولانا محمد اسماعیل ، مولانا امداد اللہ ، مولانا امیر حسین اور ضلعی امیر سعید زادہ یوسفزئی نے بھی خطاب کیا۔

پروفیسر محمد ابراہیم نے خطاب کر تے ہوئے کہا کہ حکومت اور طالبان کمیٹیوں کے مابین مذاکرات کامیاب ہو نگے امن لانے کے لئے مذاکرات واحد راستہ ہے اس کے علاوہ اور کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے ۔ اگر مایوس بھی ہوجائیں تو مذاکرات کا عمل جاری رکھیں گے ۔ انہوں نے حیدر کنڈاؤ اورکزئی سے سترہ افراد کے اغواء کے واقعہ کو آفسوس ناک قرار دیا اور کہا کہ اس واقعہ کے کافی لوگ رہا ہو چکے ہیں تاہم امن لانے کی ذمہ داری حکومت کی ہے علاقے میں آرمی موجود ہے بقول حکومت کے سات ایجنسی کلیر ہو چکے ہیں تو پھر وہاں امن ہو نا چاہئے انہوں نے کہا کہ طالبان ملک میں شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان جو کہ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا ہے یہاں اسلام کا عادلانہ نظام نافذ ہوں انہوں نے کہا کہ آئین پاکستان میں ایسے دفعات ہیں جو قر آن و سنت کے مطابق نہیں ہے اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ان دفعات کے شریعت کے مطابق کر سکے انہوں نے کہا کہ اگر چہ آج دنیا میں امت مسلمہ کی قیادت نہیں ہے لیکن وہ دن دور نہیں جب قیادت امت مسلمہ کے ہاتھ آجائے ۔

ہمارے پڑوس ملک افغانستان جہاں انیسویں صدی میں بر طانیہ جب کہ بیسویں صدی میں روس اور اب اکیسویں صدی میں امریکہ اور اس کے اتحادی شکست کھا رہے ہیں یہ امت مسلمہ کی قیادت آنے کے اثرات ہے انہوں نے کہا کہ خطے میں ڈالروں کے بھوکے پیاسے قیادت کی وجہ سے بد امنی ہے لیکن دہشت گردی کے نام پر اس نام نہاد جنگ میں پاکستان نہیں امریکہ اور اس کے اتحادی شکست کھائینگے۔

انہوں نے امن لانے کے لئے لشکر اسلام کی طرف حکومت کے ساتھ مذاکرات کی پیشکش کا خیر مقدم کر تے ہوئے کہا کہ تمام قوتوں کے مابین مذاکرات کے مثبت اثرات مرتب ہونگے اور طالبان کے جتنے بھی گروپ ہے وہ مذاکرات پر آمادہ ہو جائینگے ۔پروفیسر محمد ابراہیم نے کہا کہ دنیا میں بندوق اور تلوار سے اسلامی ریاست کا قیام اور دین کا غلبہ ممکن نہیں بلکہ یہ دعوت و تبلیغ سے ممکن ہے بندوق اور تلوار صرف دفاع اور استحکام کے لئے استعمال ہو تا ہے انہوں نے کہا کہ دین اقامت ہی سے مسلمان دنیا اور آخرت میں سر خرو ع ہو سکتا ہے اس لئے مسلمانوں کو قر آن و سنت پر عمل کر نا ہو گا ۔

انہوں نے کہا کہ ایک طرف رحمانی تو دوسری طرف شیطانی تحریک ہے جس میں رحمانی تحریک کی کامیابی ، دین اسلام کی غلبہ اور نظام اسلام کی عملی نفاذ کے لئے امت مسلمہ کو بیدار کرنا ہو گا۔ اور خدا وند تعالی یہ کام جماعت اسلامی کے مخلص کارکنوں اور مسلمانوں سے لے رہا ہے

مزید متعلقہ خبریں پڑھئیے‎ :

متعلقہ عنوان :