سپریم کو رٹ نے31 جولائی کے عدا لتی فیصلے کیخلاف مشرف کی نظرثانی درخواستوں پرتفصیلی فیصلہ جا ری کر دیا ، 3نومبرکوپرویزمشرف نے بطورآرمی چیف غیرآئینی اقدام کیا،سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے پرویز مشرف کے ساتھ حقیقی یا ظاہر الثانی تعصب کا برتاؤ نہیں کیا ان کا تعصب کہیں بھی ظاہر نہیں ہوتا ۔مشرف کی در خواست پر انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہو ئے اسے خا رج کیا جا تا ہے،سپریم کو رٹ

جمعہ 11 اپریل 2014 06:15

اسلا م آبا د ( اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔11اپریل۔2014ء ) سپریم کورٹ نے 31 جولائی 2009ء ایمرجنسی کے حوالے سے عدالتی فیصلے کیخلاف خارج کردہ سابق صدر پرویز مشرف کی نظر ثانی کی درخواست کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے ،42صفحات پر مشتمل فیصلہ چیف جسٹس تصدیق حسین جیلانی نے تحریر کیا ہے اور 12صفحات کا اضافی نوٹ جسٹس جواد ایس خواجہ نے تحریر کیا ہے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پرویز مشرف نے 1576 دن تاخیر سے درخواست دائر کی تھی جس کی سماعت انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے کی گئی اور میرٹ پر فیصلہ دیتے ہوئے اس کوخارج کیا گیا ۔

سابق صدر اور آرمی چیف کو ملک میں ایمرجنسی لگانے کا کوئی اختیار نہیں تھا انہوں نے غیر آئینی حکم کے ذریعے ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ کیا جس کو سپریم کورٹ نے ناجائز قرار دیا تھا جبکہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے خصوصی نوٹ میں کہا ہے کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے سابق صدر پرویز مشرف کے ساتھ حقیقی یا ظاہر الثانی تعصب کا برتاؤ نہیں کیا سابق چیف جسٹس کا تعصب کہیں بھی ظاہر نہیں ہوتا ۔

(جاری ہے)

عدا لتی فیصلے میں جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ اس وقت میں مختصر اً سائل کی طرف سے پیش کئے گئے موقف بابت تعصب کے بعض اضافی پہلوؤں پر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں ۔ سائل کے مطابق سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری سائل جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف تعصب رکھتے تھے اور نفاذِ ایمرجنسی کے مقدمے کی سماعت میں درحقیقت خود ہی ” مدعی بھی تھے اور منصف بھی“ ۔

سائل کی طرف سے اس بناء پر درخواست کی گئی ہے کہ 31-7-2009 کے عدالتی فیصلے پر نظر ثانی کی ضرورت ہے اور اسے برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔فیصلے میں کہا گیا کہ فاضل سینئر وکیل سپریم کورٹ شریف الدین پیر زادہ نے کم و بیش خود کو اسی نکتے پر بحث کرنے تک محدود رکھا ہے کہ اس مقدمے میں جنرل (ر)پرویز مشر ف اور جسٹس افتخار محمد چوہدری کی حیثیت حریف کی ہے ۔

اس بناء پر یہ فیصلہ برقرار نہیں رہنا چاہیے۔ یہ بھی کہ اس وجہ سے جسٹس افتخار محمد چوہدری کو نہ اس مقدمے کی سماعت کے لیے بنچ تشکیل دینا چاہیے تھا اور نہ ہی اس کی صدارت کرنی چاہیے تھی۔ نیز یہ کہ ایمر جنسی کا نفاذ جنرل(ر)پرویز مشرف کے عمل اور جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ردِ عمل کا نتیجہ ہے ۔ چنانچہ جسٹس افتخار محمد چوہدری کو اس مقدمے میں منصف نہیں بننا چاہیے تھا ۔

چیف جسٹس نے فاضل وکیل کی پہلی دلیل کے حوالے سے بجا طور پر یہ نشاندہی کی ہے کہ سائل کے فاضل وکیل جسٹس افتخار محمد چوہدری کے کسی بھی عمل سے یہ ظاہر کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ وہ متعصب ہیں یا وہ جانبدار تھے۔عدالت نے پیر زادہ صاحب کو 29-1-2014کو کہا کہ وہ اپنی نظرِ ثانی کی درخواست کا مطالعہ کریں جس کے 34صفحات ہیں اور جسے سپریم کورٹ کے تین سینئر وکلاء نے تحریر کیا ہے اور کسی ایسے جملے کا حوالہ دیں جسے اگر تسلیم بھی کر لیا جائے توسابق چیف جسٹس کی جانبداری ثابت ہوتی ہو ۔

پیر زادہ نے اپنی فائل کے صفحے اُلٹنے پلٹنے میں کچھ وقت صرف کیا اور اس میں سے حقیقت پر مبنی ایسے کوئی مندرجات سامنے نہیں لا سکے ، چنانچہ انہوں نے اس سلسلے میں اگلے دن تک کا وقت مانگا ۔ اگلے دن بھی وہ اپنی معروضات کے حق میں کچھ پیش کرنے میں ناکام رہے۔ اس فیصلے کا آغاز اس نکتے سے کرنے کی وجہ آگے کی گئی تحریر سے ظاہر ہو جائے گی۔ فیصلے میں کہا گیاکہ کسی جج کی جانبداری کے موقف کی دو صورتیں ہیں جنہیں ہمارا قانون مانتا ہے ۔

پہلی قسم ”حقیقی تعصب“ہے اور دوسری قسم ” ظاہری یا امکانی تعصب“ ہے جہاں کوئی ذاتی یا حقیقی تعصب نہ ہو۔حقیقی تعصب ایسے واقعات کی بنیاد پر تسلیم کیا جا سکتا ہے جو تعصب کی حد تک پہنچی ہوئی جانبداری کا الزام ثابت کرتے ہوں۔ایسے تعصب کو ثابت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ الزام لگانے والا فریق کوئی حقیقی واقعہ پیش کرے نہ کہ محض گمان کا سہارا لے ۔

یہ سوال کہ کیا یہ الزام درست ہے کہ نہیں ‘ اسی وقت پیدا ہو سکتا ہے جب ایسا کوئی متعلقہ واقعہ واضح طور پر درخواست میں تحریر ہو۔ جیسا کہ اوپر نشاندہی کی جا چکی ہے ،نظر ثانی کی درخواست ہماری بار کے تین فاضل وکلاء نے تحریرکی ہے اور اس کے علاوہ خودسائل سے ان کو ملاقات کا اور ہدایت حاصل کرنے کا موقع بھی ملا۔ موجودہ درخواست کے متن میں کسی حقیقی دلیل یا تعصب کے الزام کی عدم موجودگی میں ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ حقیقت میں کسی قسم کا کوئی تعصب تھا ہی نہیں جو کہ درخواست کی بنیاد بن سکتا ۔

چنانچہ ہم نظر ثانی کی درخواست کے ان مندرجات کا جائزہ لیں گے جن میں یہ کہا گیا ہے کہ سابق چیف جسٹس سائل کے بارے میں تعصب رکھتے تھے۔ ہمیں یہ دلیل دی گئی تھی کہ اس تعصب نے اُس وقت جنم لیا جب سابق چیف جسٹس کو غیر قانونی طورپر ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا اور انہیں اُن کے گھر میں نظر بند کر دیا گیا ۔ اس کے علاوہ اس بناء پر بھی کہ سائل نے سابق چیف جسٹس کے خلاف آئین کی دفعہ 209کے تحت ایک ریفرنس دائر کیا تھا جس کی وجہ سے سپریم جوڈیشل کونسل نے سابق چیف جسٹس کو اپنے آئینی فرائض انجام دینے سے روک دیا ۔

عدالت سے کی گئی یہ گذارش غیر منطقی ہے۔ اِن واقعات سے یہ تو اخذ کیا جا سکتا ہے کہ سائل سابق چیف جسٹس کے خلاف تعصب رکھتے تھے لیکن یہ تاثر لینا قطعاً ممکن نہیں کہ یہ واقعات سابق چیف جسٹس کا سائل کے خلاف تعصب ظاہر کرتے ہیں۔ سائل کے فاضل وکیل نے یہ بحث کی کہ کم ازکم ہم تعصب کے الزام کو اس بنیاد پر تسلیم کرلیں کہ تعصب کا امکان موجود تھا یا اس کا گمان ہوسکتاتھا حالیہ مقدمے کا یہ پہلو اورسائل کا سابق چیف جسٹس پر تعصب کا الزام لگانے کا رویہ زیادہ واضح ہوگا اگر ہم سائل کو ماضی کے منظر میں دیکھیں جس میں وہ چیف آف آرمی سٹاف یعنی سپہ سالار متعین ہوئے تھے۔

ہم صرف اس الزام کے پیچھے کارفرماسبب کو سمجھنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔اگر کوئی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے تو وہ سابق چیف جسٹس کے نام نہاد تعصب کے حوالے سے نہیں بلکہ خودسائل کے حوالے سے ہو سکتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ سائل کو شاید مسلح افواج میں اپنی طویل ملازمت کی بناء پر احکا مات کے خلاف مزاحمت سے کبھی واسطہ نہیں پڑا ۔شا ید انہیں اپنے ذہن میں ایسا لگا ہو کہ عدلیہ بشمول سابق چیف جسٹس سائل کے بعض غیر آئینی اقدامات کے خلاف مزاحمت کرکے اپنے تعصب کو ظاہر کر رہے ہیں ۔

سائل نے خود بطور سپہ سالار (COAS) ایمر جنسی کو نافذ کیا اورکسی سلطانی فرمان کی طرح اِس کا اعلان کیا ۔ اس”سلطانی فرمان “ کا متن ہی سائل کی آمرانہ سوچ کا مظہر معلوم ہوتا ہے ، ملاحظہ ہو : ”میں جنرل پرویز مشرف سپہ سالار(COAS) پاکستان کے طول و ارض میں ایمر جنسی کا اطلاق کرتا ہوں اور یہ حکم دیتا ہوں اور اعلان کرتا ہوں ... “ ایسی سوچ کا حامل شخص اس بات کو قبول کرنے میں یقیناً تاثر لے سکتا ہے کہ سابق چیف جسٹس یا دیگر جج صاحبان شاید کسی ذاتی عناد کی بنا پر ان کی حکم عدولی کر رہے ہیں یا ان کے احکامات میں مزاحم ہو رہے ہیں ۔

سائل کے ذہن میں شاید یہ خیال تک نہ آیا ہو کہ سابق چیف جسٹس اور جج صاحبان تو فقط اُس آئین کی پاسداری کر رہے ہیں جس میں سپہ سالار (COAS)کے لیے کوئی ایسے اختیارات تفویز نہیں کئے گئے جو کہ سائل نے غصب کر لیے ہیں ۔ان کی یہ سوچ ،جو شاید ان کے لیے عجیب نہ ہو ، حافظ# کے ایک مصرعے سے بیان ہو سکتی ہے:جج تنقید کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔بعض اوقات یہ تنقید شائستہ زبان میں ہوتی ہے اور کبھی غیر شائستہ زبان میں۔

دونوں صورتوں میں جج اپنی تربیت کی بناء پر اپنے فیصلے کو ایسی تنقید سے متاثر نہیں ہونے دیتے،تنقید خواہ کتنی ہی توہین آمیز زبان میں کیوں نہ ہو ،جج اپنے اندر ایسا تاثر پیدا نہیں ہونے دیتے ۔ یہ بات توہین عدالت کے مقدموں کے اعداد و شمار سے ثابت ہوتی ہے جن کا حوالہ بازمحمد کاکڑ بنام وفاق پاکستان (PLD 2012 SC 923)میں دیا گیا ہے ۔ اِن اعدادوشمارسے عیاں ہے کہ ججوں کو بعض اوقات معاندانہ روش کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان کی ذاتی توہین و تضحیک بھی کی جاتی ہے ۔

لیکن مذکورہ اعدادوشمار ثابت کرتے ہیں کہ مرتکب افراد کے خلاف غلط بیانی یا جج کی ذاتی توہین و تضحیک ثابت ہونے کے باوجود توہین کنندہ کو نہ تو سزا ہوئی اور نہ ہی جج پر فرائض ِ منصبی کی ادائیگی میں کوئی رکاوٹ آئی۔ چنانچہ یہ ممکن نہیں ہے کہ عدالتیں سائل کے داخلی اور دروُن ِسینہ احساسات کے تحت تصور کیے گئے فرضی تعصب کے الزام کو قبول کرتے ہوئے سماعت سے معذرت کر لیں۔

چنانچہ شریف الدین پیر زادہ سینئر وکیل سپریم کورٹ کو اس بات کی نشاندہی کر دی گئی تھی کہ اگر اسی طرح سائل کے فرضی تعصب کی دلیل کو مان لیا جائے تو پھر یہ کسی بھی فریق کے لیے بہت آسان ہے کہ اگروہ کسی خاص جج سے اپنے مقدمے کی سماعت کر وانے کا خواہشمند نہ ہو تو پھر اس جج کو گالیاں دینا شروع کر دے اور بعد ازاں یہ موقف اختیار کر لے کہ جج اس کے خلاف تعصب رکھتا ہے ۔

فاضل وکیل کی معروضات قانوناً قابل قبول نہیں ہیں۔ ہم پہلے ہی یہ بتا چکے ہیں کہ حقیقی تعصب ثابت کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ تعصب کا الزام لگانے والے فریق اپنی درخواست میں لکھیں کہ جج کسی ایک فریق کے حق میں یا اس کے خلاف حقیقتاً تعصب رکھتے ہیں ۔ موجودہ درخواست میں تو حقیقی تعصب کی بنیاد تک موجود نہیں ، کجا یہ کہ اس کا ثبوت بھی ہو ۔اس کے برعکس سابق چیف جسٹس کے عمل اور روّیے میں ایک باوقار تحمل کا مظاہرہ دیکھنے میں آتا ہے۔

باوجود اس کے کہ انہیں دوبا ر غیر قانونی طور پر اپنے آئینی فرائض سر انجام دینے سے روک دیا گیا تھا،سابق چیف جسٹس یا عدالت کا کوئی بھی حکم سائل کی ذاتی حیثیت کے بارے میں نہیں دیا گیا، تاہم اگر ایک لمحے کے لیے بھی تعصب کا امکان مان لیا جائے تو بھی یہ ممکن نہیں کہ یہ سمجھا جائے کہ اس کا موجودہ نظر ثانی کی درخواست سے کوئی تعلق ہے ۔فاضل وکیل نے جو نظائر پیش کئے ہیں ان میں حقائق کچھ اس طرح تھے کہ فریقین کے کسی ذاتی حق پر جج کے تعصب کی بنا ء پر اثر پڑنے کا امکان موجود تھا ۔

یقیناًانہوں نے پاکستانی عدالتوں کے جن مقدمات کا حوالہ دیا ہے ان میں ایک فریق کی آزادی داؤ پر لگی ہوئی تھی ۔ غلام رسول بنا م سرکار(PLD 1953 FC 62) کا فیصلہ جسٹس ایم آر کیانی نے کیا تھا۔اس فیصلے میں انہوں نے لاہور ہائی کورٹ کے جج کے طور پر اپیل کنندگان کو قتل کے مقدمے میں مجرم قرار دیا تھا اور سزا دی تھی۔ تاہم جسٹس کیانی نے جج مقرر ہونے سے پہلے، حکومت کے قانونی مشیر کی حیثیت میں اسی مقدمے میں رائے دی ہوئی تھی ۔

اس لیے وفاقی عدالت نے یہ فیصلہ کیا کہ چونکہ جسٹس کیانی قتل کے اس مقدمے میں سماعت کے بغیر اپنی رائے پہلے ہی قائم کر چکے تھے اس لیے امکانی تعصب کی گنجائش موجود ہے جس کی بنیاد پر جسٹس کیانی کا فیصلہ کالعد م قرار دیا گیا ۔انور بنام سرکار(PLD 1955 FC 185) کا تعلق بھی اُس سزا سے تھا جو اپیل کنندگان کو قتل کے ایک مقدمے میں دی گئی تھی۔ سیشن عدالت نے اپیل کنندگان کو بری کر دیا تھا مگر مقتول کے والد نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست نگرانی دائرکر دی تھی جسے قبول کر لیا گیا اور دوبارہ مقدمہ چلانے کا حکم دیا گیا ۔

اپیل کنندگان نے اِس فیصلے کو وفاقی عدالت میں اس بنیاد پر چیلنج کیا کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے میں بہت سخت زبان استعمال کی گئی ہے جس کے پیش نظر یہ امکان ہے کہ دوبارہ سماعت کرنے والی سیشن عدالت اس سے متاثر ہو کرمنصفانہ سماعت نہ کر سکے ۔ وفاقی عدالت نے یہ فیصلہ دیا کہ اس قسم کے تعصب کا کوئی خطرہ یا امکان نہیں ہے اور دوبارہ سماعت کا حکم بحال رکھا ۔

آصف علی زرداری بنام سرکار(PLD 2001 SC 568) میں آصف علی زرداری ، جو ایک سابق وزیر اعظم کے شوہر تھے،کو جسٹس ملک محمد قیوم کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بنچ نے احتساب ایکٹ کے تحت سزا دی تھی۔ زرداری صاحب نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ جسٹس قیوم نے اپنے اور اپنی بیگم کے لیے حکومت سے بلا استحقاق سفارتی پاسپورٹ حاصل کیے تھے ۔ جسٹس قیوم کو یہ سفارتی پاسپورٹ زرداری صاحب کے خلاف فیصلہ دینے کے عوض دیے گئے تھے ۔

ٹیلی فون پر کی گئی گفتگوکی ریکارڈنگ بھی ثبوت کے طورپر پیش کی گئی تھی جس میں جسٹس قیوم وفاقی حکومت کے عہدے داروں سے اس سلسلے میں ہدایات لے رہے تھے ۔سپریم کورٹ نے تسلیم کیا کہ تعصب صاف ظاہر ہے اس لیے ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیاگیا۔ مندرجہ بالا مقدمات کے برعکس زیرِ نظر فیصلے میں درخواست دہندہ کے ذاتی حقوق پر کوئی روک یا پابندی عائد نہیں کی گئی تھی جب کہ سندھ ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن کے مقدمے میں بنیادی طور پر3-11-2007 کے اعلانِ ایمرجنسی کے دستوری جواز اور مذکورہ اعلامیہ کے نتیجے میں کئے گئے بعض دیگر اقدامات اور اختیار کئے گئے طریقوں کے بارے میں فیصلہ کرنا تھا۔

اس مسئلے کا فیصلہ کرتے وقت عدالت نے اعلانِ ایمرجنسی کو غیر قانونی قرار دے دیا اور دیگر امور کو بھی جن میں ایمرجنسی کا نفاذ، 2007 کا عبوری دستوری حکم نمبر I ، اور 2007 کا عدلیہ کے عہدوں کے حلف کاحکم شامل تھے۔ یقینا یہ سب وہ اقدامات تھے جو سائل نے کئے تھے تاہم اس کے با وجود عدالت نے ان کے مجرمانہ یا قانونی نتائج کے بارے میں جو اس فیصلے کے نتیجے میں سائل کوپیش آسکتے تھے کوئی رائے نہیں دی تھی۔

سائل نے اتنااعتراف تواپنی نظرِ ثانی کی درخواست کے پیرا گراف30میں بھی اس طور کیا ہے۔.. اور اس بات کا تذکرہ مناسب ہوگا کہ اگرچہ معزز عدالت نے یہ اعلان کرنے کے بعد کہ 3 نومبر2007 کے اقدامات غیر دستوری تھے۔فیصلے کے عمل درآمد والے حصے میں سائل پر... غداری(کی آئینی شک 6) کے تحت مقدمہ چلانے کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ 3 نومبر 2007کے اقدامات سائل کے ذاتی مفاد میں تو ہو سکتے ہیں جیسا کہ زیرنظر فیصلے میں قرار دیا گیا ہے مگر اس بنیاد پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ججوں کی تعیناتی اور اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کو ہٹا دینے کا عمل، یک طرفہ دستوری ترامیم،ہنگامی حالت کا نفاذ وغیرہ سائل کا ذاتی استحقاق تھا، اور یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ سماعت کے بعد فیصلے کا صادر کرنا سابق چیف جسٹس آف پاکستان کے سائل کے خلاف تعصب کا اظہار ہے ۔

یہ فیصلہ جس پر نظرِ ثانی سائل کو مقصود ہے اِس عدالت کے14 ججوں نے صادر کیا تھا اور ان کی رائے ہے کہ سائل کے درجِ بالا بیان کئے گئے اقدامات غیر دستوری ہیں۔ یہ بات نوٹ کی جانی چاہیے کہ عدالت سے ریاست سے متعلق دستوری معاملات پر فیصلہ دینے کی درخواست کی گئی تھی۔ یہ معاملات سائل کی ذات سے کہیں زیادہ اہم اور بڑے تھے اور ان کا فیصلہ دستور کے مطابق کیا گیا ہے۔

اگر سائل کے موقف کو تسلیم کر لیا جائے تو یہ ، یہ کہنے کے مترادف ہو گا کہ جو جج ریاست کے کسی اہل کار کے اقدامات کے دستوری ہونے کے خلاف فیصلہ دیتا ہے وہ اس اہل کار کے خلاف ایسے تعصب کا مظاہرہ کرتا ہے جو اُس جج کو قانوناً متعصب گردانا جا سکتا ہے۔ اس دلیل کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔ عدالت کا بنیادی فریضہ ہے کہ پیش ہونے والے معاملات کی سماعت کر ے اور فیصلے دے۔

اس نکتے کی وضاحت کے لئے یہ مثال دی جا سکتی ہے جس میں وزیرِ اعظم کے مشورے پر صدرِ مملکت دستور کی دفعہ 209کے تحت اعلیٰ عدلیہ کے ایک جج کے خلاف ریفرنس دائر کرتا ہے اوراس جج کو سپریم جوڈیشل کونسل تمام الزامات سے بری کر دیتی ہے توبعد ازاں کیایہ موقف اختیار کیا جا سکتا ہے کہ اس جج کو صرف امکانی تعصب کی بنیاد پر کسی بھی صدارتی اقدام پر استفسار یا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رہے گا کیوں کہ صدر نے اس کے خلاف ریفرنس دائر کیا تھا۔

اگر اس طرح کی دلیل کو قبول کر لیا جائے تو اس سے یہ غیر منطقی صورت جنم لے گی کہ با وجود اس کے کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے جج مذکور کو تمام الزامات سے بری کردیا تھا وہ صدر یا وزیرِ اعظم کے خلاف تما م مقدمات میں غیر فعال ہو جائے گا۔ بہ الفاظ ِ دِگر ایسا جج متعصب گردانا جائے گا باوجود اس کے کہ اس نے کوئی غلط عمل نہیں کیا جس کی بنا ء پر وہ موردِ الزام ٹھہرے۔

اور یہ فقط اس بنا پر کہ ُاس کے خلاف صدارتی ریفرنس دائر ہوا لیکن ناکام ہو گیا تھا۔یہ منطق کسی بھی قانونی اصول کے تحت قابل قبول نہیں۔علاوہ ازیں اگر یہ دلیل تسلیم کر لی جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ حکومت ِوقت کو ایک طریقہ ہاتھ لگ جائے گا جس کے ذریعہ کسی جج کے خلاف ریفرنس (چاہے بے بنیاد کیوں نہ ہو ) دائر کرے اور بعد ازاں جج کو اُن مقدموں میں امکانی تعصب کی بنیاد پر غیر مؤثر کر دے جس میں حکومت فریق ہو۔

ایسی صورتِ حال دستور میں سموئے ہوئے اُس بنیادی اور سنہری اصول سے متصادم ہوگی جس کے تحت عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنایا گیا ہے ۔ ججوں کو لعن طعن،معاندانہ تشنیع، فریقینِ مقدمات کے پرُنفرت خطوط، اور بعض اوقات اراکینِ بار کی طرف سے بھی نا خوشگوار صورت پیش آتی ہے لیکن جج اپنی تربیت اور تجربے کی بناپر ایسے افراد کے مقدمات کا فیصلہ کرتے وقت ایسی باتوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ عدالت نے زیر نظر فیصلہ میں صرف یہی کہا کہ 3-11-2007 کے اقدامات غیر آئینی ہیں۔ اور یہ ایسی بات ہے جس کا اعتراف خود سائل نے ملکی اور بین الاقوامی ابلاغ ِ عامہ کے سامنے کیا ہے۔