بڑھتی ہوئی آٹے کی قیمتوں کیخلاف لیاقت بلوچ کی درخواست پر وفاق اور صوبوں سے قیمتیں مقرر کرنے کے طریق کار پر 14 اپریل تک مفصل جواب طلب ، حکمرانوں کے کتے مربے کھارہے ہیں‘غریب آدمی کوسستا آٹا نہیں دے سکتے تو چوہے مار گولیاں ہی دے دیں ‘ جسٹس جواد ایس خواجہ،جب بھی اور جہاں بھی بنیادی انسانی حقوق اور آئین و قانون کی خلاف ورزی ہوگی سپریم کورٹ مداخلت کرے گی اور کسی کو معاف نہیں کرے گی،جمہوری حکومت عام لوگوں کو آٹا بھی سستے داموں فروخت نہیں کرسکتی تو اس کے اقتدار میں رہنے کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے،فاضل جج کے ریمارکس

منگل 8 اپریل 2014 06:17

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔8اپریل۔2014ء) بڑھتی ہوئی آٹے کی قیمتوں کیخلاف سپریم کورٹ نے جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ کی درخواست پر وفاق اور صوبوں سے 14 اپریل تک مفصل جواب طلب کیا ہے جبکہ مقدمے کی سماعت کے دوران تین رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دئیے ہیں کہ حکمرانوں کے کتے مربے کھارہے ہیں‘ اربوں روپے کی زمینیں اونے پونے داموں فروخت کی جارہی ہیں‘ کروڑوں روپے کے میلے ٹھیلے سجائے جارہے ہیں، غریب آدمی کوسستا آٹا نہیں دے سکتے تو چوہے مار گولیاں ہی دے دیں ‘ عوام کو اس طرح مرتا ہوا نہیں دیکھ سکتے‘ وفاق اور صوبے اچھی طرح جان لیں کہ جب بھی اور جہاں بھی بنیادی انسانی حقوق اور آئین و قانون کی خلاف ورزی ہوگی سپریم کورٹ ہر حال میں اور ضروری مداخلت کرے گی اور کسی کو معاف نہیں کرے گی اور جمہوری حکومت عام لوگوں کو آٹا بھی سستے داموں فروخت نہیں کرسکتی تو پھر اس کے اقتدار میں رہنے کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے۔

(جاری ہے)

خواتین اپنے بچے فروخت کررہی ہیں‘ لوگ خودکشیاں کررہے ہیں‘ اربوں روپے کے اثاثے مگر عام آدمیوں کو اشیائے ضروریہ تک دستیاب نہیں ہیں۔ انہوں نے یہ ریمارکس پیر کے روز درخواست کی سماعت کے دوران دئیے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ حکومت نے اناج کی قیمتیں اتنی بڑھادی ہیں کہ عوام الناس بہت پریشان ہیں۔ جمہوری حکومت تو لوگوں کے حقوق کا خیال رکھتی ہے اب ایسا کیوں نہیں ہورہا۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل عتیق شاہ عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے ان سے پوچھا کہ غریب آدمی کیا کرے۔ اسے چوہے مار گولیاں ہی دے دیں۔ ہمیں اتنی پرواہ نہیں ہوتی۔ ہماری تنخواہیں اور مراعات اتنی ہوتی ہیں کہ ضرورت نہیں ہوتی۔ اللہ نے ہمیں رزق دے رکھا ہے۔ جو غریب ہیں جن کے بچے ہیں وہ کہاں جائیں۔ یہ قیمت کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے۔ عتیق شاہ نے کہا کہ وزارت خوراک سے میٹنگ ہونی ہے۔

چاروں چیف سیکرٹریز نے بھی اس حوالے سے جواب مانگا تھا۔ عدالت نے کہا کہ ہم نے صوبوں کو بھی نوٹس دیا تھا۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد بتایا جائے کہ کیا صوبوں نے بھی لوگوں کو بھوکا مارنا ہے۔ عتیق شاہ نے بتایا کہ وزارت نیشنل فوڈ‘ سکیورٹی اینڈ ریسرچ کو احکامات دئیے گئے تھے۔ اس حوالے سے ان سے میٹنگ ہوئی تھی اس کی رپورٹ بھی چیمبر میں دینے کو تیار ہیں۔

جسٹس جواد نے کہا کہ رپورٹ نہیں دیکھ سکتے بتائیں کیا ہوا ہے۔ اجلاس تو بہت ہوتے رہتے ہیں۔ مفلوک الحال قوم کو ان اجلاسوں کا کیا فائدہ ہوا ہے وہ عدالت کو بتایا جائے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ یہ کچھ عرصہ پہلے کا مقدمہ ہے جس میں اب تک تین سے چار رپورٹس جمع کروائی گئی ہیں۔ 22 جنوری 2014ء کو آخری رپورٹ جمع کروائی گئی۔ جسٹس جواد نے کہا کہ تمام لاء افسران بتادیں کہ کیا یہ سپریم کورٹ کا کام ہے کہ وہ بتائے کہ غریب مر رہے ہیں سپریم کورٹ کچھ کرے۔

عتیق شاہ نے کہا کہ یہ بھی ریلیف کا ادارہ ہے اسلئے آپ بھی حکم جاری کرسکتے ہیں‘ جسٹس جواد نے کہا کہ بہت ہوگیا اب تو حکومت عوام پر رحم کرے۔ سندھ اور پنجاب کی رپورٹ سامنے ہے باقیوں کی بھی رپورٹ آئی ہوگی۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ان کے کہنے پر صوبوں نے الگ الگ رپورٹ دی ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہا کہ جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ نے درخواست دائر کی تھی۔

عدالت کب تک حکومت کے کام کرتی رہے۔ کیا حکومت بھی اپنے کام کرے گی یا نہیں۔ اب اس معاملے پر بھی ہمیں ہی نوٹس دینا پڑا۔ عتیق شاہ نے درخواست پڑھ کر سنائی جس میں کہا گیا تھا کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود عوام کو سستے داموں گندم نہیں مل رہی۔ عدالت عام ضروری اشیائے صرف کی ارزاں نرخوں کے تحت عدم فراہمی کا نوٹس لے جس پر عدالت نے جواب مانگا تھا۔

وزارت خوراک و پیداوار نے کہا کہ قیمتوں میں کمی بیشی کے وہ ذمہ دار نہیں ہیں۔ 2012-13ء کیلئے حکومت نے 1200 روپے فی 40 کلوگرام گندم کی سپورٹ قیمت مقرر کی تھی۔ صوبائی حکومتوں کاکام ہے کہ وہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر کنٹرول کرے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ قیمت وفاق مقرر کرے اور اس پر کنٹرول صوبائی حکومتیں کریں ایسا کیسے ہوگا۔ یہ تو ایسے ہی ہے کہ جیسے وفاق کہہ رہا ہے کہ یہ ہمارا ذمہ نہیں ہے اور صوبائی حکومتیں کہیں کہ قیمتیں یہ مقرر کرتے ہیں ہم قیمت کیسے کنٹرول کریں۔

اخراجات بارے بھی پتہ ہونا ضروری ہے۔ کسان کو اس کی محنت کا صلہ ملنا چاہئے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ حکومت نے 30 روپے فی کلوگرام گندم کی فروخت کا کہا تھا۔ نجی فلور ملز کی جانب سے آٹے کی قیمت بڑھانے سے یہ قیمت بڑھ جاتی ہے۔ آرٹیکل 38 کے تحت ریاست اپنے شہریوں کو بلاامتیاز ضروریات زندگی فراہم کرنے کی پابند ہے اس میں صحت‘ تعلیم اور خوراک شامل ہیں۔

عدالت نے ارزاں نرخوں پر آٹے کی فراہمی کا حکم دیا تھا اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کو 15 روز میں رجسٹرار کے پاس رپورٹس جمع کروانے کا بھی حکم دیا تھا۔ متعلقہ وزارت نے چاروں صوبائی چیف سیکرٹریز سے مشترکہ اجلاس بلایا تھا۔ عدالت نے کہا کہ آپ چاروں صوبوں اور وفاقی حکومت کی رپورٹس یکجاء کرکے ایک ڈاکومنٹ بنادیں۔ مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے۔

حکومت خود تو ضیافتیں کررہی ہے اور غریب کو سستا آٹا تک دستیاب نہیں۔ عوام مررہے ہیں‘ کیوں؟۔ عدالت پالیسی نہیں بناسکتی اوپر سے ہم پر الزامات بھی لگائے جاتے ہیں کہ سپریم کورٹ ہر معاملے میں مداخلت کرتی ہے لیکن وہ بنیادی انسانی حقوق کے ہر معاملے پر ضرور مداخلت کرے گی۔ میڈیا آئے روز رپورٹس دے رہا ہے کہ خواتین بچے فروخت کررہی ہیں۔ کئی واقعات تو سامنے بھی نہیں آتے۔

کونسی ایسی چیز ہے جس کی قیمت میں کمی واقع ہوئی ہے اور لوگوں کو سستی روٹی یا سستا آٹا ملا ہو۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کی معاونت کیلئے جامع رپورٹ جمع کروائیں گے۔ ایک عام شہری ہونے کے ناطے میں جاننا چاہتا ہوں۔ لوگ خوراک اور صحت کی سہولتوں سے محروم ہیں۔ ادویات تک نہیں ہیں۔ لوگ بیماری کی دوائی لینے کی بجائے صرف قہوہ پی کر جان بچا رہے ہیں۔

لوگ خودکشیاں کررہے ہیں۔ عدالتی حکم پر عمل ہوگا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ غریب لوگ 50 روپے فی کلو آٹا خریدنے کی بجائے 20 روپے کی چوہے مار گولیاں کھاکر مرنا زیادہ پسند کرتے ہیں‘ لاء افسر نے ایک ہفتے کا وقت مانگا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ چیف سیکرٹریز نے جنوری 2014ء میں رپورٹس دی تھیں اب تین ماہ گزر چکے ہیں۔ ہمیں آٹے کی تازہ قیمت بارے رپورٹ دی جائے اور قیمت بڑھانے کا طریقہ کار بھی بتایا جائے۔

اگر آٹا بھی عام آدمی کی پہنچ سے دور ہے تو پھر لوگوں کو اور کیا سہولت کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے۔ کروڑوں روپے کا میلہ رچالیا جاتا ہے مگر غریب لوگوں کو سستے داموں آٹا نہیں دیا جارہا۔ سرکار کی زمین پر قبضے ہورہے ہیں۔ اربوں روپے کی اراضی صرف صوبہ پنجاب میں خراب ہورہی ہے۔ محکمہ جنگلات بھی سو رہا ہے۔ 43 ہزار ایکڑ اراضی ادھر ادھر ہوگئی ہے ہر جگہ ہر چپے پر۔

68 مقدمات اب بھی زیر سماعت ہیں۔ 1947ء سے قبل انگریز اراضی تقسیم کرتے تھے مگر اب اس کی کیا ضرورت ہے۔ پرائیویٹ معاہدہ کرکے اراضی دی جارہی ہے۔ قیمتی پلاٹوں کی اگر بولی لگائی جائے تو قیمت اربوں میں جائے گی۔ فیصل آباد میں 248 ایکڑ اراضی اونے پونے داموں فروخت کی گئی ہے۔ یہ ذہن میں رکھ لیں کہ اس طرح کے معاملات پر سپریم کورٹ ضرور مداخلت کرے گی۔ لوگوں کو مر نے نہیں دے سکتے۔ آئین کی کتاب میں لکھا ہوا ہے لیکن اس پر عمل نہیں ہورہا۔ اگلے پیر کو اس کا جواب دیں۔

متعلقہ عنوان :